زكاة كى اہميت فوائد ومقاصد

زكاة كى اہميت، فوائد ومقاصد، نصابِ زكاة ومستحقين زكاة

زكاة كى اہميت، فوائد ومقاصد، نصابِ زكاة ومستحقين زكاة

بقلم: محمد ہاشم بستوى

زكاة اسلام كے پانچ بنيادى ستون ميں سے ايك ستون ہے، قرآن وحديث كے اعتبار سے يہ ہر اس مسلمان پر فرض ہے جومالدار ہو صاحبِ نصاب ہو، بالغ ہو مقروض نہ ہو،  اس پر اپنے پورے مال سے سال ميں ايك بار 2.5 پرسينٹ زكاة دينا ضرورى ہے، فرض كر ليں كہ اگر زكاة كا نصاب 100 ڈالرس ہے، اور كوئى شخص اگر صاحبِ نصاب تو اس كو سال ميں ايك بار 2.5 ڈالر زكاة كے مستحقين ميں سے كسى ايك كو دينا ضرورى ہے۔

زكاة  كا معنى:

زكاة كے معنى ميں ہيں: پاكى صفائى اور بڑھوترى، جس مال كى زكاة دے دى جاتى ہے وہ مال صاف ستھرا ہو جاتا ہے، اور اس ميں بركت ہوتى ہے، اور زكاة كو زكاة اس ليے كہتے ہيں كہ زكاة دينے كے بعد باقى بچے ہوئے مال  كى صفائى ہو جاتى ہے، اور اس کی ادائیگی سے زكاة دينے والے كا دل پاک  وصاف ہو جاتا ہے اس ليے اس كو زكاة كہتے ہيں۔

زكاة كى فرضيت:

اسلامى كلنڈر كے حساب سے زکاۃ  سن 2ہجری اور انگريزى 623 عسيوى میں فرض ہوئی، اس كى فرضيت كے بارے ميں قرآنِ كريم شمار آيتيں ہيں اور اسى طرح احاديثِ نبويہ كى بے شمار صحيح حديثيں ہيںمثلا:

الله تعالى كا ارشاد ہے:

{وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ } [البقرة: 43]

نماز قائم کرو، زکاۃ دیتے رہو، اور (اللہ کے سامنے) جھکنے والوں کے ساتھ جھکو۔

اور بخارى ومسلم ميں حضرت معاذ بن جبل سے مروى ہے:

“فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ” (صحيح البخاري: 1395، صحيح مسلم: 19)

آپ صلى الله عليه وسلم نے حضرت معاذ كو حكم ديا تھا  كہ اے معاذ!  جب یمن کے لوگ توحید كى گواہى اور ميرى سالت كا اقرار كر كے نماز پڑھنے لگيں پھرتم ان كو بتاؤ  کہ اللہ تعالیٰ نے ان كے مال ميں زكاة كو فرض كيا ہے، جو ان كے مالداروں سے لى جائے گى اور غريبوں ميں تقسيم كى جائے گى۔ (صحیح بخاری: 1395، صحیح مسلم: 19)

زكاة كا مقصد:

غريب مسلمانوں كى مدد اور اسلام كى سربلندى

زكاة كے فوائد:

(1) زکاۃ کی ادائیگی ايك مذہبى اور دينى فريضے كى ادائيگى ہے۔

(2)  زکاۃ  الله تعالیٰ کی اطاعت وفرماں بردارى  اور عبودیت كے اظہار  کی ایک شکل ہے۔

(3)  زكاة سے الله كى مخلوقات کے ساتھ  نیکی اور  بھلائى ان كى مدد ہوتى ہے۔

(4) زكاة  اس كے ذريعہ لوگوں كى جائز ضروريات پروى ہوتى ہيں۔

(5)  زكاة آفات ومصيبت  سے بچانے کا سبب ہے۔

(6)  زکوۃ دینے والے انسان میں سخاوت کی صفت پیدا ہوتی ہے۔ اس سے كنجوسى اور بخل دور ہوتا ہے۔

(7)  زکوۃ و خیرات سے مال ودولت میں اضافہ ہوتا ہے۔

(8)  زكاة مال کو میل کچیل سے پاک کرنے اور باطنى صفائى  کا  ذریعہ بھى ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

{خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا} [التوبة: 103]

ان کے مال میں سے زکوۃ قبول کرلو کہ اس صدقہ سے آپ ان کے ظاہر و باطن کو پاک کرتے ہیں اور ان (کے نفسوں) کا تزکیہ کرتے ہیں۔

زكاة كس پرفرض ہے؟

ہر وہ مسلمان جو آزاد ہو، مالدار ہو صاحب نصاب ہو اس پر زكاة فرض ہے۔

زكاة كا نصاب كيا ہے؟

جس مسلمان كے پاس 612.36 گرام چاندى يا 87.48  گرام سونا ہو، يا ان دونوں ميں سے كسى ايك كے برابر نقدى روپيه پيسہ ہو اور اس كى روز مرہ كى ضروريات سے زائد ہو، وہ صاحبِ نصاب ہے،  اس پر زكاة  فرض   ہے،

زكاة كن چيزوں پر  ہوتى ہے؟

سونے چاندى يا ان دونوں كے زيورات، نقدى كرنسى،مويشى، تجارت كے اموال، تجارتى زمين كى آمدنى، تجارتى سواريوں كى آمدنى، كرائے كے مكانات كى آمدنى وغيرہ۔

زكاة كن چيزوں پرنہيں ہے؟

استعمال کی عام چیزوں میں زکاۃ نہیں ہےمثلاً:رہائشی گھر،استعمال میں آنے والے کپڑے، گھر کاسامان، گاڑیاں، مشینری، سواری کے جانور وغیرہ۔

زكاة كى مقدار كتنى ہے؟

اگر کسی مسلمان  کے پاس صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا، (87.48گرام) اور صرف چاندی ہو تو  ساڑھے باون تولہ چاندی،  (612.36 گرام)  یا دونوں میں سے کسی ایک کی مالیت کے برابر نقدی  یا سامانِ تجارت ہو ،  یا یہ سب ملا کر یا ان میں سے بعض ملا کر مجموعی مالیت چاندی کے نصاب کے برابر بنتی ہو تو ایسے  شخص پر سال پورا ہونے پر قابلِ زکات مال کی ڈھائی فیصد 2.5 زکاة  دينا فرض ہے۔

زكاة كے مستحقين كون ہيں؟

اس كے بارے ميں الله تعالى نے سورہ توبہ ميں بيان كر ديا ہے:

{إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ } [التوبة: 60]

زکاۃ تو غریبوں، حاجت مندوں، صدقہ وصول کرنے پر متعین کارکنوں، وہ لوگ جن کی دلجوئی مقصود ہو، غلاموں، مقروضوں، اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والوں اور مسافروں کا حق ہے، یہ اللہ کی طرف سے مقرر ہے اور اللہ خوب جاننے والے اور حکمت والے ہیں۔

آيت كے حساب سے زكاة كے مستحقين:

(1) فقير

(2) مسكين

(3) عاملين، يعنى حكومت كى طرف سے صدقات وزكاة كے وصول كرنے والے

(4) مؤلفة القلوب، يعنى نئے مسلمانوں كا دل جيتنا

(5) غلاموں كى آزادى

(6) مقروضين

(7) مسافرين

(8) فى سيبل الله يعنى مجاہدين

نوٹ: ان مصارف ميں مؤلفة القلوب اور غلاموں كى آزادى والا مصرف اب باقى نہيں ہے،  البتہ عاملين ميں دينى مدارس  اور دينى تنظيموں كى طرف سے طرف سے مقرر كردہ افراد شامل ہيں،

زكاة نہ دينے والوں كا انجام:

صاحبِ نصاب ہونے باوجود جو لوگ زكاة نہيں ان كے ليے قرآن وحديث ميں بڑا سخت عذاب ہے۔

الله تعالى كا ارشاد ہے:

{وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ} [التوبة: 34]

اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان لوگوں کو درد ناک عذاب کی خوش خبری سنا دیجیے۔

دوسرى جگہ الله تعالى كا ارشاد ہے:

{وَوَيْلٌ لِلْمُشْرِكِينَ (6) الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ} [فصلت: 6، 7]

ان مشرکین کے لیے بڑی خرابی ہے،  جو زکاۃ نہیں دیتے اور آخرت کا انکار کرنے والے ہیں۔

اور بخارى شريف ميں حضرت ابو ہريره سے روايت ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَنْ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا، فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ مُثِّلَ لَهُ مَالُهُ يَوْمَ القِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَهُ زَبِيبَتَانِ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ القِيَامَةِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَيْهِ – يَعْنِي بِشِدْقَيْهِ – ثُمَّ يَقُولُ أَنَا مَالُكَ أَنَا كَنْزُكَ، ثُمَّ تَلاَ: (لَا يَحْسِبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ) ” الآيَةَ (رواه البخاري في صحيحه: 1403)

 حضرت ابوہریرہ  سے روايت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :جس کو اللہ نے مال دیا ہو اور اس نے اس کی زکوۃ نہ دی تو قیامت کے روز اس کا مال اس کے لیے  ايك گنجا سانپ بنا ديا جائے گا اس کے سر پر بال اور آنکھوں پر دو نقطے ہوں گے اور پھر یہ سانپ اس کے گلے میں طوق کی طرح ڈالا جائے گا، پھر اس کے دونوں جبڑوں کو ڈسے گا، اور وہ سانپ اپنی زبان سے كہے گا: کہ میں تیرا مال ہوں میں تیرا جمع کردہ خزانہ ہوں اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:

  {وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَهُمْ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَهُمْ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ} [آل عمران: 180]

 اور وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مال عطا کیا اور وہ اس میں بخل کرتے ہیں وہ اسے اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں بلکہ یہ برا ہے اور قیامت کے دن یہی مال ان کے گلے کا طوق ہوگا۔

خلاصہ:

زكاة ايك اہم اور دينى فريضہ ہے، اس كى فرضيت سن 2 ہجرى ميں ہوئى، زكاة  كے مقاصد ميں اہم مقصد غريب مسلمانوں كى مدد اور اسلام كى سربلندى ہے، زكاة كے بے شمار دينى ودنياوى فائدےہيں، ہر وہ مسلمان جو عاقل وبالغ مالدار وصاحبِ نصاب ہو اس پر زكاة فرض ہے، زكاة كا نصاب 612.36 گرام چاندى، اور 87.48 گرام سونا  يا اسى كے برابر نقدى ہے، زكاة كى مقدار ڈھائی فیصد 2.5 ہے، زكاة پورے سال ميں ايك بار فرض ہے،  مالدار ہونے كے باوجود زكاة نہ دينے والوں كے ليے قيامت كے دن الله تعالى كے يہاں سخت عذاب ہے۔

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply