hamare masayel

بیماری کی وجہ سے حمل ساقط کرانا، اسقاط حمل

بیماری کی وجہ سے حمل ساقط کرانا

سوال: ڈیڑھ ماہ کا حمل ہے عورت کو جان جانے کا خطرہ ہے تو کیا کرنا ہے؟ شوہر کا کہنا ہے کہ آخر تک جانے میں دونوں میں سے ایک کو خطرہ ہے، ایسی صورت میں کیا جائے؟ رہنمائی فرمائیں۔

المستفتی: عاصم کمال بیری ڈیہہ اعظم گڑھ۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

بچے کے جسم میں روح پڑنے سے پہلے مجبوری کی صورت میں حمل کو ضائع کیا جاسکتا ہے، حمل میں روح پڑنے کی مدت چار مہینہ (ایک سو بیس دن) ہے، لیکن ایسی صورت میں جب تک اچھی طرح معلومات نہ ہوجائے ایسا نہیں کرنا چاہئیے اس لئے کئی ڈاکٹروں کو دکھا کر اطمینان حاصل کرلیا جائے، واللہ اعلم بالصواب۔

الدلائل

 ویکرہ أن تسعی لإسقاط حملھا وجاز لعذر حیث لا یتصور. (الدر المختار)

 قوله: (قوله ویکرہ الخ) أي مطلقاً قبل التصور و بعدہ علی ما اختارہ في الخانیة کما قبیل الاستبراء وقال: ألا إنھا لا تأثم إثم القتل (قوله وجاز لعذر) کالمرضعة إذا ظھربه الحبل وانقطع لبنھا، ولیس لا بالصبی ما یستأجر به الظئر، ویخاف ھلاک الولد، قالوا: یباح لھا أن تعالج في استنزال الدم ما دام الحمل مضغة أو علقة ولم یخلق له عضو وقدروا تلک المدة بمائة وعشرین یوماً، وجاز لأنه لیس بآدمي وفیه صیانة الآدمي. خانیة (قوله حیث لا یتصور ) فیه لقوله: وجاز لعذر والتصور کما في القنیة: إن یظھر له شعر أو أصبع أو رجل أو نحو ذلک. (در المختار و شامی 5/ 379، قبیل کتاب إحیاء الموات)

والله أعلم

14- 5- 1441ھ 10- 1- 2020م الجمعة.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply