hamare masayel

‌مسجد کی رقم کو مدرسہ میں قرض دینا جائز نہیں

‌مسجد کی رقم کو مدرسہ میں قرض دینا جائز نہیں

سوال : کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید کے گاؤں میں مدرسہ بن رہا ہے، دیواریں مکمل ہو چکی ہیں، چھت لدنی باقی ہے، مدرسے کا بجٹ ختم ہوچکا ہے اور زید ہی کے گاؤں کی مسجد کے پاس بجٹ ہے، کیا زید لوگوں کے باہم مشورہ سے مسجد سے بطور قرض روپیہ لے کر مدرسہ کی چھت لدوا سکتا ہے؟ زید اور اراکین مدرسہ کا پختہ ارادہ ہے کہ مسجد کا پیسہ جلد از جلد واپس کردیں گے، مہربانی فرما کر جلد از جلد مدلل جواب سے نوازیں، عین نوازش ہوگی۔

المستفتی محمد یوسف اعظمی ممبر ماہنامہ روشنی أعظم گڑھ۔

الجواب باسم الملهم للصدق والصواب:

اگر مسجد اور مدرسہ کا مشترکہ چندہ نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی مدرسہ مسجد کے تابع ہے تو ایسی صورت میں مسجد کی رقم کو بطور قرض مدرسہ میں دینا جائز نہیں۔

گاؤں کے لوگ اگر فی الحال مدرسہ کا تعاون نہیں کر سکتے ہیں تو کسی شخص سے قرض لے کر مدرسہ کی چھت لگوا لیں اور چندہ آنے پر قرض کو واپس کردیں۔

الدلائل

مع أن القیم لیس له إقراض مال المسجد، قال في جامع الفصولین: لیس للمتولي إیداع مال الوقف والمسجد إلا ممن في عیاله، ولا إقراضه فلو أقرضه ضمن. (البحر الرائق / کتاب الوقف 5؍239 کراچی)

وفي القنیة: ولا یجوز للقیم شراء شيء من مال المسجد لنفسه ولا البیع له، وإن کان فیه منفعة ظاهرة للمسجد. (البحر الرائق/ کتاب الوقف 5؍401 زکریا)

والودیعة لا تودع ولا تعار ولا تواجر ولا ترهن، وإن فعل شیئًا منها ضمن۔ (الفتاویٰ الهندیة / الباب الأول من کتاب الودیعة 4؍338 زکریا).

 والله أعلم

تاريخ الرقم: 24 – 9 – 1439ھ 9 – 6 – 2018 م السبت.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply