سروگیسی (Surrogacy) يا كرائے كى كوكھ كى شرعى حيثيت
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی، انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو۔
کسی عورت میں تولیدی مادہ موجود ہے لیکن کسی مرض کی وجہ سے وہ حاملہ نہیں ہو سکتی یا یہ کہ وہ حمل کی مشقت کو برداشت کرنا نہیں چاہتی لیکن بچے کی خواہش رکھتی ہے اس لیے وہ دوسری عورت سے معاہدہ کرتی ہے جو رضاکارانہ طور پر یا مال کے عوض اپنے پیٹ میں اس کے بچے اور جنين کی پرورش کرتی اور جنم دیتی ہے، اس كا طريقہ كار يہ ہوتا ہے كہ پہلے مرد و عورت کے تولیدی مادے اور منى کو ٹیسٹ ٹیوب میں بارآور کیا جاتا ہے اور اس کے بعد اسے دوسری کسی عورت کے رحم میں منتقل کر دیا جاتا ہے اس کو سروگیسی یا متبادل مادریت اور كرائے كى كوكھ کہا جاتا ہے۔
شرعی اعتبار سے کسی ایسے مرد و عورت کے نطفے کی باہم بارآوری یا سیرابی حلال نہیں ہے جن میں میاں بیوی کا رشتہ نہ ہو کیونکہ نسل انسانی کی افزائش کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے نکاح، اس کے علاوہ حصول اولاد کی تمام شکلیں ناجائز ہیں۔ اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے:
{وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللَّهِ هُمْ يَكْفُرُونَ} [النحل: 72]
اور اللہ نے تم ہی میں سے تمہارے لیے بیویاں بنائی ہیں، اور تمہاری بیویوں سے تمہارے لیے بیٹے اور پوتے پیدا کیے ہیں، اور تمہیں اچھی اچھی چیزوں میں سے رزق فراہم کیا ہے۔ کیا پھر بھی یہ لوگ بےبنیاد باتوں پر ایمان لاتے اور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں ؟( سورہ النحل : 72)
اور ایک دوسری آیت میں ہے :
{نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ وَقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلَاقُوهُ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ } [البقرة: 223]
تمہاری بیویاں تمہارے لیے کھیتیاں ہیں لہذا اپنی کھیتی میں جہاں سے چاہو جاؤ اور اپنے لئیے (اچھے عمل) آگے بھیجو، اللہ سے ڈرتے رہو، اور یقین رکھو کہ تم اس سے جاکر ملنے والے ہو، اور مومنوں کو خوشخبری سنا دو ۔ (سورہ البقرۃ آیت : 223)
تفسیر
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک لطیف کنایہ استعمال کرکے میاں بیوی کے خصوصی ملاپ کے بارے میں چند حقائق بیان فرمائے ہیں، پہلی بات تو یہ واضح فرمائی ہے کہ میاں بیوی کا یہ ملاپ صرف لذت حاصل کرنے کے مقصد سے نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اسے انسانی نسل کی بڑھوتری کا ذریعہ سمجھنا چاہیے، جس طرح ایک کاشتکار اپنی کھیتی میں بیج ڈالتا ہے تو اس کا اصل مقصد پیداوار کا حصول ہوتا ہے اسی طرح یہ عمل بھی دراصل انسانی نسل باقی رکھنے کا ایک ذریعہ ہے، دوسری حقیقت یہ بیان فرمائی ہے کہ جب اس عمل کا اصل مقصد یہ ہے تو یہ عمل نسوانی جسم کے اسی حصہ (قبل) میں ہونا چاہیے جو اس کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے، پیچھے کا جو حصہ (دبر)اس کام کے لئے نہیں بنایا گیا، اس کو فطرت کے خلاف جنسی لذت کے لئے استعمال کرنا حرام ہے، تیسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ نسوانی جسم کا جو اگلا حصہ اس غرض کے لئے بنایا گیا ہے اس تک پہنچنے کے لئے راستہ کوئی بھی اختیار کیا جاسکتا ہے، یہودیوں کا خیال یہ تھا کہ اس حصے میں مباشرت کرنے کے لئے بس ایک ہی طریقہ جائز ہے یعنی سامنے کی طرف سے، اگر مباشرت آگے ہی کے حصے میں ہو لیکن اس تک پہنچنے کے لئے راستہ پیچھے کا اختیار کیا جائے تو وہ کہتے تھے کہ اولاد بھینگی پیدا ہوتی ہے، اس آیت نے یہ غلط فہمی دور کردی۔( آسان ترجمۂ قرآن .مفتی محمد تقی عثمانی)
کھیتی کے لفظ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کے حصول کا ذریعہ بیوی کو ہونا چاہیے اور اس کے لیے یہی ایک جگہ متعین ہے نہ تو مرد کے لیے جائز ہے اس کا نطفہ کسی دوسری عورت کے رحم میں پرورش پائے اور نہ عورت کے لیے گنجائش ہے کہ اس کے پیٹ میں اس کے شوہر کے علاوہ کسی دوسرے مرد کا بچہ پروان چڑھے۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْقِيَ مَاءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ – يَعْنِي إِتْيَانَ الْحَبَالَى -(سنن أبي داود: 2158)
اس حدیث میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی عورت کسی مرد سے حاملہ ہو تو پیدائش سے پہلے دوسرے مرد کے لیے اس سے جماع حرام ہے۔
اور دوسرے کی کھیتی کو سیراب کرنے سے مراد یہ ہے کہ اپنی بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت کے رحم میں اپنے نطفے کو رکھنا درست نہیں ہے.
لہذا سیروگیسی کی تمام شکلیں ناجائز ہیں الا یہ کی کوئی عورت کسی عورت کی سوکن ہو اور اس میں حمل کی صلاحیت نہ ہو تو وہ اپنے تولیدی مادے کو اپنے شوہر سے بارآور کر کے اپنے سوکن کے رحم میں اس کی پرورش کراسکتی ہے لیکن پیدا ہونے والا بچہ شرعی طور پر اس کی سوکن کا بچہ سمجھا جائے گا۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.