(سلسلہ نمبر: 493)
زکوٰۃ کی رقم کو قرض میں دینا
سوال: کیا کسی صاحب حیثیت کو زکوة کی رکھی ہوئی رقم قرض میں دے سکتے ہیں؟ فی الحال ان کو ضرورت ہے، دو چار روز میں وہ واپس کردیں گے، ان کا تعاون کرنے کے لئے میرے پاس زکوة کی رقم کے علاوہ نہیں ہے۔
المستفتی: محمد انور داؤدی، ایڈیٹر روشنی۔
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: صورت مسئولہ میں زکوٰۃ کی رقم اگر آپ کی اپنی ہے تو قرض میں دے سکتے ہیں، کیوں کہ زکوٰۃ کی رقم صرف الگ کرنے سے متعین نہیں ہوتی بلکہ جب تک مستحق کو مالک نہ بنا دیا جائے اس وقت تک ملکیت سے خارج نہیں ہوتی، اس لئے اس رقم کو قرض میں دے کر یا خود استعمال کرکے اس کی جگہ دوسری رقم کو زکوٰۃ میں دینا جائز ہے۔
لیکن اگر زکوٰۃ کی رقم کسی دوسرے شخص کی ہے جس نے آپ کو مصرف میں خرچ کرنے کے لئے دیا ہے تو اس کو قرض میں دینا یا اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں؛ کیونکہ یہ امانت کی رقم ہے اور اس کو مزکی کی اجازت کے بغیر بدلنا جائز نہیں ہے۔
نوٹ: زکوٰۃ کو جلد از جلد مستحقین کے حوالہ کردینا چاہئیے، لیکن اگر کسی خاص مقصد سے کوئی روک کر رکھے تو اس کی بھی اجازت ہے۔
الدلائل
ولا يخرج عن العهدة بالعزل بل بالأداء للفقراء. (الدر المختار).
(قوله: ولا يخرج عن العهدة بالعزل) فلو ضاعت لا تسقط عنه الزكاة ولو مات كانت ميراثا عنه، بخلاف ما إذا ضاعت في يد الساعي لأن يده كيد الفقراء. بحر عن المحيط. (رد المحتار: 2/ 270).
ولا تجوز الزکاۃ إلا إذا قبضه الفقیر… لأن التملیک لا یتم بدون القبض. (الفتاوى الولوالجیة: 1/ 179).
متولي الوقف إذا رهن الوقف بدين لا يصح؛ لأن فيه تعطيل منافع الرهن. (المحيط البرهاني: 6/ 148).
والله أعلم.
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.
20 – 2- 1442ھ 8- 10- 2020م الخمیس.
المصدر: آن لائن إسلام.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.