hamare masayel

بغیر دعائے قنوت کے وتر کا حکم

(سلسلہ نمبر: 537)

بغیر دعائے قنوت کے وتر کا حکم

سوال: حضرت مفتی صاحب مسئلہ یہ پوچھنا تھا کہ زید اپنے بالغ ہونے کے ایّام سے لیکر اب تک وتر واجب کی تیسری رکعت میں دوسری تکبیر ودعائے قنوت کو نہ ادا کر کے رکوع میں چلا جاتا تھا تو حضرت اس کی وضاحت کردیں کہ زید کو اپنی تمام وتر واجب کی قضاء بھرنی ہوگی یا نہیں؟ یا پھر کیا صورت ہوگی؟ حضرت اطمینان بخش جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

المستفتی:  اسامہ اعظمی۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: وتر کی تیسری رکعت میں مطلق دعا واجب ہے، اور واجب کے چھوڑنے کی وجہ سے وقت کے اندر نماز کو دوبارہ پڑھنا واجب ہوتا ہے، اور وقت ختم ہونے کے بعد مستحب ہے ضروری نہیں۔ چونکہ اب وقت ختم ہوچکا ہے اس لئے اب ان نمازوں کا اعادہ ضروری نہیں ہے۔

الدلائل

“ويجب قراءة قنوت الوتر” المراد أنه واجب صلاة الوتر لا واجب مطلق الصلاة والمرادمطلق الدعاء وأما خصوص اللهم الخ فسنة حتى لو أتى بغيره جاز إجماعا. نهر. (حاشية الطحطاوي على المراقي: 1/ 252).

وفي الولوالجیة: الأصل فی ھذا أن المتروک ثلاثة أنواع فرض وسنة، وواجب … وفی الثالث إن ترک ساھیاً یجبر بسجدتي السھو وان ترک عامداً لا، کذا فی التاتارخانیۃ، وظاھر کلام الجم الغفیر أنه لا یجب السجود فی العمد وانما تجب الإعادۃ جبراً لنقصانه. (الفتاوى الهندية: 1/ 124).

وظاهر كلام الجم الغفير أنه لا يجب السجود في العمد وإنما تجب الإعادة إذا ترك واجبا عمدا جبرا لنقصانه. (البحر الرائق: 2/ 98).

فالحاصل أن من ترك واجبا من واجباتها أو ارتكب مكروها تحريميا لزمه وجوبا أن يعيد في الوقت، فإن خرج أثم ولا يجب جبرالنقصان بعده. فلو فعل فهو أفضل. اهـ. (رد المحتار: 2/ 64).

والله أعلم.

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.

6- 4- 1442ھ 22- 10- 2020م الأحد.

المصدر: آن لائن إسلام

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply