hamare masayel

پراویڈنٹ فنڈ، پنشن اور ایل آئی سی کی وراثت

(سلسلہ نمبر: 770)

 پراویڈنٹ فنڈ، پنشن اور ایل آئی سی کی وراثت

سوال: میرے ایک دوست تھے جو کہ سرکاری ملازم (لیکچرر) تھے، تقریبا انہوں نے 22 سال ملازمت کی، اور ہوا یہ کہ ان کا اچانک کرونا وائرس کی وباء میں انتقال ہوگیا اور مرحوم کے نکاح میں دو بیویاں تھیں وہ اس طور پر کہ ان کی زندگی میں ہی پہلی بیوی کا انتقال ہوگیا جب کہ ان سے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہیں، بڑے بیٹے کی عمر تقریبا 24 سال ہے جو کہ اپاہج ہے اور والد کے انتقال کے بعد چھوٹے بیٹے کو سرکاری ( چپراسی ) کی نوکری ملی ہے جس کی عمر 21 سال ہے اور ایک بچی ہے جس کی عمر 15 سال ہے، لہذا مرحوم نے پہلی بیوی کے انتقال بعد دوسری شادی کرلی اور ان سے ایک لڑکا ہے جس کی عمر پانچ سال ہے اور مرحوم کے انتقال کے بعد پہلی بیوی کے بچوں کی کفالت دادی جان کر رہی ہیں چونکہ دوسری بیوی اپنے لڑکے کو لیکر مائیکے چلی گئیں نیز مرحوم کے اکاؤنٹ میں پانچ لاکھ روپئے تھے جن کو پہلی بیوی کے بچوں نے دو سال کے اندر خرچ کردیا ہے اور مرحوم کی دوسری بیوی کو تقریبا 50 ہزار پنشن بھی آرہی ہے تاکہ وہ بچوں کا اور اپنا بھی خرچ پورا کرسکیں لیکن وہ پہلی بیوی کے بچوں کی کفالت نہ کرکے صرف اپنے ہی بچے کو لیکر زندگی گذر بسر کر رہی ہیں، لہذا اس صورت میں کیا مسئلہ ہوگا نیز مرحوم کے گھر پر 14 لاکھ روپیہ ہے اور جی پی ایف کا بھی ایک فنڈ ہوتا ہے اس میں مرحوم کے 22 لاکھ ملے ہیں یہ جو کل رقم 36 لاکھ روپے بن رہی ہے وراثت میں ہیں یہ مال ورثاء میں کیسے تقسیم ہوگا؟ کیا اس میں مرحوم کی ماں کا بھی حق ہوگا؟ نیز مرحوم کے نام ایک ایل آئی سی ہے جو ہر سرکاری ملازمین کو کرانا پڑتا ہے اس کی وارث (Nominy) پہلی بیوی ہیں اس میں کون کون حق دار ہوگا؟ ان ساری چیزوں کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر سے معلومات لینی ہے کیسے یہ ساری چیزیں ورثاء میں تقسیم ہوں گی. سوال نمبر 2۔ مرحوم کی جو جائیداد وغیرہ ہے اس میں دونوں بیوی کے بچوں میں وراثت کیسے تقسیم ہوگی؟ کیا اس میں مرحوم کی ماں کا بھی حق ہوگا؟

قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں بہت بہت نوازش ہوگی۔ والسلام۔

المستفتی: شمش تبریز اعظمی

الجواب باسم الملہم للصدق والصواب: اوّلًا یہ سمجھنا چاہیے کہ پنشن اور نوکری سرکار کی طرف سے عطیہ ہے اسکا حق دار وہی شخص ہے جسکو یہ عطیہ ملا ہے، چنانچہ امداد الفتاوی میں ہے:

“چوں کہ میراث مملوکہ اموال میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسانِ سرکار ہے، بدون قبضہ کے مملوک نہیں ہوتا، لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں میراث جاری نہیں ہوگی، سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہے تقسیم کردے”۔ (کتاب الفرائض، عنوان: عدم جریان میراث در وظیفہ سرکاری تنخواہ،ج4،ص343، ط: دارالعلوم)

لہذا دوسری بیوی کے نام جو پچاس ہزار پنشن آرہی ہے، اس کی مالک تنہا دوسری بیوی ہے اس میں وراثت جاری نہیں ہوگی، البتہ اگر دوسری بیوی اس میں سے پہلی بیوی کے بچوں اور ماں کا خرچہ دیدے تو بہتر ہے کیونکہ عرف میں پنشن کو تمام ورثہ کا حق سمجھا جاتا ہے۔ (کتاب النوازل: 18/ 337)

اسی طرح ایل آئی سی کے بارے میں بنیادی بات معلوم ہونی چاہئیے کہ جتنی رقم خود جمع کی ہے اس کا استعمال جائز ہوتا ہے بقیہ جو اضافہ ملتا ہے اس کا استعمال حرام ہوتا ہے اس کو بلا نیت ثواب غریبوں کو دینا ضروری ہے، لہذا ایل آئی سی میں مرحوم نے جتنی رقم جمع کی تھی وہ مرحوم کے ترکہ میں شمار ہوگی اور سارے ورثاء کے درمیان تقسیم ہوگی، کسی کو نامنی کرنے کا مقصد اپنے مرنے کے بعد اس رقم کے وصول کرنے کا اختیار دینا ہوتا ہے ، مالک بنانا نہیں، لہذا اس رقم کی مالک تنہا پہلی بیوی نہیں ہے۔ (فتاوی محمودیہ: 30/ 193، زکریا).

اسی طرح فنڈ سے ملنے والی رقم بھی تمام ورثہ کا حق ہے۔

اب تفصیل کے بعد جاننا چاہئیے کہ مرحوم کا کل ترکہ اکتالیس لاکھ روپیہ ہے، پانچ لاکھ بینک اکاؤنٹ کا جسے پہلی بیوی کے بچوں نے خرچ کرلیا، چودہ لاکھ گھر پر رکھے ہوئے اور چھتیس لاکھ فنڈ کے، اب اس اکتالیس لاکھ روپئے کی تقسیم 168 حصوں میں ہوگی، جس میں سے دوسری بیوی کو 21 حصے یعنی 512500.00، روپئے، تینوں لڑکوں میں سے ایک ایک کو 34 حصے، یعنی 829761.90 روپئے، لڑکی کو 17 حصے یعنی 414880.95 روپئے اور ماں کو 28 حصے، یعنی 683333.33 روپئے ملیں گے۔

اسی طریقہ سے جائداد میں بھی 168 حصے کرکے بیوی کو 21، ہر بیٹے کو 34 بیٹی کو 17 ، اور ماں کو 28 حصے ملینگے۔

نوٹ: پہلی بیوی کے بچوں نے جس پانچ لاکھ کو پہلے خرچ کرلیا ہے اسے ترکہ کی تقسیم کے وقت ان کے حصے سے کم کردیا جائے۔

الدلائل

قال الله تعالى: يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ. (النساء: 11).

وقال تعالى: وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ. (النساء: 12).

إذا اختلط البنون والبنات عصب البنون البنات فيكون للابن مثل حظ الأنثيين لقوله تعالى {يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين} [النساء: 11] (تبيين الحقائق: 6/ 224).

أما أصل الحكم فهو ثبوت الملك للموهوب له في الموهوب من غير عوض لأن الهبة تمليك العين من غير عوض فكان حكمها ملك الموهوب من غير عوض. (بدائع الصنائع: 6/ 127، ط: دار الکتب العلمیة).

المدرس لو مات أو عزل في أثناء السنة قبل مجيء الغلة وظهورها من الأرض، يعطى بقدر ما باشر، ويصير ميراثا عنه كالأجير إذا مات في أثناء المدة. (رد المحتار: 4/ 483، سعيد).

وتنفسخ الإجارة بموت أحد المتعاقدين، أي أحد من الآجر والمستأجر، وأن المنافع والأجرة صارت ملكًا للورثة. (مجمع الأنهر: 3/ 559، كوئته).

والله أعلم.

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.

21- 12- 1444ھ 10-7- 2023م الاثنين

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply