زكاة كا نصاب، اور تجارتى سامان اور كرنسى ميں زكاة كانصاب
بقلم: محمد ہاشم بستوى
اسلام ميں زكاة ايك اہم اور ضرورى فريضہ اور عبادت ہے، بلكہ زكاة كو شريعت كے بنيادى اركان ميں سے ايك ركن ہونے كا بھى شرف حاصل ہے، اگر كوئى زكاة كا انكار كردے تو وہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، زكاة ہر اس شخص پر فرض ہے جو صاحب نصاب ہو، زكاة كے بڑے فضائل اور مناقب ہيں، اور زكاة نہ دينے والوں كے الله اور اس كے رسول كى طرف سخت تنبيہات وارد ہوئى ہيں۔
زكاة كا دارومدار اموالِ زكاة اور كسى بھى شخص كے صاحبِ نصاب ہونے پر ہے، اب صاحبِ نصاب كون ہے كون نہيں ہے اس كو سمجھنے كے ليے ہميں سب سے پہلے يہ جاننے كى ضرورت ہے كہ كن كن سامانوں اور اموال پر زكاة واجب ہوتى ہے؟ اموالِ زكاة ميں زكاة كا نصاب كيا ہے؟ غير منصوص اموالِ زكاة ميں نصاب كا معيار كس كو بنايا جائے؟ ہر ايك كو قدرے تفصيل سے جاننے كى كوشش كرتے ہيں:
زكاة كن اموال پر واجب ہوتى ہے؟
اسلامى شریعت میں زكاة سات قسم کے اموال میں واجب ہوتی ہے:
(1) اونٹ۔
(2) گائے، بیل بھینس وغيرہ ۔
(3) بھیڑ، بكرى اور دنبہ۔
(4) سونا۔
(5) چاندی۔
(6) تجارتى اموال ۔
(7) کرنسی، نقدى ۔
اموالِ زكاة كو جاننے كے بعد اب ہر ايك كے نصاب كو جان ليتے ہيں:
اونٹ کا نصاب:
اونٹ کا نصاب كم سے كم پانچ اونٹ ہیں، پانچ اونٹوں سے کم میں زکاۃ واجب نہیں، اگر كسى كے پاس پانچ اونٹ ہوں تو اس آدمى پر ایک سالہ ایک بکری دینا واجب ہے، دس اونٹ پر دو بكرى، پندرہ پر تین بكرىاں، اور بيس اونٹ پر چار بكرياں، پھر جب اونٹوں کی تعداد 25 تک پہنچ جائے تو 25 سے 35 تک اونٹ میں ایک سالہ اونٹنی ہے اور 36 سے 45 تک ایک عدد دو سالہ اونٹنی واجب ہے، 46 سے 60 اونٹوں تک ایک 3 سالہ اونٹنی ہے، 61 سے 75 تک ایک عدد چار سالہ اونٹنی ہے۔ 76 سے 90 تک 2، 2 برس کی 2 اونٹنیاں واجب ہوں گی۔ 91 سے 120 تک 3، 3 برس کی جفتی کے قابل 2 اونٹنیاں واجب ہوں گی ۔ پھر جب ایک 120 سے بھی تعداد آگے بڑھ جائے تو ہر 40 پر دو برس کی اونٹنی واجب ہو گی اور ہر 50 پر ایک تین برس کی جفتی کے قابل اونٹنی واجب ہو گی۔
گائے بیل بھينس کا نصاب:
گائے بیل کا نصاب كم سے كم تیس گائيں ہيں، اگر کسی کے پاس تیس سے کم گائے بیل ہوں تو اس پر زکاۃ واجب نہیں، پھر جب ان كى تعداد تيس تك پہونچ جائے تو اس پر ايك عدد، ایک سالہ گائے يا بيل واجب ہے، یہ حکم 39 تک کے لیے ہے، پھر جب 40 ہوں تو اس میں ایک عدد، دو سالہ گائےیا بیل واجب ہے، یہ حکم 59 تک کے یے ہے، پھر جب ان كى تعداد 60 تك پہنچ جائے تو اب ايك سال كى دو عدد گائے یا بیل واجب ہے اور یہ حکم 69 تک کے لیے ہے۔ جب 70 ہوں تو ایک عدد ایک سالہ گائے اور ایک عدد دو سالہ گائے واجب ہوگی۔
بھیڑ، بكرى اور دنبہ کا نصاب:
بھیڑ، بكرى اور دنبہ کا نصاب كم سے كم 40 عددہے، اس سے كم ميں زكاة واجب نہيں ہے، جب ان كى تعداد چالیس کو پہنچ جائے تو 40 سے 120 تک میں ایک بکری واجب ہے اور 121سے 200 تک دو بکریاں ہیں اور 201 سے 399 میں 3 بکریاں ہیں۔ 400 پر چار بکریاں ہیں، پھر ہر100 پر ایک بکری ہے۔
نوٹ: مذكورہ تمام جانوروں ميں زكاة كے ليےشرط يہ ہے كہ يہ سب جانور مذكورہ نصاب كو پورا كر رہے ہوں، حولانِ حول (سال كا پورا ہونا)كے ساتھ ساتھ يہ جانور سال کے اکثر حصہ میں عام چراگاہ ميں چرتے ہوں، اور ان سے مقصود صرف دودھ یا نسل كى افزائش یا شوقیہ پرورش ہو ، ان سے كوئى اور غرض نہ ہو، اور اگر ان جانور وں كے چارہ پانى كا انتظام گھر ميں ہو، یا ان سے مقصود بوجھ لادنا ، اور كاشت كارى ، يا سوارى کام لينا ہو تو ايسے جانوروں ميں زکاۃ واجب نہیں۔
سونا اور چاندى كا نصاب:
سونا كا نصاب 20 مثقال جو 20 دينار كے برابر ہوتا ہے، اور تولے كے حساب سے اس كا وزن ساڑھے سات تولہ ہوتا ہے،جب كہ گرام ميں اس كا وزن: 87.48 گرام ہوتا ہے، اور چاندى كا نصاب: 200 درہم ہے، اور تولے ميں اس كا وزن ساڑھے باون تولہ ہوتا ہے، جب كہ گرام ميں اس كا وزن : 612.36 ہے، سونے اور چاندى ميں زكاة كى شرح 2.5 % فى صد ہے،
تجارتى سامان اور كرنسى كا نصاب:
تجارتى سامان اور كرنسى ميں زكاة كے نصاب كو طے كرنے كے ليے جمہور علماء نےچاندى كے نصاب كو معيار ماناہے، جس شحص كے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے بقدر نقدی یا اموالِ تجارت ہو، يا ان دونوں كى مجموعى ماليت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو، تو ایسا شخص صاحبِ نصاب کہلاتاہے، ان دونوں كى شرحِ زكاة بھى چاندى ہى طرح 2.5 % فى صد ہے۔ جب كہ كچھ علماء تجارتى سامان اور كرنسى ميں زكاة كے ليے سونے كے نصاب كو معيار قرار ديتے ہيں، ان كے اقوال كو دلائل كى روشنى ميں سمجھنے كى كوشش كرتے ہيں:
سونا چاندى كرنسى اور اموالِ تجارت ميں معيار كس كو مانا جائے سونا كو يا چاندى؟
اگر كسى كے پاس صرف چاندى ہو تو اس ميں زكاة چاندى كےنصاب سے ہوگى، اور صرف سونا ہو چاندى نہ ہو تو اس ميں زكاة سونے كےنصاب سے ہوگى، اس ميں كسى كا كوئى اختلاف نہيں ہے، اختلاف اس صورت ميں جب چاندى اور سونا دونوں ہو ليكن كسى ايك كا نصاب مكمل نہ ہو، اسى طرح اگر كسى كے پاس تجارت كا مال ہو، يا نقدى روپيہ پيسہ اور كرنسى ہو، تو اس ميں اختلاف ہے كہ اس صورت ميں معيار كس كو مانا جائے؟ سونا كو يا چاندى كو؟
عام طورپر متحدہ ہندوستان کے علماء کی رائے یہ ہے کہ اس صورت ميں چاندی کو معیار بنایاجائے گا، لہٰذا جس کے پاس چاندى كے نصاب كے بقدر کاغذی نوٹ ، كرنسى يا اموالِ تجارت ہو تو وہ صاحب نصاب سمجھاجائے گا اور اس پر زکاۃ واجب ہوگی،ان حضرات كى دليل يہ ہے كہ: چاندی کو معیار بنانے میں فقیروں اور مسکینوں کازیادہ فائدہ ہے، اس کے سبب دولت مندوں کی تعداد بڑھ جائے گی اور زیادہ سے زیادہ زکات حاصل ہوگی اور اما م ابوحنیفہ کے نزدیک زکاۃ کے معاملے میں ترجیح اسی کو دی جاتی ہے جس میں فقیروں کا زیادہ فائدہ ہو، فقہ اکیڈمی رابطہ عالم اسلامی اور سعودیہ کے علماء کی کمیٹی نے اسی کو ترجیح دی ہے ۔
اور اس کے برخلاف بعض عرب اور متحدہ ہندوستان کے کچھ علماء کی رائے یہ ہے کہ سونے کو معیار بنایاجائے گا، ان حضرات كى دليل يہ ہے كہ اموالِ تجارت اور كرنسى اور كاغذى نوٹ وغيرہ كى زكاة ميں شريعت كى طرف سے كچھ منصوص نہيں ہے، لہذا ان كے بارے ميں ايسا معيار ہونا چاہئے جو سب كے حق ميں فائدہ مند ہو، اس وقت چاندی کومعیار بنانے کی وجہ سے بہت معمولی مقدار کی کرنسی اور اموالِ تجارت میں بھى زکاۃ واجب ہوجائے گی، جس وقت چاندى اور سونے كا نصاب بنا تھا اس وقت چاندى كا نصاب قيمت ميں سونے كے نصاب كےبرابر تھا، ليكن موجودہ دور ميں دونوں كى قيمتوں ميں زمين آسمان كا فرق ہے، اگر چاندى كو معيار بنا ليا جائے تو موجودہ دور میں اگر کسی کے پاس سال بھرتک تقریباً باون ترپن ہزار روپیہ محفوظ رہا ، یا وہ فٹ پاتھ پر اتنے روپیہ کا سامان لے کر بیچنے لگے تو اس پرزکاۃ واجب ہوجائے گی اور اسے زکاۃ لینا حرام ہوگا، اس پر قربانى بھى واجب ہو جائے جو شايد اس كى پہونچ سے باہر كى بات ہو، ايسى صورت ميں بہت سارے لوگوں كو دقت كا سامنا كرنا پڑ سكتا ہے۔
