hamare masayel

‌ دلالی کی اجرت، کمیشن کی شرعی حیثیت، کمیشن کا حکم

‌ دلالی کی اجرت

سوال: سعودی میں پڑھنے والے بچوں کو وظیفہ ملتا ہے، اپنے یہاں کے ایک صاحب سے اسکے مینیجر نے کہا ہے کہ آپ بچوں کی تشکیل کرکے لائیں تو اس وظیفے سے یا کسی اور رقم سے آپ کو پیسہ دونگا، کیا انکے لئے یہ پیسہ لینا جائز ہے؟

المستفتی عبد اللہ قاسمی کٹولی کلاں۔

الجواب باسم الملهم للصدق والصواب:

صورت مسئولہ میں بچوں کے وظیفہ سے کاٹ کر دینے کے بجائے الگ سے اگر پہلے سے متعین اجرت دی جائے تو اس کی اجازت ہے اور اگر اجرت پہلے سے متعین نہ ہو تو اجرت مثل ملے گی۔

نوٹ: دلالی لینا فی نفسہ ناجائز ہے لیکن لوگوں کے تعامل اور ضرورت کی وجہ سے فقہاء نے اجازت دی ہے، حکیم الامت حضرت تھانوی علیہ الرحمہ نے امداد الفتاوی (3 – 366) میں جواز ہی راجح کو قرار دیا ہے، اس لئے مذکورہ شخص اس اجرت کو لے سکتا ہے۔

الدلائل

قال في الرد المحتار نقلاً عن البزازیة: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصکاک وما لا یقدر فیه الوقت ولا العمل تجوز لما کان للناس به حاجة ویطیب الأجر الماخوذ لو قدر أجر المثل. (شامي/ باب الإجارة الفاسدة 6؍47 دار الفکر بیروت، 9؍64، 9؍87 زکریا)

وفي الدلال والسمسار یجب أجر المثل وما تواضعوا علیه أن من کل عشرة دنانیر کذا فذٰلک حرام علیهم، کذا في الذخیرة۔ (الفتاویٰ الهندیة / الفصل الرابع في فساد الإجارة 4؍450 زکریا، کذا في المبسوط للإمام السرخسي/ باب السمسار 15؍115 دار الفکر بیروت، خلاصة الفتاویٰ 3؍116 لاهور، الأشباه والنظائر 148 إشاعة الإسلام دهلي).

 والله أعلم

تاريخ الرقم: 25 – 9 – 1439ھ 10 – 6 – 2018 م الأحد

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply