hamare masayel

مشترکہ فیملی میں والدین کا خرچہ

(سلسلہ نمبر: 468)

مشترکہ فیملی میں والدین کا خرچہ

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل کے بارے میں:

کہ زید ایک مشترکہ فیملی میں رہتا ہے زید اور اس کے تمام بھائی بھی ایک ساتھ رہتے اور کھاتے ہیں، زید ایک مدت تک اکیلا بیرون میں رہتا رہا اور اپنی تنخواہ اپنے والدین کو بھیجتا رہا اور زید کے بیوی بچے زید کے والدین کے ساتھ ہی رہے۔

دریں اثنا زید اپنے بیوی بچوں کو مختصر مدت کے لئے اپنے ساتھ بیرون لے گیا، جتنے دن زید اپنے بچوں کے ساتھ بیرون میں رہا اتنے دن زید نے اپنی تنخواہ اپنے والدین کو اس لئے نہیں دی کیونکہ بیوی بچوں کی کفالت اور دیگر مصارف اسی تنخواہ سے پورے کئے، یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ والد کی طرف ہبہ کی ہوئی زید کی مشترکہ  قابل کاشت آراضی سے جو آمد ہوئی وہ زید نے بالکل نہیں لی۔

اب زید کے بھائی تقاضا کرتے ہیں کہ زید اس مدت کی تنخواہ بھی گھر والوں کو دے جس مدت میں وہ اپنے بچوں کے ساتھ پردیس میں رہا ہے، حالانکہ اس طرح کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ از روئے شرع زید کیا کرے؟ کیا زید اپنے بچوں اور بیوی کی کفالت نہ کر کے تنخواہ اپنے گھر دیتا رہے؟ اور ایام غیبوبت کاشت کی آمدنی پر کس کا حق ہے؟ بینوا توجروا۔

 المستفتی: ریاض الدین مرزا پور۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

 اگر زید کے والدین تنگ دست ہیں اور ان کے پاس کوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہے تو ان کی تمام مذکر و مؤنث اولاد پر اپنی حیثیت کے مطابق خرچ دینا ضروری ہے، لیکن اگر کوئی ذریعہ آمدنی ہے تو وجوب ختم ہوجاتا ہے، جبکہ زید کے ذمہ اپنی بیوی اور نابالغ اولاد کا خرچہ ضروری ہے، لہذا زید سے ہر مہینہ کی تنخواہ کا مطالبہ درست نہیں ہے۔

اسی طرح مشترکہ زمین سے زید کے حصہ کی جو آمدنی ہوئی ہے وہ زید ہے، اس کی اجازت کے بغیر کسی کو استعمال کرنا جائز نہیں۔

الدلائل

قال الله تعالى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا﴾ (النساء: 29)

عن عمرو بن يثربي ، قال : خطبنا رسول الله ﷺ ، فقال : ” ألا ولا يحل لامرئ من مال أخيه شيء إلا بطيب نفس منه “. (مسند أحمد، رقم الحديث: 21082).

قال في متن الدرر وعلى الموسر يسار الفطرة  لأصوله  الفقراء إلخ ومثله في متن الملتقى والنقاية والمواهب وغيرها فكلهم قيدوا باليسار وفي الاختيار وكافي الحاكم ولا تجب النفقة على فقير إلا للزوجة وللولد الصغير. اهـ. (البحر الرائق: 4/ 223).

(قوله بالسوية بين الابن والبنت) هو ظاهر الرواية وهو الصحيح هداية، وبه يفتى خلاصة، وهو الحق فتح؛ وكذا لو كان للفقير ابنان أحدهما فائق في الغنى والآخر يملك نصابا فهي عليهما سوية خانية، وعزاه في الذخيرة إلى مبسوط محمد، ثم نقل عن الحلواني قال مشايخنا: هذا لو تفاوتا في اليسار تفاوتا يسيرا، فلو فاحشا يجب التفاوت فيها. بحر. (رد المحتار: 3/ 623).

والله أعلم

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.

13- 1- 1442ھ 2- 9- 2020م الأربعاء.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply