تصویر دار کپڑے پہن كر نماز

جاندار کی تصویر والے كپڑے ساتھ نماز، تصویر دار کپڑے پہن كر نماز

تصویر دار کپڑے پہن كر نماز

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی، جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو یوپی۔

کسی ایسے کپڑے کو پہن کر نماز پڑھنا مکروہ اور ناجائز ہے جس پر کسی جاندار کی تصویر بنی ہوئی ہو گرچہ وہ کارٹون ہی کیوں نہ ہو، [1]کیونکہ نماز میں ہرایسی چیزسے بچنا چاہیے جس سے اس کا یا دوسرے کا خشوع و خضو ع متاثر ہو: حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ:

قام رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي في خميصة ذات أعلام، فنظر إلى علمها، فلما قضى صلاته قال: «اذهبوا بهذه الخميصة إلى أبي جهم بن حذيفة، وائتوني بأنبجانيه، فإنها ألهتني آنفا في صلاتي». (صحيح مسلم: 556، سنن أبي داود: 4052)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیل بوٹے والی چادر میں نماز پڑھنے کھڑے ہوئے ۔نماز کے دوران اس کے نقش و نگار پر آپ کی نگاہ پڑی ۔اور نماز مکمل کرنے کے بعد آپ نے فرمایا: اس چادر کو ابو جہم کے پاس لے جاؤ اور ان کی انبجانی چادر لے آؤ کیونکہ اس نے مجھے ابھی نماز میں غفلت میں مبتلا کردیا تھا۔

نیز وہ بیان کرتی ہیں کہ:

’’إنه کان لھا ثوب فیه تصاویرممدود إلی سھوۃ فکان النبيﷺ یصلي إلیه فقال: أخریه عني، قالت: فأخرته فجعلته وسائد‘‘. (صحيح مسلم: 2107، سنن النسائي: 761)

ان کے پاس ایک تصویر دار کپڑا ٹھاجسے انھوں نے بطور پردہ طاق پر لٹکا رکھا تھا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرف نماز پڑھتے تھے ۔آپ نے فرمایا اسے یہاں سے ہٹادو میں نے وہاں سے ہٹا کر اس کے تکئے بنا لئے۔

نیز مسجد ایسی جگہ ہے جہاں فرشتوں کی آمد رہتی ہے اور نماز کی حالت میں بندہ اپنے رب سے زیادہ قریب رہتا ہے، اس لیے ایسی ہیئت میں اس وقت بطورخاص نہیں رہنا چاہیے جو اللہ کو ناگوار ہو اور فرشتوں کے لیے خلل انداز، حضرت ابو طلحہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:

’’لاتدخل الملائکة بیتا فیه کلب ولاصورۃ‘‘. (صحیح البخاري: 3322)

فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو۔


حوالاجات

[1]  (قوله ولبس ثوب فيه تصاوير) لأنه يشبه حامل الصنم فيكره وفي الخلاصة وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لم يصل، وهذه الكراهة تحريمية. البحر الرائق شرح كنز الدقائق (2/ 29)

(ولبس ثوب فيه تماثيل) ذي روح، وأن يكون فوق رأسه أو بين يديه أو (بحذائه) يمنة أو يسرة أو محل سجوده (تمثال) ولو في وسادة منصوبة لا مفروشة (واختلف فيما إذا كان) التمثال (خلفه والأظهر الكراهة و) لا يكره (لو كانت تحت قدميه) أو محل جلوسه لأنها مهانة (أو في يده) عبارة الشمني بدنه لأنها مستورة بثيابه (أو على خاتمه) بنقش غير مستبين. الدر المختار: (647/1)

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply