(سلسلہ نمبر: 814)
اپنی جائیداد کو زندگی میں تقسیم کرنا
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں:
میرے پانچ لڑکے اور ایک لڑکی ہے اور میری زوجہ ہے، سب ایک ساتھ رہتے ہیں مگر اب لڑائی جھگڑا ہونے کی وجہ سے میں سب کو الگ الگ کرنا چاہتا ہوں، میرے تین لڑکوں نے اپنی کمائی سے اپنی اپنی زمین خریدی ہے میں کس طرح تقسیم کروں تاکہ مجھے گناہ نہ ہو. بینواوتوجروا۔
المستفتی: غفران احمد سرائے میر۔
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک اور مختار ہوتا ہے، جس میں ہر طرح کا جائز تصرف کر سکتا ہے، اسی طرح والدین کی زندگی میں اولاد کا کوئی حق وحصہ نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل ہوتا ہے؛ تاہم اگر صاحب جائیداد اپنی زندگی میں اپنی مرضی سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کر سکتا ہے اور اس کو شرعا ہبہ کہتے ہیں۔
ہبہ کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنے اور اپنی بیوی کے لیے جتنا رکھنا چاہے رکھ لے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے اور بقیہ مال اپنی اولاد کے درمیان برابر برابر تقسیم کر دے یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے۔
البتہ کسی بیٹے یا بیٹی کو اس کی خدمت یا غربت کی وجہ سے کچھ زیادہ دینا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے بشرط کی کسی کو نقصان پہنچانے کا ارادہ نہ ہو لہذا صورت مسئولہ میں آپ اپنے اور اپنی بیوی کے لیے جو رکھنا چاہے رکھ لیں بقیہ بچوں کے درمیان برابر تقسیم کر دیں اور اگر کچھ مالی طور پر پریشان ہوں تو ان کو کچھ زیادہ بھی دے سکتے ہیں اسی طرح بیٹی کو بیٹے کا آدھا دینے کی بھی اجازت ہے۔
آپ کے لڑکوں نے اپنی کمائی سے جو زمین خود خریدی ہے وہ ان کی ہے اس میں دوسرے بھائی بہن کا حق نہیں ہے۔
الدلائل
عن النعمان بن بشير رضي الله عنه وهو على المنبر يقول: أعطاني أبي عطية فقالت عمرة بنت رواحة : لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية فامرتني أن أشهدك يا رسول الله؛ قال: أعطيت سائر ولدك مثل هذا؟ قال: لا قال: فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم٬ قال: فرجع فرد عطية. (صحيح البخاري٬ رقم الحديث:٢٥١٥)
وان قصده فسوى بينهم٬ يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى٬ أي على قول ابي يوسف من أن التنصيف بين الذكر والانثى أفضل من التثليث الذي قول محمد. (رد المحتار : ١٠٥/٨).
يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى. (الفتاوى الهندية: ٣٩١/٤)
والله أعلم.
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.
23- 1- 1446ھ 30-7- 2024م الثلاثاء
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.