hamare masayel

بیوی کے انتقال کے بعد جہیز وغیرہ کی واپسی

(سلسلہ نمبر: 450)

بیوی کے انتقال کے بعد جہیز وغیرہ کی واپسی

سوال: زید کی شادی دو سال قبل عالیہ سے ہوئی تھی، ایک بیٹی تولد ہوئی؛ جو نو مہینے کی ہے، عالیہ کا ایک حادثہ فاجعہ میں انتقال ہوگیا؛ اس پس منظر میں چند امور دریافت طلب ہیں:

(1) شادی کے موقع پر عالیہ کے ماں باپ کی طرف سے دیا ہوا زیور زید کو کیا لوٹانا ہوگا؟

(2) کیا شادی کے موقع پر دیا ہوا جہیز؛ ملبوسات؛ فرنیچر بھی واپس کرنا ہوگا؟

(3) مہر ادا بشکل زیور ادا کر دیا گیا ہے مہر میں کن کن کا حصہ ہے۔

(4) زید نے شادی کے موقع پر جو زیور عالیہ کو دیا تھا؛ اس زیور کے تعلق سے شرعی حکم کیا ہے؟

(5)عالیہ کو شادی سے پہلے اس کے والدین نے کچھ رقم پراپرٹی کے طور پر دیا تھا اس میں زید کا کچھ حصہ ہے کہ نہیں؟

 المستفتی:  نوید احمد قاسمی، اعظم گڑھ۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

تمام سوالوں کے جواب بالترتیب ملاحظہ فرمائیں.

(1) شادی کے موقع پر عالیہ کے والدین نے جو زیورات بطور ملکیت عالیہ کو دئیے تھے، اس کو تیرہ حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے چھ حصہ اس کی بیٹی کو، دو حصہ ماں کو، دو حصہ باپ کو اور تین حصہ شوہر کو ملیں گے۔

(2) جہیز میں کپڑا وغیرہ جو رشتہ داروں کو بطور ہدیہ دئیے گئے تھے ان کی واپسی نہیں ہوگی، اور جو عالیہ کو بطور ملکیت دئیے گئے تھے ان کی مذکورہ بالا تیرہ حصے میں تقسیم ہوگی۔

(3) مہر کا جو زیور ہے اس کو بھی اسی طرح تیرہ حصوں میں تقسیم کریں گے۔

(4) زید نے شادی کے موقع پر جو زیورات عالیہ کو دئیے تھے وہ اگر بطور ملکیت دئیے تھے تو اس کی بھی تیرہ حصوں میں تقسیم ہوگی، اور اگر عاریۃً دئیے تھے (جیسا کہ ہمارے علاقے کا عرف ہے) تو وہ زیورات پورے زید کو ملیں گے اس میں کسی کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔

(5) شادی سے پہلے والدین نے عالیہ کو جو پراپرٹی دی ہے اس کو بھی تیرہ حصوں میں تقسیم کریں گے، جس میں سے تین حصہ زید کو ملے گا۔

الدلائل

قال الله تعالى : ﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾ (سورة النساء :11).

وقال تعالى: ﴿وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ﴾ (سورة النساء :11).

وقال الله تعالى: ﴿وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ﴾ (النساء: 12).

عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال : قال النبي ﷺ: العائدفي هبته كالكلب يقيء ثم يعود في قيئه. (صحيح البخاري: كِتَابُ الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا/ بَابُ هِبَةِ الرَّجُلِ لِامْرَأَتِهِ، وَالْمَرْأَةِ لِزَوْجِهَا. الرقم: 2589).

ولا یرجع في الهبة من المحارم بالقرابة کالآباء، والأمهات، وإن علوا، والأولاد، وإن سفلوا، وأولاد البنین، وأولاد البنات في ذٰلک سواء، وکذٰلک الإخوۃ والأخوات والأعمام والعمات، والمحرمیة بالسبب لا بالقرابة لا تمنع الرجوع کالآباء والأمهات والإخوۃ والأخوات من الرضاع، وکذا المحرمیة بالمصاهرۃ. (الفتاویٰ التاتارخانیة: 14/ 449، الرقم: 21671).

 والله أعلم

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.

27- 12- 1441ھ 18- 8- 2020م الثلاثاء.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply