خام مال کی زکوٰۃ
کسی فیکٹری میں دو طرح کے سامان استعمال ہوتے ہیں، ایک وہ جس کا اثر سامان میں باقی رہتا ہے جیسے کہ گاڑیوں کے لیے لوہے وغیرہ کے پارٹس یا کپڑے کے لیے روئی یا اون وغیرہ،اور مکان بنا کر بیچنے والوں کے لئے لوہا ،اینٹ سمنٹ وغیرہ اور فرنیچر بنا کر بیچنے والوں کے لئے لوہا لکڑی وغیرہ دوسرے وہ جس سے سامان کی تیاری میں مدد تو لی جاتی ہے مگر اس کا کوئی اثر سامان میں نہیں رہتا ہے جیسے کہ اوزار، مشین چلانے کے لیے پٹرول یا صفائی کرنے کے لیے صرف، صابن وغیرہ۔
پہلی قسم کے سامان میں زکوٰۃ ہے، گرچہ وہ سال بھر تک اپنی اصلی شکل میں برقرار رہے اور اس سے کوئی سامان نہ بنایاگیا ہو، کیونکہ وہ مال تجارت ہے، اسے خریدا ہی اس لئے گیا ہے کہ اس سے سامان بناکر فروخت کیاجائے۔ اور دوسری قسم میں زکوٰۃ فرض نہیں ہے گرچہ وہ نصاب کے بقدر ہو اور سال بھر تک اپنی اصلی شکل میں بر قرار رہے، اس لیے کہ اس سے مقصود تجارت نہیں بلکہ استعمال ہے۔[1]
حواله
[1] هذا في الآلات التي ينتفع بنفسها، ولا يبقى أثرها في المعمول وأما إذا كان يبقى أثرها في المعمول كما لو اشترى الصباغ عصفرا أو زعفرانا ليصنع ثياب الناس بأجر وحال عليه الحول كان عليه الزكاة إذا بلغ نصابا، وكذا كل من ابتاع عينا ليعمل به ويبقى أثره في المعمول كالعفص والدهن لدبغ الجلد فحال عليه الحول كان عليه الزكاة، وإن لم يبق لذلك العين أثر في المعمول كالصابون والحرض لا زكاة فيه. الفتاوى الهندية (1/ 172) نیز دیکھیے مواھب الجلیل:3162. المجموع: 6/6. الانصاف:154/4.شرح منتھی الارادت:437/1
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.