دوران عدت نکاح کا حکم
سوال: ایک شخص نے نادانستہ مطلقہ سے نکاح کرلیا مطلقہ کی طلاق ایک ماہ قبل ہوئی ہے دراں حالانکہ مطلقہ نے عدت بھی نہیں کی؛ کیا اس صورت میں نکاح درست ہوگیا؟
واضح جواب عنایت فرماکر مشکور فرمائیں۔
المستفتی: عبد الحسیب قاسمی۔
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:
اگر کوئی عورت عدت میں ہو اس سے کوئی جان بوجھ کر نکاح کرے تو نکاح باطل ہوگا فوراً دونوں جدا ہوجائیں، اور توبہ واستغفار کريں۔
ایسی صورت میں پہلی عدت پوری ہونے کے بعد دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔
اور اگر نکاح کرنے والے کو یہ معلوم نہیں تھا کہ عورت عدت میں ہے اور نکاح کرلیا تو ایسا نکاح فاسد ہے، اس شخص پر لازم ہے کہ اس عورت کو فوراً چھوڑ دے، اور اگر شوہر چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہو تو بیوی دار القضاء وغیرہ میں دعویٰ کرکے اپنا نکاح فسخ کرائے، اس کے ساتھ رہنا کسی طرح درست نہیں۔
نوٹ: نکاح فاسد میں اگر شوہر ثانی نے صحبت کرلی ہو تو ایک نئی عدت لازم ہوگی اور دونوں عدت کا تداخل ہوگا، یعنی اب سے تین حیض کے بعد دونوں عدت پوری ہوں گی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
الدلائل
أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لايوجب العدة إن علم أنها للغير؛ لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلاً. (رد المحتار: 3/ 132).
”واذا وطئت المعتدة بشبھة وجبت عدة أخری لتجدد السبب وتداخلتا‟. (رد المحتار: 2/ 337-338 باب العدة).
وفي الدرر: اعلم أن المرأة إذا وجب عليها عدتان، فإما أن يكونا من رجلين، أو من واحد، ففي الثاني لا شك أن العدتين تداخلتا، وفي الأول إن كانتا من جنسين كالمتوفى عنها زوجها إذا وطئت بشبهة، أو من جنس واحد كالمطلقة إذا تزوجت في عدتها فوطئها الثاني وفرق بينهما تداخلتا عندنا، ويكون ما تراه من الحيض محتسبا منهما جميعا، وإذا انقضت العدة الأولى ولم تكمل الثانية فعليها إتمام الثانية. اهـ. (رد المحتار: 3/519).
لو كان النكاح فاسداً ففرق القاضي إن فرق قبل الدخول لاتجب العدة، وكذا لو فرق بعد الخلوة، وإن فرق بعد الدخول كان عليها الاعتداد من وقت التفريق، وكذا لو كانت الفرقة بغير قضاء، كذا في الظهيرية. (الفتاوى الهندية:1/ 526).
والله أعلم
تاريخ الرقم: 25- 6- 1441ھ 20- 2- 2020م الخمیس.
المصدر: آن لائن إسلام.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.