پیدائش کے موقع پر فون کے ذریعے اذان
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی، جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو یوپی۔
پیدائش کے بعد بچے کے دائیں کان کے پاس اذان کہنا اور بائیں کان کے پاس اقامت کہنا سنت ہے، چنانچہ بعض روایتوں میں ہے کہ:
’’من ولد له ولد فأذن في أذنه اليمنی، وأقام في أذنه اليسری لم تضرہ أم الصبيان‘‘.[1] (مسند أبي يعلى الموصلي: 6780. عمل اليوم والليلة لابن السني :623)
پیدائش کے موقع پر بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے تو بچہ شیطانی اثرات سے محفوظ رہیگا ۔
اور حضرت ابو رافعؓ کہتے ہیں کہ:
’’رأيت رسول الله ﷺ أذن في أذن الحسن بن علي حين ولدت فاطمة بالصلاۃ‘‘ (رواہ أحمد، وكذلك أبو داود والترمذي وصححه. (نيل الأوطار: 1060/2)
میں نے دیکھا کہ جب حضرت فاطمہ کے یہاں حسن بن علی کی ولادت ہوئی تو اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان دی ۔
ملا علی قاری اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’حين ولدت فاطمة يحتمل السابع وقبله‘‘ (مرقاة المفاتيح 75/7)
حضرت فاطمہ کے یہاں ولادت کے موقع پر اذان دی میں احتمال ہے کہ پیدائش کے ساتویں دن اذان دی گئی یا اس سے پہلے۔
بچے کے کان میں اذان دینے کی حکمت یہ ہے کہ اذان کے کلمات اسلامی تعلیمات کا خلاصہ اور مغز ہیں اور وہ دنیاوی ترقی اور اخروی کامیابی و نجات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں چنانچہ سب سے پہلے اللہ کی عظمت و برتری اور توحید کا بیان ہے اور اس کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعلان اور پھر اسلامی زندگی اور عمل صالح کا تذکرہ اور پھر مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور وہاں کی کامیابی کا ذکر اور آخر میں دوبارہ اللہ کی عظمت و برتری کا اعلان ہے ۔
اس لئے دنیا میں آنے کے بعد سب سے پہلے اذان کے ذریعے اس کے دل کی گہرائیوں میں ایمان وعمل کے جذبات کو پیوست کرنا ہے ۔
نیز اذان سے شیطان دور بھاگتا ہے لہذا اذان دینے کی وجہ سے وہ شیطانی اثرات سے محفوظ رہیگا ۔
اور بچے کے کان میں اذان کے آداب کے سلسلے میں علامہ سندھیؒ کہتے ہیں کہ:
پیدائش کے موقع پر بچے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لیکر قبلہ رو ہوجائے اور اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہے اور حی علیٰ الصلاۃ کہتے ہوئے دائیں طرف اور حی علیٰ الفلاح کہتے ہوئے بائیں طرف رخ کرے۔[2]
اور جیسا کہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ اذان ایک عبادت ہے اور عبادت کے معاملے میں صحیح طریقہ یہی ہے کہ اس کو اصل شکل میں باقی رکھا جائے اس لئے پیدائش کے موقع پر فون کے ذریعے اذان دینا صحیح نہیں ہے اور اگر کسی وجہ سے فوری طور پر اذان دینا ممکن نہ ہو تو عذر کے زائل ہونے تک اسے موخر کردیا جائے اور پھر براہ راست اذان دی جائے کیونکہ اذان کے لئے کسی وقت اور دن کی پابندی ضروری نہیں ہے گرچہ بہتر یہی ہے کہ جلد سے جلد اس سنت کو ادا کرلیا جائے۔
حوالاجات
[1] أم الصبيان هي التابعة من الجن، ھکذا أوردہ الحديث في التلخيص، ولم يتکلم هليه، (نيل الأوطار: 1060/2)
[2] ’’فيرفع المولود عندالولادۃ علی يديه مستقبل القبلة ويؤذن في أذنه اليمنی ويقيم في اليسری ويلتفت فيها بالصلاۃ لجهة اليمين، وبالفلاح لجهة اليسار‘‘. (تقريرات الرافعي علی الرد: 145/2)
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.