بچہ دانی میں ورم يا كينسر كے علاج ميں طہارت كا مسئلہ
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی۔ جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو۔
بچہ دانی میں ورم یا کینسر کا علا ج دو طرح سے کیاجاتا ہے، ایک ریزکے ذریعے اس کی سینکائی کی جاتی ہے اور دوسرے بچہ دانی کو کاٹ کر نکال دیا جاتا ہے، پہلی صورت میں علاج کے دوران یا اس کے بعد آنے والے خون کو حیض کاخون سمجھاجائے گا بشرطیکہ وہ حیض کے دنوں میں آئے اور اگر حیض کے دنوں کے علاوہ آئے تو اسے استحاضہ کا خون باور کیا جائے گا کیوں کہ وہ رگوں کا خون ہے جو اس کے علاج کی وجہ سے بہہ پڑا ہے، رسول اللہ ﷺ سے حضرت فاطمہ بنت جیش نے پوچھا:
’’إني استحاض فلا أطھر أفأدع الصلوٰۃ؟ فقال علیه الصلاۃ والسلام: “لا إنما ذلک عرق ولیس بحیض فإذا أقبلت حیضتک فدعی الصلاة، وإذا أدبرت فاغسلي عنک الدم ثم صلي‘‘(صحیح البخاری: 226)
مجھے استحاضہ کا مرض لاحق ہے کیا نماز چھوڑ دوں ؟فرمایا : نہیں ۔وہ تو رگ کا خون ہے ۔حیض نہیں ہے ۔لہذا جب تمہارے حیض کا زمانہ آئے تو نماز نہ پڑھو اور جب وہ وقت ختم ہوجائے تو خون دھوکر اور غسل کرکے نماز پڑھو۔
اس حدیث میں کہا گیا ہے کہ جب تمہارے حیض کا زمانہ آئے تو نماز چھوڑ دو، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حیض کی عادت کے دنوں کے علاوہ جو خون آئے اسے حیض کا خون نہیں سمجھاجائے گا۔
دوسری صورت میں جب کہ بچہ دانی کوختم کردیاجائے اور اس کے بعد بھی خون آئے تو اسے حیض کاخون نہیں سمجھاجائے گا، کیونکہ حیض کا خون وہ ہے جو بچہ دانی سے آئے، چنانچہ حیض کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
’’ھوالدم الخارج من الرحم الممتد إلی وقت معلوم‘‘(تحفة الفقهاء/33)
حیض وہ خون ہے جو بچے دانی سے آئے اور ایک مخصوص وقت تک دراز رہے۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.