نماز میں عمل قلیل وکثیر کا حکم
سوال: نماز میں امام کا مائک تک اپنی آواز پہنچانے کی غرض سےقیام، رکوع وسجود کے وقت قدم بڑھاکر آگے پیچھے ہونا کہاں تک درست ہے؟ اس طرح کی حرکت سے کیا نماز بغیر نقص کے مکمل ہوجاتی ہے؟
المستفتی محمد خطیب أعظمی ممبر پاسبان علم وادب
الجواب باسم الملهم للصدق والصواب
نماز عمل کثیر سے فاسد ہوجاتی ہے اور عمل قلیل سے فاسد نہیں ہوتی، عام طور پر عمل کثیر وقلیل کی مندرجہ ذیل تین تعریفیں کی گئی ہیں:
(1) نمازی کو دور سے دیکھنے والا دیکھ کر یہ سمجھے کہ نماز میں نہیں ہے تو یہ عمل کثیر ہے، اگر شک کرے تو عمل قلیل ہے۔
(2) عمل کثیر اسے بھی کہا جاتا ہے کہ جس میں دونوں ہاتھوں کا استعمال کرنا پڑتا ہے، اور اگر ایک ہاتھ کا استعمال ہو تو قلیل ہے۔
(3) نماز پڑھنے والا جس کو کثیر سمجھے وہ کثیر ہے، جس کو قلیل سمجھے وہ قلیل ہے۔
ان تينوں میں پہلا قول راجح ہے۔
مندرجہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ رکوع وسجدہ کے وقت مائک سے قریب ہونا عمل کثیر نہیں ہے اس لئے نماز درست ہوجائے گی، پھر بھی بلا وجہ نماز میں ایسی حرکت نہیں کرنا چاہیئے؛ بلکہ حتی الامکان سکون واطمینان سے نماز پڑھنی چاہیے۔
الدلائل
قال الله تعالى: ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ﴾ (البقرة: 238).
وعن عائشة رضي اللّٰه تعالی عنها قالت: استفتحتُ الباب ورسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم یصلي تطوعاً، والباب علی القبلة، فمشی عن یمینه أو عن یساره، ففتح الباب ثم رجع إلی مصلاه. (سنن النسائي، السهو/ باب المشي أمام القبلة خطى یسیرة، رقم الحديث: 1202، سنن أبي داود، الصلاة/ باب العمل في الصلاة رقم الحديث: 922).
لو نظر إلیه ناظر من بعید إن کان لایشک أنه في غیر الصلاة فهو کثیر مفسد وإن شک فلیس بمفسد، وهذا هو الأصح…أن ما یقام بالیدین عادة کثیر وإن فعله بید واحدة …قلیل… أن یفوض إلی رأی المبتلی به وهو المصلي فإن استکثره کان کثیرًا، وإن استقله کان قلیلا. (الفتاوی الهندیة: 1/160، جدید زکریا).
والله أعلم
تاريخ الرقم: 7/9/1439ه 23/5/2018م الأربعاء
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.