مروجہ قرآن خوانی کا حکم
سوال:
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته امید کہ مزاج عالی بخیر ہونگے
بعدہ عرض اینکہ کسی کے انتقال کے بعد بچوں سے قرآن خوانی کرواتے ہیں جس میں مرحومین کے ورثاء قرآن خوانوں میں شیرینی وغیرہ تقسیم کرتے ہیں، اس کا کیا حکم ہے؟ جواب مرحمت فرمائیں، عین کرم ہوگا.
المستفتی: مفتی عبد الماجد رشیدی خود کاشتہ سرائے میر اعظم گڑھ
الجواب باسم الملهم للصدق والصواب:
میت کو ثواب پہنچانے کے لئے قرآن خوانی کرنا یا کروانا فی نفسہ جائز اور درست ہے، البتہ اگر اس مبارک عمل کے لئے لوگوں کو کرایہ پر لایا جائے یا معاملہ بلا اجرت ہو لیکن بعد میں کچھ کھلانے یا دینے کا رواج ہو قرآن پڑھنے والوں کو جس کے حصول کا علم ہو یا قرآنی خوانی کے ساتھ دیگر رسومات ہوں تو یہ شرعا درست نہیں ہے، خواہ انفرادی طور پر ہو یا اجتماعی، اس سے میت کو کوئی ثواب نہیں پہنچے گا۔
اس لئے خود جتنا ہوسکے قرآن مجید پڑھ کر ایصال ثواب کریں، یہ اسلاف کے طریقہ کے مطابق ہے، اور اس میں اخلاص بھی ہوتا اور انشاء ﷲ مردہ کو فائدہ ہوگا، رسمی قرآن خوانی اسلاف سے ثابت نہیں، علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ اس قسم کی قرآن خوانی اور رسمی تقریبات کے متعلق معراج الدرایہ سے نقل فرماتے ہیں کہ یہ سارے افعال محض دکھاوے اور نام و نمود کے لئے ہوتے ہیں ، لہذا ان افعال سے احتراز کرنا چاہئے ۔ اس لئے کہ یہ صرف شہرت اور نام ونمود کے لئے ہوتا ہے، رضا ء الٰہی مطلوب نہیں ہوتی۔
اسی طرح جو لوگ قرآن خوانی میں شرکت کرتے ہیں عموماً ان میں بھی اخلاص نہیں ہوتا بہت سے لوگ اس لئے شرکت کرتے ہیں کہ اگر نہیں جائیں گے تو اہل میت ناراض ہوں گے اور بہت سے لوگ صرف شیرینی اور کھانے کی غرض سے حاضری دیتے ہیں، تو جب اخلاص ہی نہیں ہے تو ثواب کہاں ملے گا؟ اور جب پڑھنے والا ہی ثواب سے محروم ہے تو پھر ایصال ثواب کس طرح ہوگا؟
اسی طرح علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح عقود رسم المفتی میں تحریر فرماتے ہیں قرآن خوانی کرانے والے کو اگر یہ معلوم ہوجائے کہ مروجہ قرآن خوانی سے میت کو ثواب نہیں پہنچتا تو وہ پڑھنے والوں کو ایک ٹھیکرا بھی نہیں دے گا۔
اس لئے ایسی قرآن خوانی سے پرہیز ضروری ہے ہاں اگر جو لوگ بلا اجرت اور بلا شرط از خود جمع ہوجائیں اور قرآن پڑھ کر میت کے لئے ایصال ثواب کردیں اور بعد میں گھر والا بلا کسی رسم کے لوگوں کی چائے وغیرہ سے ضیافت کردے تو کوئی حرج نہیں. واللہ اعلم بالصواب۔
الدلائل:
ھذه الأفعال کلھا للسمعة والریا فیحترز عنھا لأنھم لا یریدون بھا وجه ﷲ تعالیٰ. (رد المحتار/الجنائز، مطلب في کراھیة الضیافة من أھل المیت ج۲/ ۲۷۰).
إن القرآن بالأجرة لایستحق الثواب لا للمیت ولا للقاري۔ (شامی زکریا ۹/ ۷۷).
المعروف کالمشروط۔ (الأشباه والنظائر ۱/۱۵۲).
وقال تاج الشریعة في شرح الهدایة: إن القرآن بالأجرة لا یستحق الثواب لا للمیت ولا للقاري۔ ویمنع القاري للدنیا والاٰخذ والمعطي اٰثمان۔ (شامی کراچی ٦/۵٦، زکریا ۹/۷۷).
وصار القارئ منهم لا يقرأ شيئا لوجه الله تعالى بل لا يقرأ إلا للاجرة وهو الرياء المحض الذي هو إرادة العمل لغير الله تعالى فمن أين يحصل له الثواب الذي طلب المستأجر أن يهديه لميته، وقد قال الإمام قاضي خان: إن أخذ الاجرة في مقابلة الذكر يمنع استحقاق الثواب ، ومثله في فتح القدير في أخذ المؤذن الأجر، ولو علم أنه لا ثواب له لم يدفع له فلسا واحدا، فصاروا يتواصلون إلى جمع الحطام الحرام بوسيلة الذكر والقرآن وصار الناس يعتقدون ذلك من أعظم القرب وهو من أعظم القبائح. الخ (شرح عقود رسم المفتي ص: 38-39 مكتبه سعيديه سهارن فور).
والله أعلم
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله
11/1/1440ه 22/9/ 2018م السبت
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.