دوسرى وجہ يہ ہے كہ اس دور ميں چاندى كے نصاب كى مقدار کی رقم کی وجہ سے کوئی بھی شخص عرف اور سماج میں مالدار نہیں سمجھاجاتا ہے، اور نہ ہی اتنے روپیہ کی تجارت سے آج كے دور ميں ایک چھوٹى سى فيملى کا خرچ نکالنا آسان ہوتا ہے، جب كہ پہلے زمانے كى صورتِ حال اس سے مختلف تھى ، اس مقدار سے ايك چھوٹى سى فيملى كا خرچ چل سكتا تھا، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی مایہ ناز کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں:
وَإِنَّمَا قدر النصاب من الْوَرق خمس أواق لِأَنَّهَا مِقْدَار يَكْفِي أقل أهل بَيت سنة كَامِلَة إِذا كَانَت الأسعار مُوَافقَة فِي أَكثر الأقطار. حجة الله البالغة (2/ 66)
ترجمہ: چاندی کا نصاب دو سو درہم اس لئے مقرر کیا گیا ہے کہ وہ ایک ایسی مقدار ہے جو نرخ موافق ہونے کی صورت میں اکثر ممالک میں ایک چھوٹے خاندان کے لئے پورے سال تک کافی ہوتی ہے۔
ان حضرات كى ايك دليل يہ بھى ہے كہ اگر سونے کے نصاب کو اونٹ، گائے اور بکری وغیرہ کے نصاب سے موازنہ کیاجائے تو بہت کم فرق نظر آئے گا، اس کے برخلاف اگر موجودہ دور میں اگر سونے كے نصاب كو چاندی کے نصاب کے سے موازنہ کیاجائے تو پھر دونوں كے درميان کوئی نسبت ہى نہیں ہوگی۔
يہ دونوں طرف كے علماء كے دلائل تھے، ان دلائل كى روشنى ميں آج كے دور ميں ايك تيسرى شكل بھى نكالى جا سكتى ہے، اور وہ يہ كہ جن كو الله نے بے شمار مال و دولت سے نوازہ ہے، اور واقعى وہ مالدار ہوں ان كو كرنسى اور اموالِ تجارت كى زكاة ميں چاندى كو معيار بنانا چاہئے، كيونكہ اس ميں ان كا كوئى نقصان نہيں ہے، اور جو مالدار نہ ہوں ، ان كے پاس تھوڑى بہت نقدى ہو، ان كو كرنسى اور اموالِ تجارت ميں سونے كو معيار بنانا چاہئے، تاكہ ان حضرات كو نقصان نہ اٹھانا پڑے۔
خلاصہ:
اموالِ زكاة ميں سے اونٹ، گائے بيل بھينس، بھيڑ بكرى ، سونا اور چاندى ميں زكاة كا نصاب اور ان كے مالكان كا صاحب نصاب ہونا اوپر كى تفصيل سے بالكل ظاہر ہے، كيونكہ ان ميں زكاة كى تفصيل شريعت كى طرف سےمنصوص ہے، البتہ تجارتى سامان اور كاغذى نوٹوں ميں زكاة كا نصاب كيا ہے؟ اور ان كے مالكان كو صاحبِ نصاب كب مانا جائے؟ اس ميں علماء كى رائيں الگ الگ ہيں، علماء كى ايك بڑى جماعت فقراء اور مساكين كے فائدے كے پيشِ نظر تجارتى سامان اور كرنسى ميں چاندى كے نصاب كو معيار مانتى ہے، جب كہ كچھ علماء اس صورت ميں سونے كے نصاب كو معيار مانتے ہيں، ان كا كہنا يہ ہے اس وقت سونا اور چاندى كى قيمتوں ميں بڑا فرق ہے، اگر ان سامانوں اور كاغذى نوٹوں ميں اگر چاندى كو معيار مانا جائےگا تو معمولى كرنسى اور سامان ميں بھى زكاة واجب ہو جائے گى جو بہت سارے لوگوں كے ليے دقت كا باعث بن سكتا ہے۔


Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.