معمول سے زیادہ طویل دن میں روزہ
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی۔ جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو یوپی۔
دنیا میں بعض علاقے ایسے بھی ہیں کہ وہاں دن معمول سے زیادہ طویل ہوتا ہے، مثلاً بیس یابائیس گھنٹے کا دن اور دویا چار گھنٹے کی رات ہوتی ہے، تو ایسے علاقے جہاں رات اور دن کا سلسلہ چلتا رہتا ہے، گرچہ رات یا دن کے اوقات بہت ہی مختصر کیوں نہ ہو، وہاں پورے دن روزہ رکھنا ضروری ہے، اس لیے کہ قرآن کے بیان کے مطابق روزے کی ابتدا صبح صادق سے اور انتہا سورج ڈوبنے پر ہوتی ہے۔
البتہ کمزوری، بڑھاپا، بیماری یا کسی اوروجہ سے روزہ رکھنا ناقابل بر داشت ہو جائے یاماہر اور قابل اعتماد ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق کسی بیماری میں مبتلاہونے یا بیماری کے بڑھ جانے کااندیشہ ہو تو اس کے لیے روزہ چھوڑ دینے اورپھردوسرے دنوں میں قضا کرلینے کی اجازت ہے، [1] اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّاوُسْعَھَا‘‘(سورہ البقرہ:286)
اللہ تعالیٰ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا ۔
رہے وہ علاقے جہاں رات اور دن کا سلسلہ نہیں رہتا ہے یعنی چوبیس گھنٹے میں تھوڑی دیر کے لیے بھی سورج نکلتا یا ڈوبتا نہیں ہے بلکہ مسلسل چوبیس گھنٹے کی رات یادن ہوتا ہے تو وہاں نماز کی طرح سے روزے کے لیے بھی اوقات کا اندازہ لگایاجائے گا اور اس جگہ سے قریب ترین ممالک کے اعتبار سے روزہ رکھاجائے گا جہاں دن اور رات کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
حواله
[1] المريض إذا خاف على نفسه التلف أو ذهاب عضو يفطر بالإجماع، وإن خاف زيادة العلة وامتدادها فكذلك عندنا، وعليه القضاء إذا أفطر كذا في المحيط. ثم معرفة ذلك باجتهاد المريض والاجتهاد غير مجرد الوهم بل هو غلبة ظن عن أمارة أو تجربة أو بإخبار طبيب مسلم غير ظاهر الفسق كذا في فتح القدير. والصحيح الذي يخشى أن يمرض بالصوم فهو كالمريض هكذا في التبيين
ومنها: العطش والجوع كذلك إذا خيف منهما الهلاك أو نقصان العقل كالأمة إذا ضعفت عن العمل وخشيت الهلاك بالصوم، وكذا الذي ذهب به موكل السلطان إلى العمارة في الأيام الحارة إذا خشى الهلاك أو نقصان العقل كذا في فتح القدير. الفتاوى الهندية (1/ 207)
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.