(سلسلہ نمبر: 309)
دوا سے حیض کو روکنا
سوال: ایک عورت ہے جسے رمضان کے شروع وآخر دونوں حصوں میں حیض آتا ہے، یعنی شروع میں سات دن حیض، پھر پندرہ دن طہر، پھر سات دن حیض آتا ہے، جس کی وجہ اس مبارک مہینے کے نصف میں عبادات سے محروم ہوجاتی ہے، اور چاہتی ہے کہ دوا کے ذریعہ دوسرے حیض کو عید تک مؤخر کردے تاکہ زیادہ عبادت کے لئے مل جائے، تو کیا شرعاً اس کی اجازت ہے یا نہیں؟
المستفتی: ڈاکٹر محمد یعقوب قاسمی ارنولہ اعظم گڑھ، مقیم حال ملیشیا۔
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:
دوا کے ذریعہ حیض کو روکنا اگرچہ ناجائز نہیں ہے، مگر طبی اعتبار سے نقصان دہ ہے، حیض کا خون خواتین کے لئے قدرت کے مقرر کردہ نظام کا حصہ ہے، اس لئے اس کے جاری ہونے سے دل برداشتہ نہیں ہونا چاہئے؛ بلکہ اپنی خواہش کے برعکس خدائی فیصلہ پر راضی رہنا چاہئے، اور ایامِ حیض میں جو احکامات شریعت نے بتائے ہیں، ان کی پاس داری کرنی چاہئے۔ اور دواؤں وغیرہ کا استعمال کرکے فطری نظام کو تبدیل نہیں کرنا چاہئے؛ تاہم اگر کوئی عورت پیشگی ایسی مجرب دوا استعمال کرلے جس سے خون کی آمد رک جائے تو شرعاً اس کی گنجائش ہے، اور جب تک خون باہر نہ نکل آئے اس وقت تک حیض کے احکامات جاری نہ ہوں گے، لہذا اگر یہ عورت دوا استعمال کرتی اور حیض رک جاتا تو روزہ نماز ادا کرنا ہوگا۔
الدلائل
قال الحصكفي: ورکنه بروز الدم من الرحم…، ووقت ثبوته بالبروز، فیه ترک الصلوٰۃ ولو مبتدأۃ في الأصح. (الدر المختار).
قال العلامة ابن عابدين الشامي: أي ظهورہ منه إلی خارج الفرج الداخل فلو نزل إلی الفرج الداخل فلیس بحیض في ظاهر الروایةض. (رد المحتار: 1/457 زکریا، شامي 1/284 کراچی).
یجب أن یعلم بأن حکم الحیض والنفاس والاستحاضۃ لا یثبت إلا بخروج الدم وظہورہ، وہٰذا ہو ظاہر مذہب أصحابنا رحمہم اللّٰہ وعلیہ عامۃ مشائخنا. (الفتاویٰ التاتارخانیۃ 1/476 رقم: 1269 زکریا).
واللہ أعلم
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له استاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.
12- 9- 1441ھ 6- 5- 2020م الأربعاء.
المصدر: آن لائن إسلام.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.