hamare masayel

حمل ساقط ہو جانے کی صورت میں نفاس کا حکم، حمل کے دوران خون آنا

دو یا تین مہینے کا حمل ضائع ہونے کے بعد آنے والے خون کا حکم

سوال: حاملہ کا حمل اگر ۲ یا ۳ ماہ میں ساقط ہو جائے تو شوہر اس سے کتنی مدت تک دور رہے؟

المستفتی: محمد اسامہ ممبر پاسبان علم وادب۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

حاملہ عورت کا حمل ضائع ہونے کی صورت میں اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی عضو (مثلاً: ہاتھ، پیر ،انگلی یا ناخن وغیرہ) کی بناوٹ ظاہر ہوچکی ہو تو اس حمل کے ساقط ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس کا خون کہلائے گا، لیکن اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی بھی عضو کی بناوٹ ظاہر نہ ہوئی ہو تو پھر اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے، یعنی ایسے حمل کے ضائع ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس نہیں کہلائے گا؛ البتہ اگر وہ حیض بن سکتا ہے تو حیض ہوگا ورنہ استحاضہ، یعنی کم از کم تین دن رہے اور اس سے پہلے اقل مدت طہر (پندرہ دن) گذر چکے ہوں تو یہ خون حیض ہوگا.

نوٹ: بچے کے  اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہونے کی مدت فقہاء نے چار مہینے  لکھی ہے، لہٰذا صورت مسئولہ میں آنے والا خون تین دن سے کم آیا ہے تو اگر طبی اعتبار سے نقصان کا خطرہ نہ تو شوہر بیوی سے صحبت کرسکتا ہے۔ (مستفاد: بہشی زیور 2/ 62، وفتاویٰ محمودیہ 5/ 199-200)

الدلائل

قلت أَرَأَيْت امْرَأَة أسقطت سقطا لم يتَبَيَّن شَيْء من خلقه أتعدها نفسَاء قَالَ لَا قلت فكم تدع الصَّلَاة قَالَ أَيَّام حَيْضهَا حَتَّى تستكمل مَا بَينهَا وَبَين الْعشْرَة الْأَيَّام قلت فَإِن اسْتمرّ بهَا الدَّم أَكثر من ذَلِك قَالَ هِيَ مُسْتَحَاضَة فِيمَا زَاد على أَيَّام أقرائها. (الأصل المعروف بالمبسوط للشيباني: 1/ 342)

 (وَسِقْطٌ) مُثَلَّثُ السِّينِ: أَيْ مَسْقُوطٌ (ظَهَرَ  بَعْضُ  خَلْقِهِ كَيَدٍ أَوْ رِجْلٍ) أَوْ أُصْبُعٍ أَوْ ظُفُرٍ أَوْ شَعْرٍ، وَلَا يَسْتَبِينُ خَلْقُهُ إلَّا بَعْدَ مِائَةٍ وَعِشْرِينَ يَوْمًا (وَلَدٌ) حُكْمًا (فَتَصِيرُ) الْمَرْأَةُ (بِهِ نُفَسَاءَ وَالْأَمَةُ أُمَّ وَلَدٍ وَيَحْنَثُ بِهِ) فِي تَعْلِيقِهِ وَتَنْقَضِي بِهِ الْعِدَّةُ، فَإِنْ لَمْ يَظْهَرْ لَهُ شَيْءٌ فَلَيْسَ بِشَيْءٍ، وَالْمَرْئِيُّ حَيْضٌ إنْ دَامَ ثَلَاثًا وَتَقَدَّمَهُ طُهْرٌ تَامٌّ وَإِلَّا اسْتِحَاضَةٌ. (الدر المختار مع رد المحتار: 1/ 501 زکریا)

وعلى تقدير أن السقط لم يكن مستبين الخلق لا تكون نفساء ويكون عشرة أيام عقيب الإسقاط حيضاً، وإذا وافق عادتها أو كان ذلك عقيب طهر صحيح فتترك هي الصلاة عقيب الإسقاط عشرة أيام بيقين، لأنها إما حائض أو نفساء، لأن السقط إن كان مستبين الخلق فهي نفساء وإلا فهي حائض. (الھدایة 1/ 690)

والسقط إن ظهر بعضه فهو ولد تصیر به نفساء والأمة أم الولد․․․؛ لأنه ولد لکنه ناقص الخلقة ونقصان الخلقة لا یمنع أحکام الولادة، وفي قولِ صاحب التبیین: لا یستبین خلقه إلا في مأة وعشرین یومًا، نظر، تأمل․ (مجمع الأنهر مع ملتقی الأبحر، 1/ 84، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت)

 والله أعلم

تاريخ الرقم: 8- 5- 1441ھ 4- 1- 2020م السبت.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply