hamare masayel

ایک دو تین کہنے سے طلاق

ایک دو تین کہنے سے طلاق

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین شرع متین درج ذیل مسئلہ کے بارے میں: زید کی بیوی کسی کے یہاں چلی گئی اور زید اس کو بلانے گیا وہ آنے کیلئے تیار نہیں تھی زید نے غصے میں آکر کہا: ایک، دو، تین طلاق، آیا اب زید نے جو غصہ میں کہا ہے اس سے طلاق واقع ہوگئی؟ اگر ہوگئی تو رجعی، یا بائن ہوئی۔

 المستفتی: ایم اے رشید سیتامڑھی۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

لڑائی جھگڑے اور غصہ کی حالت میں شوہر کا اپنی بیوی سے ’’ایک، دو تین‘‘، کہنا بظاہر نیت طلاق کا قرینہ ہے؛ اور بعد میں زید نے طلاق بھی کہا ہے اس لئے زید کی بیوی تین طلاق واقع ہوگئی ہے اَب حلالۂ شرعیہ کے بغیر اُن دونوں میں اِزدواجی تعلق قائم نہیں رہ سکتا۔

الدلائل

ولو قال لامرأته: أنت بثلاث، قال ابن الفضل: إذا نوی یقع … ولو قال: أنت مني ثلاثًا طلقت إن نوی، أو کان في مذاکرۃ الطلاق. (شامي، کتاب الطلاق/ باب الصریح، مطلب قول الإمام: إیمان کإیمان جبرئیل 4/497 زکریا)

وإذ قال لامرأته: تو یکے، تو سہ أو قال: ترا یکے، ترا سہ، في الظهیریة … ینبغي أن یکون الجواب علی التفصیل إن کان في حال مذاکرۃ الطلاق أو في حال الغضب یقع وإلا فلا یقع إلا بالنیة. (الفتاوی التاتارخانیة 4/418 رقم:  6574 زکریا)

والله أعلم

تاريخ الرقم 5- 8- 1441ھ 31- 3- 2020م الثلاثاء.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply