hamare masayel

عشاء سے قبل چار رکعت سنت کی تحقیق

(سلسلہ نمبر: 306)

 عشاء سے قبل چار رکعت سنت کی تحقیق

سوال: کیا عشاء سے قبل کی چار رکعت حدیث سے ثابت ہے؟ حديث کی کتاب کے حوالے کے ساتھ جواب مطلوب ہے۔

  المستفتی: محمد مسیح اللہ گجرات۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

 عشاء کی فرض سے قبل چار رکعت مندوب ومستحب ہیں اور یہ بات تمام کتب فقہ حنفی میں مذکور ہے، البتہ اس سلسلہ میں کوئی مخصوص صحیح حدیث تلاش بسیار کے باوجود نہیں ملی، عام احادیث اور قیاس کے ذریعہ فقہائے احناف نے انہیں مندوب قرار دیا ہے۔

امداد الفتاوی میں حضرت تھانوی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ شاید ظہر یا عصر پر قیاس کیا ہو۔

البتہ حضرت عبد ﷲ بن مغفل کی روایت: بین کل أذانین صلاۃ (یعنی ہر اذان وتکبیر کے درمیان نماز ہے بشرطیکہ کوئی مانع نہ ہو) کے عموم سے عشاء سے  قبل بھی دو یا چار رکعت پڑھنے کا استحباب معلوم ہوتا ہے، فقیہ احناف علامہ ابراہیم حلبیؒ فرماتے ہیں: کہ عشاء سے قبل چار رکعت کے بارے کوئی مخصوص حدیث وارد نہیں ہے؛ لیکن حدیث شریف: “بین کل أذانین صلاۃ،  بین کل أذانین صلاۃ” کے عموم سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔

نوٹ: ہدایہ کے حاشیہ، اشباہ کی شرح غمز عیون البصائر اور مظاہر حق وغیرہ میں ایک روایت سنن سعید بن منصور کے حوالے سے ضعیف سند سے مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ مذکور ہے:

“من صلى قبل العشاء أربعاً، كان كأنما تهجد من ليلة، ومن صلاهن بعد العشاء، كان كمثلهن من ليلة القدر”.

     لیکن یہی روایت نصب الرایہ، بیہقی اور اعلاء السنن وغیرہ میں قبل العشاء کے بجائے قبل الظھر کے لفظ سے مروی ہے، اسی طرح حدیث کی بعض کتابوں میں قبل العشاء کے بجائے بعد العشاء مروی ہے۔

معلوم ہوا کہ سنن سعید بن منصور کی روایت میں ضعف فی الاسناد کے ساتھ اضطراب فی المتن بھی ہے۔

اسی طرح البحر الرائق اور امداد الفتاح شرح نور الایضاح وغیرہ میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے أن رسول الله  ﷺ كان يصلي قبل العشاء أربعا، ثم يصلي بعدها أربعا، ثم يضطجع، لیکن یہی روایت نصب الرایہ میں سنن ابی داؤد وسنن النسائی اور مسند احمد کے حوالہ سے اس طرح موجود ہے:

 عن عائشة قالت: ما صلى النبي  ﷺ العشاء قط، فدخل علي إلا صلى أربع ركعات أو ست ركعات.

معلوم ہوا کہ یہ آپ  ﷺ کا مستقل معمول نہیں تھا، لہذا اس روایت کو مطلقاً بیان کرنا مناسب نہیں۔

مذکورہ بالا وضاحت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ عشاء سے قبل چار رکعت سنت کے بارے خصوصیت کے ساتھ کوئی روایت موجود نہیں لیکن امت کا اس پر عمل رہا ہے اس لئے یہ مستحب اور مندوب ہیں، انہیں پڑھنے کی کوشش کرنی چاہئیے، خواہ چار رکعت ایک سلام سے پڑھیں یا دو سلام سے، واللہ اعلم بالصواب۔

الدلائل

قال الحلبيؒ في الغنیۃ: أما الأربع قبل العشاء فلم یذکر في خصوصھا حدیث؛ لکن یستدل بعموم ما رواہ الجماعۃ أنہ ﷺ قال بین کل أذانین صلوۃ، بین کل أذانین صلوۃ، ثم قال بعد الثالثۃ لمن شاء فہذا مع عدم المنافي من التنفل قبلہا یفید الاستحباب؛ لکن کونہا أربعا یتمشی علی قول أبي حنیفۃؒ لأنہا الأفضل عندہ۔ (حلبي کبیر، کتاب الصلاۃ، فصل في النوافل، مکتبۃ أشرفیۃ دیوبند ص:385).

وندب أربع قبل العشاء لما روي عن عائشۃؓ، أنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان یصلي قبل العشاء أربعًا، ثم یصلي بعدہا أربعًا، ثم یضطجع۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، فصل في بیان النوافل، مکتبۃ دار الکتاب دیوبند ص:390).

وأما التطوع قبل العشاء فإن تطوع قبلہا بأربع رکعات فحسن۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الصلاۃ، الفصل الحادي عشر في مسائل التطوع، مکتبۃ زکریا دیوبند 2/300، رقم:2488)

وندب الأربع قبل العصر والعشاء. (الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب التاسع في النوافل قدیم زکریا 1/112، جدید زکریا 1/172).

ویستحب أربع قبل العصر وقبل العشاء۔ (الدر المختار مع الشامي، کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مکتبۃ زکریا دیوبند 2/452، کراچي 2/13).

وأما الأربع قبل العشاء فذکروا في بیانہ أنہ لم یثبت أن التطوع بہا من السنن الراتبة فکان حسنا لأن العشاء نظیر الظہر في أنہ یجوز التطوع قبلہا وبعدہا کذا في البدائع، ولم ینقلوا حدیثا فیہ بخصوصہ لاستحبابہ اھ (البحر الرائق:2/ 88 مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند).

واللہ أعلم

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له استاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند

10- 9- 1441ھ 4- 5- 2020م الاثنین.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply