hamare masayel

شوہر کے انتقال کے بعد جہیز کی واپسی

شوہر کے انتقال کے بعد جہیز کی واپسی

سوال: ایک لڑکی کی شادی ہوتی ہے، تھوڑے عرصے کے بعد اسکے یہاں ایک بچے کی پیدائش ہوتی ہے؛ لیکن بحکم الہٰی اس کا شوہر جلد ہی انتقال کر جاتا ہے، لڑکی عدت میں بیٹھتی ہے، عدت ختم ہوجاتی ہے، تو کیا اب سامان کا لین دین دونوں طرف سے ہوگا؟ کیا لڑکی اپنا کل سامان سسرال سے منگوا سکتی ہے؟ اور کیا سسرال والے اس لڑکی کا وہ زیور جو انہوں نے شادی یا تقریب کے موقع پر اسے دیا تھا واپس لے سکتے ہیں؟

نوٹ: مرحوم شوہر کے والدین ابھی باحیات ہیں۔

مفتیان کرام سے درخواست ہے کہ براہ کرم تفصیل سے جواب دیں تاکہ سارا مسئلہ واضح ہو سکے.

المستفتی: صابر علی بینائی۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

طلاق وتفریق کی صورت میں جہیز کی واپسی میں عرف کو دیکھا جاتا ہے، یعنی اگر شوہر کی طرف سے دیا گیا جہیز اس کے عرف میں بیوی کو ملکیت کے طور پر دیا جاتا ہے، تو وہ سب بیوی کا ہے شوہر یا اس کے اولیاء وورثہ کو واپس لینے کا کوئی اختیار نہیں ہے، اور اگر عاریۃً صرف استعمال کے لئے دیا جاتا ہو تو شوہر کی ملکیت ہے، شوہر اس کو واپس لے سکتا ہے۔

لیکن چونکہ یہاں طلاق وتفریق نہیں بلکہ شوہر کا انتقال ہوا ہے اس لئے اگر سامان کے واپسی کا عرف ہو تو لڑکی والوں نے جو سامان جہیز دیا تھا وہ جس صورت میں موجود ہے اسی صورت میں واپس لے سکتے ہیں اور رشتے داروں کے لئے جو چیزیں مثلا کپڑا اور مٹھائی وغیرہ دی گئی تھیں وہ سب ہدیہ ہیں ان کی واپسی کا مطالبہ درست نہیں۔

اسی طرح لڑکے والوں کی طرف جو زیورات وغیرہ دئے گئے تھے اگر عرف میں اس کا مالک لڑکا ہی ہوتا ہے تو اب یہ تمام چیزیں اس کا ترکہ ہیں اس کے گھر والوں کا واپسی کا مطالبہ درست نہیں بلکہ اب  انتقال کے بعد اس کے ورثہ کے درمیان حسب حصص شرعیہ تقسیم ہوں گے۔

لہذا مرحوم شوہر کے کل ترکہ کو حقوقِ متقدمہ علی الارث کی ادائیگی کے بعد چوبیس حصوں میں تقسیم کریں گے جس میں اس کے والد کو چار حصے، والدہ کو چار حصے، بیوی کو تین حصے اور لڑکے کو تیرہ حصے ملیں گے۔  واللہ اعلم بالصواب۔

الدلائل

قال اللہ تعالیٰ: ﴿وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ﴾ (النساء: 11).

وقال الله تعالى:  ﴿فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم﴾ (النساء: 12).

أخرج سعید بن منصور في سننه عن الشعبي یقول: إذا دخلت المرأۃ علی زوجها بمتاع أو حلي، ثم ماتت فهو میراث، و إن أقام أہلها البینة أنه کان عاریة عندہا، إلا أن یعلموا ذلک زوجہا. (سنن سعید بن منصور/ باب ما جاء في متاع البیت إذا اختلف فیه الزوجان 1/349 رقم: 1503)

کما یستفاد من قوله في الدر: ولو بعث إلی امرأته شیئاً ولم یذکر جهة عند الدفع…، فقالت: ہو ہدیة، وقال: ہو من المهر، فالقول له بیمینه والبینة لها، فإن حلف والمبعوث قائم فلها أن تردہ وترجع بباقي المهر…، وکله إن لم یکن دفع لها شیئاً منه. (شامي 3/151 کراچی)

أن الجهاز للمرأۃ إذا طلقها تاخذہ کله. (شامي، کتاب النکاح، باب المهر، کراچی 3/158، زکریا 4/311)

والفتوی أنه إن کان العرف مستمراً أن الأب یدفع الجهاز ملکاً لا عاریةً. (الأشباہ والنظائر ص:  157)

وکذا مسألة دعوی الأب عدم تملیکه البنت الجهاز فقد بنوہا علی العرف مع أن القاعدۃ أن القول للملک في التملیک. (شرح عقود رسم المفتي ص: 96)

وفي الهندیة: لو جهز ابنته وسلمه إلیہا لیس له في الاستحسان استردادہ منها وعلیه الفتوی. (الفتاوی الهندیة 1/327 زکریا)

الثابت بالعرف کالثابت بالنص. (رسم المفتي ص:  25)

والله أعلم

تاريخ الرقم: 7- 8- 1441ھ 2- 4- 2020م الخميس.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply