زكاة قرآنى آيات كے آئينے ميں

زكاة قرآنى آيات كے آئينے ميں

زكاة قرآنى آيات كى روشنى  ميں

بقلم: محمد ہاشم بستوى

اسلام كے بنيادى اركان ميں سے ايك اہم ركن زكاة بھى ہے، زكاة كا مطلب ہے مال كى صفائى، زكاة كو ميل كچيل بھى كہا جاتا ہے، اور جس مال كى زكاة دے دى جاتى ہے وہ ميل كچيل سےپاك وصاف ہوجاتا ہے اس ليے زكاة كا دوسرا نام صفائى ستھرائى بھى ہے،مذہبِ اسلام ميں زكاة ايك اہم عبادت ہے، جس طرح سے نماز روزہ حج وغيرہ ہيں، جو مالدار ہوں اور صاحبِ نصاب ہوں انہيں اپنے مال سے 2.5 پورے سال ميں ايك بار نكالنا ضرورى ہے، اور زكاة كے مصارف ميں سے كسى ايك مصرف ميں خرچ كرنا ضرورى ہے،ان مصارف كى تفصيل آگے  آرہى ہے۔

قرآن كريم ميں زكاة دينے پر بہت زور ديا گيا ہے، اور زكاة كا ذكر قرآنِ كريم ميں تيس سے زيادہ جگہوں پر آيا ہے، اس مضمون ميں قرآنِ كريم كى آيتوں كى روشنى ميں ہم زكاة كو سمجھنے كى كوشش كرتے ہيں:

زكاة كے سلسلے ميں قرآنِ كريم ميں دو طرح كے لفظ ملتے ہيں: (1) زكاة (2) صدقہ

صدقہ كا لفظ قرآن ميں زكاة كے معنى ميں كم مستعمل ہے، ان ميں سے ايك جگہ وہ ہے جہاں پر زكاة كے مصارف كو بيان كيا گيا ہے:

{إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ } [التوبة: 60]

زکاۃتو غریبوں، حاجت مندوں، صدقہ وصول کرنے پر متعین کارکنوں، وہ لوگ جن کی دلجوئی مقصود ہو، غلاموں، مقروضوں، اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والوں اور مسافروں کا حق ہے، یہ اللہ کی طرف سے مقرر ہے اور اللہ خوب جاننے والے اور حکمت والے ہیں۔

اور دوسرى جگہ سورہ توبہ ميں آيا ہے:

{وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِنْ لَمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ} [التوبة: 58]

اور ان میں سے بعض لوگ وہ بھی ہیں کہ صدقات کی تقسیم میں آپ پر طعن کرتے ہیں پھر اگر ان صدقات میں سے ان کو ان کی حسب منشاء مل جائے تو خوش ہوجاتے ہیں اور اگر ان صدقات میں سے ان کی خواہش کے مطابق ان کو نہ دیا جائے تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں۔

اور  تيسرى جگہ بھى سورہ توبہ ميں آيا ہے:

{خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا} [التوبة: 103]

ان کے مال میں سے زکوۃ قبول کرلو کہ اس صدقہ سے آپ ان کے ظاہر و باطن کو پاک کرتے ہیں اور ان (کے نفسوں) کا تزکیہ کرتے ہیں ۔

اور زكاة  كا لفظ قرآنِ كريم ميں كثرت سے آيا ہے، ان ميں زيادہ تر وہ آيات ہيں جہاں پر زكاة دينے كا حكم آيا ہے:

وہ آيات جہاں پر زكاة دينے پر زور ديا گيا ہے:

{وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ } [البقرة: 43]

نماز قائم کرو، زکاۃ دیتے رہو، اور (اللہ کے سامنے) جھکنے والوں کے ساتھ جھکو،

{وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِنْكُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُونَ} [البقرة: 83]

اور یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے اس بات کا پکا وعدہ لیا تھا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو گے۔ ماں باپ، رشتہ داروں بےباپ کے بچوں، اور ضرورت مندوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو گے۔ لوگوں سے بھلی اور بہتر بات کرو گے۔ نماز قائم کرو گے اور زکاۃ دیتے رہو گے، مگر تم میں سے تھوڑے سے لوگوں کے سوا اکثر اس عہد کی پابندی سے پھرگئے اور تم ہو ہی (اقرار کر کے منہ پھیرنے والے۔

{وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ } [البقرة: 110]

تم نماز قائم کرو، زکاۃ دیتے رہو ، تم جو بھی بھلائی کے کام اپنے لیے کرو گے، اس کو اللہ کے پاس موجود پاؤ گے ۔ بلاشبہ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے۔

{أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً} [النساء: 77]

(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) کیا آپ نے ان لوگوں کو دیکھا جنہیں حکم دیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو روک لو نماز قائم کرو اور زکاۃ دیتے رہو۔ پھر جب انھیں قتال کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے تو ان میں سے ایک گروہ لوگوں سے اس طرح ڈرتا ہے جس طرح اللہ سے ڈرنا چاہیے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔

{وَقَالَ اللَّهُ إِنِّي مَعَكُمْ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنْتُمْ بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ} [المائدة: 12]

اور اللہ نے فرمایا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم کرتے رہے اور زکاۃ ادا کرتے رہے اور رسولوں پر ایمان لاتے رہے اور ان کا ساتھ دیتے رہے اور اللہ کو قرض حسنہ پیش کرتے رہے تو میں تمہارے گناہوں کے اثرات کو مٹا دوں گا۔

{وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ} [الحج: 78]

اور تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ۔ پس نماز قائم کرو،  زکاۃ ادا کرو اور اللہ (کی رسی) کو مضبوطی سے تھام لو۔ وہ تمہارا بہترین مالک ہے اور بہترین مدد گا رہے۔

{ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ} [النور: 56]

اور نماز قائم کرو اور زکاۃ ادا کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

{وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ} [الأحزاب: 33]

اور اپنے گھروں میں ٹک کر رہا کرو اور جاہلیت کی جیسی سج دھج نہ دکھاتی پھرا کرو ۔ نماز قائم کرو ، زکاۃ دیتی رہو۔اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔

{أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ} [المجادلة: 13]

کیا تم اس بات سے ڈر گئے کہ سرگوشی سے پہلے صدقہ کردیا کرو۔ پھر جب تم نے اس کو نہ کیا اور اللہ نے تم سے درگذر کرلیا تو نماز قائم کرو، زکاۃ دیتے رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو۔ اللہ کو معلوم ہے تم جو کچھ کرتے ہو۔

{وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا} [المزمل: 20]

نماز قائم کرو۔ زکاۃ دیتے رہو اور اللہ کو قرض حسنہ کے طور پر قرض دیتے رہو۔

{وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ} [البينة: 5]

وہ آيات جن ميں نماز اور زكاة  كى پابندى پر مومنين كى تعريف كى گئى ہے، اور ان كے ليے جنت كى بشارت دى گئى ہے:

{الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ} [البقرة: 3]

اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں

{وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا} [البقرة: 177]

نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ پر، قیامت کے دن پر، اس کے فرشتوں پر، کتابوں پر اور تمام نبیوں پر ایمان لائے، اور مال کی محبت کے باوجود اس کو رشتہ داروں، یتیموں ، محتاجوں، مسافروں، مانگنے والوں اور (قرض سے) گردنیں چھڑانے پر اپنا مال خرچ کرے، نماز قائم کرے ، زکاۃ دیتا رہے ، اور وعدہ کرنے کے بعد اس کو پورا کرے ،

{إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ} [البقرة: 277]

بلاشبہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے، انھوں نے نماز قائم کی زکاۃ دیتے رہے تو ان کا اجر وثواب ان کے پروردگار کے پاس ہے۔ نہ ان کو خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔

{ لَكِنِ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَالْمُؤْمِنُونَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاةَ وَالْمُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أُولَئِكَ سَنُؤْتِيهِمْ أَجْرًا عَظِيمًا } [النساء: 162]

ان میں سے جو لوگ علم میں پختہ ہیں اور ایمان والے ہیں اور اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ اس پر ایمان لاچکے ہیں جو ہم نے آپ پر نازل کیا ہے اور جو کچھ ہم نے آپ سے پہلے نازل کیا ہے جو نماز کو قائم رکھنے والے ہیں جو زکاۃ ادا کرنے والے ہیں۔ وہ جو اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور قیامت پھر بھی ایمان لاتے ہیں ان لوگوں کو ہم بہت بڑا انعام عطا کریں گے۔

{إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ} [المائدة: 55]

کوئی شک نہیں کہ تمہارے اصلی دوست اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ اور وہ لوگ ہیں جو ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکاۃ ادا کرتے ہیں اور رکوع کرتے ہیں

{وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ} [الأعراف: 156]

اور جہاں تک میری رحمت کا تعلق ہے وہ ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔چنانچہ میں یہ رحمت (مکمل طور پر) ان لوگوں کے لیے لکھوں گا جو تقوی اختیار کریں، اور زکاۃ ادا کریں، اور جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھیں۔

{إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ} [التوبة: 18]

اللہ کی مسجدیں تو وہ آباد کرتا ہے جو اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، نماز قائم کرتا اور زکاۃ دیتا ہے اور اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں رکھتا۔ توقع ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت حاصل کرنے والے ہیں

{وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ} [التوبة: 71]

اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ یہ بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز کا اہتمام کرتے اور زکاۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہیں کہ اللہ ان کو اپنی رحمت سے نوازے گا۔ اللہ عزیز و حکیم ہے

{الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ} [الحج: 41]

یہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر ہم انھیں زمین میں حکومت دے دیں تو یہ لوگ نماز کی پابندی کریں اور زکاۃ دیں ،اور دوسروں کو بھی نیک کام کا حکم دیں اور برے کام سے منع کریں، گے ۔ اور ہر کام کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے۔

{رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ} [النور: 37]

ایسے لوگ جنہیں نہ تجارت غفلت میں ڈال دیتی ہے نہ خریدو فروخت ، وہ ڈرتے رہتے ہیں ایسے دن سے جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی۔

{هُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ (2) الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ} [النمل: 2، 3]

جو ہدایت اور ان مومنوں کے لیے خوش خبری ہیں۔  جو نماز کی پابندی کرتے رہتے ہیں اور زکاۃ دیتے رہتے ہیں اور آخرت پر پورا یقین رکھتے ہیں۔

{هُدًى وَرَحْمَةً لِلْمُحْسِنِينَ (3) الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ} [لقمان: 3، 4]

جو ہدایت و رحمت ہے نیک کاروں کے حق میں۔  وہ لوگ جو نماز قائم کرتے ہیں، زکاۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں

وہ آيات جن ميں  مشركين كےايمان لانے اور نماز اور زكاة ادا كرنے كے بعد ان كى جان ومال  سے تعرض نہ كرنے اور ان كے ساتھ مسلمانوں جيسا برتاؤ كرنے كا حكم ديا گيا ہے

{فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ} [التوبة: 5]

پھر جب اشھر الحرم ( احترام والے چار مہینے) گزر جائیں تو مشرکین کو جہاں بھی پاؤ  ان کو قتل کررو، انھیں پکڑو، گھیرو اور ہر جگہ ان کی تاک میں بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں، نماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو ۔ بیشک اللہ مغفرت کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔

{فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَنُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ } [التوبة: 11]

پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز کو قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔ اور ہم ان لوگوں کے لیے آیات کھول کھول کر بیان کر رہے ہیں جو لوگ سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔

وہ آيات جس ميں زكاة نہ دينےپر مشركين كو قيامت ميں خراب انجام سے آگاہ كيا گيا ہے:

{وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ} [التوبة: 34]

اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان لوگوں کو درد ناک عذاب کی خوش خبری سنا دیجیے۔

{وَوَيْلٌ لِلْمُشْرِكِينَ (6) الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ} [فصلت: 6، 7]

ان مشرکین کے لیے بڑی خرابی ہے،  جو زکاۃ نہیں دیتے اور آخرت کا انکار کرنے والے ہیں۔

آياتِ زكاة كا خلاصہ:

قرآنِ كريم ميں زكاة  كےبارے ميں جنتى آيات وارد ہوئى ہوئى ہيں ان كا خلاصہ يہ نكلتا ہے كہ ان ميں  سے:

 بعض آيات ميں الله تعالى مومنين كو  الله اور اس كے رسول كى اطاعت كرنے اور زكاة  كوپابندى سے ادا كرنے كا حكم ديا ہے، جس سے مذہبِ اسلام ميں زكاة كى فرضيت اوراس اہميت كا اندازہ لگايا جا سكتا ہےكہ اسلام ميں زكاة كتنى اہم اور ضرورى ہے، اسى وجہ سے اسلام نے زكاة كو مالدار مسلمانوں پر فرض قرار ديا ہے۔

اور بعض آيات ميں زكاة كى پابندى كرنے والے مومنين كى تعريف كى گئى ہے، زكاة كو نيكى كا كام بتايا گيا ہے، زكاة دينے اولوں كا  الله تعالى كے يہاں بڑا مقام ومرتبہ ہے، اور زكاة دينے والوں كو الله نے جنت كى بشارت دى ہے، اور زكاة كومنين كى صفت بتايا گيا ہے، اور قيامت ميں ان كے ليے اچھے ٹھكانے كا وعدہ كيا گيا ہے۔

اور بعض آيات ميں مسلمانوں كو يہ حكم ديا گيا ہے اگر مسلمانوں كے دشمنوں سے كوئى بد ترين دشمن اور مشرك بھى اسلام قبول كرنے كے بعد نماز  پڑھنے لگے، اور زكاة دينے لگے تو اب يہ تمہار دينى بھائى ہے،  اسلام كا شديد مخالف ہونے كے باوجود چونكہ يہ اسلام قبول كرچكا ہے لہذا اسے نہ تو ستايا جائے، اور نہ ہى اس كى  جان ومال سے تعرض كيا جائے، لوگ بدلے كى آگ ميں سب كچھ بھول جاتے ہيں، ليكن اسلام ميں ايسا نہيں ہے،  بلكہ اسلام  نے اسلام قبول كرنے والے دشمنوں كو صرف معاف ہى نہيں كرتا بلكہ ان كے ساتھ مساوات اور برابرى كا حكم ديتا ہے۔

اور بعض آيات ميں زكاة نہ دينےوالوں كو قيامت  ميں بھيانك اور درد ناك عذاب سے ڈرايا گيا ہے، اور زكاة نہ دينے والوں كا ٹھكانا جہنم بتايا گيا ہے۔

ان سارى آيات ميں غور وفكر كرنے كے بعد يہ خلاصہ نكلتا ہے كہ زكاة كى اسلام ميں بڑى اہميت ہے، بلكہ وہ مالدار مسلمانوں پر فرض ہے، زكاة ادا نہ كرنے والے والدار مسلمان قيامت ميں ردد ناك عذاب ميں ڈالے جائيں گے۔

اتنا جان لينے كے بعد اب آپ كے ذہن ميں لازمى طور پر يہ سوال پيدا ہوتا  ہوگا كہ اسلام ميں مالدار كس كو مانا جاتا ہے، اور مال كى كتنى مقدار پر زكاة واجب اور ضرورى ہے؟ زكاة كا نصاب كيا ہے؟  اور يہ زكاة كب  ضرورى  ہے؟ اور كن لوگوں كو دينا ضرورى ہے؟ زكاة كا مصرف كون لوگ ہيں؟

 تو ان سارے سوالات كا جواب يہ ہے كہ اسلام كى نظر ميں ہر وہ شخص مالدار ہے جس كے پاس 612 گرام چاندى يا 87 گرام سونا ہو، يا ان دونوں ميں سے كسى ايك كے برابر روپيه پيسہ ہو اور اس كى روز مرہ كى ضروريات سے فارغ ہو، اگر كسى كى صورتِ حال يہ ہو تو وہ شخص اسلام كى نظر ميں مالدار ہے اور صاحبِ نصاب ہے، اس پر زكاة فرض   ہے، اسے  اپنے پورے روپے اور پيسے سے 2.5 پرسينٹ نكالنا ضرورى ہے۔

 اب رہا دوسرا سوال كہ زكاة كا دينا كب ضرورى ہے؟ تو اس كا جواب يہ ہے پورے مال اور روپے پر جب ايك سال كا عرصہ گزر جائے تو 2.5 پردينا ضرورى ہے۔

اور رہا تيسرا سوال  يعنى زكاة كے مصارف كيا ہيں؟ تو اس كا جواب يہ ہے كہ زكاة كے اصلى حق دار  اور زكاة كے مصارف تو وہ حضرات ہيں جن كو قرآن نے سورہ توبہ ميں بيان كيا ہے، اس  كے حساب سے:

زكاة كے كل آٹھ مصارف ہيں:

پہلا مصرف فقیر ہے اور دوسرا مسکین ہے:

فقير اور مسكين ميں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے، مسکین سے مراد غریب ہے ،  اور فقیر سے مراد وہ شخص ہے بہت غریب ہو،  احناف کے نزدیک فقیر و مسکین ہے وہ شخص ہےجو روز مرہ كى  بنیادی ضروریات کے علاوہ اتنے سامان یا زمين و جائیداد کا مالک نہ ہو جس کی قیمت چاندی کے نصاب یعنی ساڑھے 52/ تولہ یعنی 612 گرام چاندی کو پہنچ جائے، اس کے لیے زكاۃ لینی جائز ہے، جو شخص اتنے مال کا مالک ہو : لیکن وہ مخصوص اموال اس کے پاس نہ ہوں، جن میں زکاۃ واجب ہوتی ہے تو اگرچہ اس شخص پر زکاۃ واجب نہیں ہوگی : لیکن اس کے لیے زکاۃ لینی بھی درست نہیں ہے۔

زکاۃ کا تیسرا مصرف “عاملین” ہیں:

عاملين سے مراد وہ لوگ ہيں جن کو اسلامی حکومت نے زكاة وصدقات كى رقوم اصول كرنے ليےمقرر کیا ہو، انہيں زکاۃمیں سے ان کے کام کی اجرت دی جائے گی،زکاۃکے حساب و کتاب کے عملہ کو بھی زكاة كے مد سے کام کی اجرت ادا کی جاسکتی ہے، موجودہ دور میں دینی مدارس اور  دوسرى دینی تنظیمیں جن لوگوں کوزکاۃکی وصولی کے لیے مقرر کرتی ہیں، وہ اگرچہ اصطلاحی طور پر عاملین میں نہیں ہیں : لیکن چونکہ کام اور مقصد ایک ہی ہے  اس لیے جہاں اسلامی حکومت اور بیت المال نہ ہو، وہاں زکاۃکی وصولی كرنے والوں کو بھی عاملین کے درجہ میں رکھتے ہوئےزکاۃکی رقم سے ان کی تنخواہ ادا کی جاسکتی ہے، مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی کی بھی یہی رائے ہے (کفایت المفتی: 4/ 269، جواب نمبر : 341) ۔

زکاۃ کا  چوتھا مصرف “مؤلفتہ القلوب” کا ہے:

 يہ تين طرح كے لوگ تھے: اول وہ غیر مسلم تھے جن کی امداد واعانت اس ليے كى جاتى تھى تاكہ وہ اسلام قبول كر ليں، اور ان سے اسلام قبول كرنے كى اميد بھى تھى،  دوسرے :وہ غیر مسلم قائدین تھے جن مدد اس ليے كى جاتى تھى تاكہ ان كے شرور فتن سے مسلمانوں محفوط رہيں، تیسرے : وہ نو مسلم جن کا ایمان ابھی کمزور ہو اور امید ہو کہ ان کی مدد انہیں دین پر ثابت قدم رکھے گی، (فتح القدیر : 2/ 200) زكاة كا  يہ مصرف باقی ہے یا ختم ہوگيا ؟ اس سلسلہ میں حنفیہ اور مالکیہ کی رائے ہے کہ اب یہ مد اور مصرف باقی نہیں رہا، حنابلہ کا نقطہ نظر ہے کہ یہ ابھى باقی ہے اور ضرورت  كے وقت اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، اور امام شافعی سے دونوں طرح کی آراء منقول ہیں، (دیکھئے : شرح المھذب : 4/ 197، الجامع لا حکام القرآن : 8/ 181، المغنی : 2/ 280) موجودہ حالات میں حنابلہ کا قول شریعت کے مقاصد و مصالح سے زیادہ ہم آہنگ نظر آتا ہے اور وہ شاہ ولی اللہ دہلوی کا رجحان بھی اسی طرف ہے (حجۃ اللہ البالغۃ مع الترجمہ : 2/ 105) ۔

پانچواں مصرف گردنوں کو چھڑانا ہے:

 یعنی غلاموں کو آزاد کرنا، اب یہ مصرف باقی نہیں ہے : لیکن اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ملی اور دینی خدمت کی پاداش میں جو لوگ قید کیے جاتے ہیں، قانونی کاروائی کے ذریعہ انہیں رہائی دلانا کیا گردن چھڑانے میں شامل نہیں ہے، جب کہ یہ ناجائز محروسین غلاموں سے زیادہ تکلیف میں ہیں ؟

چھٹا مصرف “غارمین” ہیں:

 حنفیہ کے نزدیک اس سے مراد وہ مقروض حضرات  ہیں، جو خود اپنا قرض ادا کرنے کے لائق نہ ہوں ، عام فقراء کے مقابلہ ایسے شخص کوزکاۃدینا  زیادہ بہتر ہے، (تا تارخانیہ : 2/ 270) شوافع، مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک غارمین کے مصداق وہ لوگ ہیں، جو دو مسلمانوں کے درمیان صلح اور رفع نزاع کے لیے کوئی مالی ذمہ داری قبول کرلیں۔ (شرح المہذب : 6/ 207، تفسیر قرطبی : 8/ 184)

ساتواں مصرف فی سبیل اللہ ہے:

 جمہور فقہاء کے نزدیک اس سے مراد مجاہدین ہیں اور بعض حضرات  نے علوم دینیہ کے طلبہ کو بھی اس میں شامل رکھا ہے۔ (البحرالرائق : 2/ 242، تا تارخانیہ : 2/ 270)

آٹھواں مصرف ابن سبیل یعنی مسافرین ہیں:

 کوئی شخص صاحب ثروت  اور مالدار ہو لیکن سفر كى حالت ميں وہ محتاج ہوجائے تو اس کے لیے بھی زکاۃلینے کی گنجائش ہے۔

فقہاء احناف کے نزدیک عاملین کے سوازکاۃکے جتنے مصارف بیان کیے گئے ہیں، وہ اسی وقت زکاۃکے حقدار ہیں جب کہ فقر و احتیاج سے دوچار ہوں، گویا اصل مصرف فقراء و مساکین ہیں، بقیہ مصارف فقراء کی ترجیحی شکلیں ہیں، جن کو کسی خاص ضرورت کے تحت زکاۃدی جاتی ہے۔

بہرحال زکاۃکے ان آٹھوں مصارف کو سامنے رکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بنیادی طور پرزکاۃکے دو مقاصد ہیں : ایک فقراء اور حاجت مندوں کی ضرورت کو پوری کرنا، دوسرے : اسلام کی سر بلندی، فی سبیل اللہ اور مؤلفتہ القلوب اس دوسرے مقصد کو پورا کرنے کے لیے ہے اور بقیہ مصارف پہلی ضرورت کو پوری کرنے کے لیے ہيں۔ (ماخوذ از آسان تفسير ، از خالد سيف الله رحمانى مع حذف واضافہ)

 زكاة سے متعلق قرآنِ كريم كى تمام آيات كا دراسہ كرنے كے بعد يہ نتيجہ نكلتا ہےكہ وہ مسلمان جو مالدار ہوں ان پر زكاة فرض ہے، يہ ايك دينى فريضے كے ساتھ ساتھ غريب ونادار مسلمانوں كى مدد اور ان اشك سوئى كا ايك اہم ذريعہ بھى ہے، جو لوگ اس پر پابندى كرتے ہيں يقينا وہ الله كے يہاں سرخ رو اور كامياب ہوں، اور جو لوگ اس ميں سستى  برتتے ہيں، يا زكاة ہى نہيں نكالتے يقينا ان كى الله كے يہاںسخت پكڑ ہے، الله تعالى تمام مالدار مسلمانوں كو نام ونمود سے ہٹ كر خلوصِ نيت كے ساتھ اپنے مال كى پورى پورى زكاة نكالنے كى توفيق دے آمين۔

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply