sinfe nazuk par zulm

صنف نازك پرگھريلو مظالم اور ان كا سدِّ باب

صنف نازك پرگھريلو مظالم اور ان كا سدِّ باب

بقلم: منتشا عارف غازى، على گڑھ، متعلمہ عاليہ خامسہ  

اللہ رب العزت نے سب سے پہلا رشتہ جو دنیا میں بنایا وہ میاں بیوی کا رشتہ تھا۔ اور باقی ماں باپ، بھائى بہن، بيٹا بیٹی سارے رشتے بعد میں بنائے۔میاں بیوی کا رشتہ ہی ایک ایسا واحد رشتہ ہے جسکو اللہ رب العزت نے اپنی نشانی کہا ہے۔ میاں بیوی کو ایک دوسرے کی راحت و خوشی کے لئےبنایا،ایک دوسرے کا لباس بنایا، انسان لباس میں جس طرح محفوظ ہوتا ہے اسی طرح اچھے، نیک اور دیندار جوڑے ازدواجی رشتے میں محفوظ ہوتے ہیں، انھيں دين ودنيا كى سارى خوشياں نصيب ہوتى ہيں، تو یہ رشتہ تو ہونا ہی ایسا چاہئے،کہ اس میں چاہے کتنی ہی دھوپ چھاؤں کیوں نہ آئے لیکن یہ  كبھى بھی  نہ مرجھائے۔

 الله رب العزت نےمیاں بیوی دونوں کے حقوق الگ الگ رکھے ہیں میاں کے بیوی پر کیا حقوق ہیں؟ یہ بھی بتادیا، اور میاں پر بیوی کے کیا حقوق ہیں یہ بھی بتادیا، اب اگر میاں بیوی اسلامی تعلیم کے مطابق اپنے اپنے حقوق ادا کریں تو ایک پرسکون زندگی گزاریں گے، اور اگر میاں یہ چاہےگا کہ بیوی میرے سارے حقوق پورے کرے اور ہر وقت میرے سامنے روبوٹ کی طرح حاضر رہے کہ صاحب کے آڈر دیتے ہی وہ کام کردے،اور میں اسکا کوئى حکم نہ مانوں اسکے حقوق ادا نہ کروں بلکہ اسے اپنی جاگیر سمجھ کر ایک باندی کی حیثیت سے رکھوں، اور اپنی ماں بہنو کو اس گھر کی وزیر اعظم بنا کر رکھوں جو اس پر ہر وقت آڈر چلائیں، اسکے کام کاج میں کمیاں نکالیں، تو ایسے بے عقل مرد کبھی بھی اپنی بیوی کی محبت نہیں پاسکتے، وہ یا تو اس كى ناک کے نیچے دیا جلائےگی یا پھر مجبوراً ایک نوکرانی کی طرح اس كے گھر میں رہے گی، جس سے نہ تو انہیں ہی سکون ملے گا اور نہ ہی اسے۔

اسی طرح اگر بیوی یہ چاہے کہ شوہر تو  میری ہر بات مانے میری ہر خواہش پوری کرے اپنے گھر والوں کو بالکل چھوڑ دے، صرف مجھ تک  ہی اپنی تمام تر توجہ کو مركوز رکھے اور میں اسکا کوئى حکم نہ مانوں اسکی عزت نہ کروں اپنی مرضی سے رہوں، تو یہ اس عورت کا پاگل پن ہے یہ اس طرح اپنے شوہر کا پیار کبھی نہیں پاسکتی ہمیشہ پریشان اور بیچین رہےگی۔ مسئلہ تبھی حل ہوگا جب دونوں اپنے اپنے حقوق ادا کریں گے،ایک دوسرے کے گھر والوں کی عزت کریں گے ،اور اگر صرف اپنا اپنا چاہیں گے تو اس سے مسلہ حل نہیں ہوگا یہ تو انکی بےعقلی ہے۔جس نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔

الفت ميں تب مزا كہ دونوں ہوں بيقرار

دونوں طرف ہو آگ برابر لگى ہوئى

اور آج ہمارے معاشرے کا بھی یہی حال ہوچکا ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے حقوق ادا نہیں کرتے ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں جس سے معاشرے میں فساد پھیلتا ہے آج اگر غور کیا جائے تو ایسے جوڑے آٹے میں نمک کی برابر ملیں گے جو ایک دوسرے سے بالكل خوش ہیں ورنہ سب کو شکایت ہے کہیں میاں کو بیوی سے اور کہیں بیوی کو میاں سے۔

لیکن آجکل خواتین پر ظلم زیادہ ہورہا ہے مردوں کی کم عقلی کی وجہ سے حالانکہ خواتین بھی سب دودھ کی دھلی ہوئى نہیں ہیں یہ بھی ظالمہ ہیں، اور آپس میں ایک دوسرے کی دشمن ہیں،کہیں ساس کی شکل میں، کہیں بہو کی شکل میں، کہیں نند کی شکل میں، تو کہیں دیورانی جٹھانی کی شکل میں،لیکن ایک بہو پر دوسری عورتیں ساس،نند،دیورانی،جٹھانی تبھی ظلم کرپاتی ہیں جب اسکا شوہر بزدل، کم عقل اور کم فہم ہوتا ہے، اگر مرد مضبوط ہو تو اسکی بیوی کی طرف کوئى بھی غیر عورت پھر چاہے وہ ساس ہی کیوں نہ ہو ظلم کی تلوار نہیں گھما سکتی۔

لیکن کچھ مرد بےچارے بالکل اللہ میاں کی گائے ہوتے ہیں انکا علم صرف ماں کے حقوق، بہنوں بھابیوں کے حقوق کی حد تک محدود ہوتا ہے، یہ بیچارے بیوی کو تو اپنی جاگیر  سمجھتے ہیں۔ اور اس قدر بے رحمی سے اس پر ظلم کرتے ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ کسی گھریلو عورت کی اولاد نہیں بلکہ ایک آزاد عورت جسے عزت ذلت کا کوئى پتا نہیں رنگ سالا ”شادی بیاہ “میں ناچنے والی  ایک بےحیا عورت کی اولاد ہیں جو انکے سینے میں عورت کا درد ہے ہی نہیں بالکل نرمی،محبت سے خالی ہیں۔ مردوں کی کم عقلی اور اگر یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ نامردی کی وجہ سے عورت پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں ہزاروں واقعات ایسے ہیں جنسے شیطان بھی شرما جائے،ابھی کچھ دن پہلے میری ایك دینی بہن کے پاس ہاسپیٹل سے  ایک خاتون کی کال آئى وہ زاروقطار رو رہی تھی، تسلی دینے پر اسنے بتایا کہ باجی! مجھ پے تین بیٹیاں تو پہلے سے تھیں، اور اب یہ چوتھی بھی  بیٹی ہوگئى میرا شوہر تو مجھے ہاسپیٹل میں ہی مارے گا، ایک اور اسی طرح کا واقعہ کہ تین بیٹیاں ہو گئيں تو شوہر نے بیوی کو گھر سے نکال دیا  مائکہ چلی گئى، جب چوتھے بچے کی پیدائش کا وقت آیا تو اسکے بھائى نے نرس سے دس ہزار میں یہ طے کر لیا کہ اگر کسی اور خاتون کے بیٹا ہو اور میری بہن کے بیٹی ہو تو بچہ بدل دیا جائے پیسہ بھی دے دیا لیکن اللہ کا کرنا کہ دوسری خواتین کے بھی بیٹیاں ہی ہوئیں، پیسہ فالتو گیا اس نامرد نے اتنا بڑا دھوکھا کرنے پر اپنے سالے کو آمادہ کیا،او ظالم! اس میں اسکی کیا خطا ہے بیٹے بیٹیاں تو اللہ کی دین ہے۔

ركھيو غالب مجهے اس تلخ نوائى ميں معاف

آج مرے دل ميں كچھ درد سوا ہوتا ہے

 بہو پر ظلم کرانے میں ساس نند کا ہاتھ بہت زیادہ ہوتا ہے، اور یہ وہیں ہوتا ہے جہاں مرد کم عقل کم فہم اور بزدل ہوتا ہے، یہ ہم نے بہت قریب سے دیكھا ہے ایک ماں کے دو بیٹے ہیں دونوں الگ ہوگئے، لیکن ایک کی بہو پر ساس ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرسکتی، بہو اس كى ہر بات كا منھ توڑ جواب ديتى ہے،  اور ایک کی بہو کو کوئى دن ایسا نہیں جاتا جس میں كئى كئى بار اسے رلا نہ دے، شوہر سے ڈانٹ نہ پڑوادے،لیکن یہ ہوتا اسی صورت میں ہے جب مرد بےعقل ہوتا ہے اسکی ساری توجہ اسکی ماں کی طرف ہوتی ہے۔

اگر غور سے ديكھا جائے تو اس ظلم ميں بہو كى بھى غلطى ہے، جس طرح ظلم كرنا گناه ہے اسى طرح ظلم سہنا بھى گناہ ہے، انہيں گھروں بہؤوں پر ظلم زيادہ ہوتا ہے، جہاں بہو ہر ايك كى كھرى كھوٹى برداشت كرتى ہے، اپنى حق تلفى اور ان ديكھى پر خاموش رہتى ہے، اپنے اوپر ہونے والے ہر ظلم ستم كو روا ركھتى ہے،  اگر بہو اپنے  اوپر ہونے والے مظالم كے خلاف آواز اٹھائے، اس كے قلع قمع كے ليے وقت پر كوشش كرے تو شايد اسے وہ دن نہ ديكھنے پڑيں  جو آج ديكھ رہى ہے، سب كى عزت و احترام اپنى جگہ ہے، ليكن ظلم كے خلاف آواز اٹھانا اس كا دينى ،اخلاقى اور معاشرتى حق ہے۔

چپ رہنا بھى ہے ظلم كى تائيد ميں داخل

حق بات كہو جرأتِ اظہار نہ بيچو

 ہم یہ نہیں کہتے کہ مرد ماں کو بلکل ہی چھوڑ دے بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اسلام نے ماں اور بیوی دونوں کے حقوق الگ بتائے ہیں تو انکو اپنے اپنے حق دے نہ کہ اپنی ساری توجہ ایک کی طرف ہی کرلے کچھ مرد تو بیچارے ماں کے اتنے فرمانبردار ہوتے ہیں کہ اگر ماں نے کہ دیا کہ ایک سال تک بہو کو گھر نہیں لانا تو لا نہیں سکتے، حتی کہ اتنی تک مردوں کی بے دردی ہم نے دیکھی ہے کہ بیوی  بیماری سے بے چين ہے چلا نہیں جا رہا ،کھڑا نہیں ہوا جا رہا، لیکن ماؤں کے کہنے پر اس قدر بے رحمی سے مارتے ہیں وقت پر  کام نہ ملنے کی وجہ سے کہ شیطان بھی شرما جائے اور یہ انکی لاڈلی مائیں خود دروازے پر کھڑی ہوتی ہیں کہ کہیں باہر کی کوئى خاتون آکر بیچ بچاؤ نہ کردے،اس قدر بےرحمی سے تو جانور کو بھی نہیں مارا جاتا لیکن افسوس کہ ہمارے معاشرے میں یہ عام ہوگیا ہے۔

میاں بیوی کا ایک دوسرے کے حقوق ادا نہ کرنا، ایک دوسرے پر اپنی حکومت چاہنا، ساس نند کا بہو پر ظلم کرنا،بہو کا اپنی سسرال میں فساد پھیلانا سب کو اپنی مٹھی میں لینے کی کوشش کرنا،اور بیوی کا شوہر کی نافرمانی،ناشکری کرنا غرض کہ  ان میں سے ہر ایک  کی  یہ  خواہش ہونا کہ سب اسکی بات مانیں وہ کسی کی نہ مانے سب اس کے ماتحت ہوں اور یہ کسی کے ماتحت نہ ہو،ان سب برائیوں سے پھیلنے والے فساد کو آخر کس طرح ختم کریں؟  یہ فساد تبھی ختم ہو سکتا ہے جب انسان انسان بن کر زندگی گذارے نہ کہ شیطان بن کر،یہ فساد ایک دوسرے سے محبت کرنے اسکی عزت کرنے اسکی غلطیوں کو درگذر کرنے اسکے ظلم و زیادتی کو برداشت کرنے اور خود کو عاجزی و انکساری کے سانچے میں ڈھالنے سے ہوگا۔

 رشتہ کوئى بھی ہو میاں بیوی کا ہو، ماں باپ کا ہو، ساس خسر کا ہو، نند بھابی کا ہو، دوستی کا ہو غرض کہ ہر رشتہ پھر چاہے وہ کوئى بھی ہو ہم سے عزت چاہتا ہے، محبت چاہتا ہے، خلوص چاہتا ہے،اعتماد چاہتا ہے۔ جب ہم ایک دوسرے کی عزت کریں گے ایک دوسرے سے دل سے محبت کریں گے اور اس محبت میں بدلے کی امید نہیں رکھیں گے خود کو  سب سے کمتر سمجھ کر دوسروں کو خود سے اعلی سمجھیں گے تو ہمارے رشتے اس طرح کھلیں گے جس طرح بارش کے موسم میں درخت اور پھول کھل جاتے ہیں،اور اگر ہم ایک دوسرے کی عزت نہیں کریں گے ایک دوسرے سے محبت نہیں کریں گے اور ہر بات میں بدلے کی امید رکھیں گے اور خود کو دوسروں سے بہتر سمجھ کر انکو نظر انداز کریں گے ذلیل کریں گے تو ہمارا کوئى بھی رشتہ خوشگوار نہیں رہےگا وہ ہمارے لئے سکون و راحت والا رشتہ نہیں رہے گا بلکہ ہمارے لئے ایک عذاب بن کر رہ جائےگا ۔اس لئے ہمیں چاہئے کہ اپنی انا کو ختم کرکے ایک دوسرے کو عزت دیں، ایک دوسرے کا احترام کریں، ایک دوسرے سے بغیر کسی لالچ اور بغیر کسی بدلے کے سچے دل سے محبت کریں، پھر دیکھیں خوشیاں کس طرح ہمارے آنگن میں رقص کرتی ہیں ۔

خيال خاطرِ احباب چاہئے ہر دم

انيس ٹيس نہ لگ جائے آبگينوں كو

عام طور بہوؤں پر  ظلم وستم كى خونچكاں داستانيں ان معاشروں ميں وجود پزير ہوتى ہيں جہاں لوگ دينى تعليم سے كورے ہوتے ہيں، بيوى كے شرعى حقوق كيا ہيں؟ شريعت ميں ان كا مقام ومرتبہ كيا  ہے؟ وه ان سب باتوں سے نا بلد ہوتے ہيں، گھر كے سارے افراد بہو كو اپنى لونڈى اور جاگير سمجھتے ہيں، اس ليے ان معاشروں ميں لوگ بہو پرہر طرح كے ظلم وستم كو اپنا جائز حق سمجھتے ہيں، تو ايسے علاقوں لوگوں كو دينى تعليم سے روسناش  كرانے كى سخت ضرورت ہے، اسلام ميں عورتوں كا بڑا اہم مقام ہے ، وہ گھر كى جاگير نہيں بلكہ گھر كا ايك اہم فرد ہے، اس پر جبر واستبداد كسى صورت ميں روا نہيں الا يہ كہ وہ بے راہ رو ہو جائے، اس طرح كى علاقوں كو جب دينى تعليم كا رواج ہوگا تو لوگوں كے اندر دين دارى آئے گى، اور وہ عورت كى قدر وقيمت كو سمجھيں گے، نتيجتا ان پر ہونے والے مظالم ان شاء الله ختم ہو جائيں گے۔

اور آج کے وقت میں موبائل ہر انسان کی ضرورت کی چیز بن چکا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں ساس اس بات کو بھی بلکل پسند نہیں کرتیں کہ انکی بہو کے پاس فون رہے، ابھی کچھ دن پہلے میرے استاد محترم اپنی ایک شاگردہ سے چیٹ کر رہے تھے،درمیان میں کسی علمی بات پر شاگردہ نے اپنی ایک معلمہ کا تذکرہ كئى بار بہت والہانہ انداز میں کیا،ایسے ہی برسبیلِ تذکرہ حضرت جی نے اس سے پوچھا کہ کبھی انکی خیر خبر بھی معلوم کرتی ہو؟ کبھی رابطہ بھی ہوتا ہے ان سے؟ تو اسنے بتایا کہ انکے پاس تو فون ہی نہیں رہتا ہے، انکے شوہر یا خسر کے پاس رہتا ہے، انکے گھر پہنچنے پر بات ہوتی ہے۔اب  ایک قابلہ عالمہ کے پاس اس وقت میں فون کا نہ ہونا جس میں بچے بچے کے پاس فون ہے انسان کو بیچین کر دیتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے جو انکے پاس فون نہیں ہے،ایسے وقت میں فون نہ رکھنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اس كى بہت سارى وجوہات ہيں ، ان ميں ایک وجہ ہمارے معاشرے کی ساس بھی ہے جو کہ اس بات کو بلکل بھی پسند  نہیں کرتی کہ بہو کے پاس فون رہے اسے خطرہ ہوتا ہے کہ یہ مائکہ بات کرےگی اور ہماری شکایت کرےگی ارے بھئى جب آپ اسے شکایت کا موقع ہی نہیں دیں گیں تووہ کیا پاگل ہے جو آپکے  پھجیتے کرےگی، اپنے گھر والوں سے شکایت کرےگی، اور ایک یہ الزام  ہمیشہ بہو کے  سر رہتا ہے  ساس کہتی ہیں کہ پورے دن موبائل چلاتی ہے کام نہیں کرتی اور کچھ ساس جو زیادہ گری ہوئى ہوتی ہیں وہ الزام  تک لگانے پر اتر  آتی ہیں اور بہو پر الٹے سیدھے الزام لگاتی ہیں جس سے بیٹا بہو کو طلاق دیدے۔

 کچھ مرد بھی ماؤں کی شکایتوں سے تنگ آکر بیوی کے پاس فون نہیں رکھنا چاہتے ہیں کہ انکے کانوں میں ہر وقت یہ آواز پہنچتی ہے کہ بہو کام نہیں کرتی بس فون چلاتی رہتی ہے،اور کچھ مردوں کو بیویوں پر شک بھی رہتا ہے کہ کہیں یہ غلط جگہ تو نہیں استعمال کر رہی ہے فون۔ بسا اوقات انکا یہ شک صحیح ہوتا ہے کیوں کہ کچھ خواتین کے معاشقے چل رہے ہوتے ہیں تو وہ  اپنے عاشق سے  باتیں کرتی ہیں یہ بھی میں نے خود اپنے کانوں سے سنا ہے کہ لڑکی کا معاشقہ چل رہا تھا کسی سے، اور والدین نے شادی کردی کسی سے، تو شوہر بیچارہ ہر وقت تو گھر میں رہتا نہیں ہے،سارا دن عاشق سے باتیں ہوتی تھیں شوہر تھکا ہارا آتا گھر تو بیوی کے نخرے دیکھتا اور وہ بےغیرت خاتون اس سے زبان درازی کرتی،بدتمیزی کرتی، خواتین کو ایسا بالكل نہیں کرنا چاہئے اول تو یہ افيئر وفيئر ہی نہیں ہونا چاہئے، اور اگر ہوبھی گیا ہے، تو اب اس كو بھول جاؤ جس کے یہاں شادی كر كےکر آئى ہو اسکی بن کر رہو کم از کم نمک حرامی تو نہ کروکہ رہ کسی کے یہاں رہی ہیں کھا کسی کا رہی ہیں، اور گن کسی کے گا رہی ہیں، ایسی خواتین یہ یاد رکھیں کہ انکی یہ گھنونی  حرکت صرف انکی بےعزتی تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ انکے والدین،بھائى بہن، اساتذہ سب کی عزت کو لیکر ڈوبتی ہے،اور ایسی خاتون پھر نہ ہی شوہر کی رہتی ہے نہ مائکہ والوں کی، اور نہ ہی اپنے عاشق کی، یہ بات یاد رکھئے کہ آپکی حیثیت آپکے بائےفرینڈ کے نزدیک صرف اور صرف ایک ٹیشو پیپر کی طرح ہے وہ آپکو کبھی نہیں اپنائے گا،اور آپ اس کے گن گاتے گاتے سبکی نظروں سے گر جائىیں گیں۔تو بہنو ایسا قدم کبھی نہ اٹھانا جو آپکے والدین کی اساتذہ کی عزت پر داغ لگائے۔

کہیں بہوئیں بھی ظالم ہوا کرتی ہیں وہ اپنی حکومت چاہتی ہیں وہ چاہتی ہیں کہ ہمارے تمام سسرال والے ہماری مٹھی میں رہیں ہم جیسے چاہیں اس گھر کو چلائیں،  اور اس معاملے میں کوئى بھی دخل اندازی نہ کرے تو یہ بلکل غلط ہے بہو ذرا اپنا مزاج ٹھنڈا کرکے سوچے کہ جب وہ اپنے مائکہ میں تھی تو کیا اسی کی  حکومت چلتی تھی، وہاں اسی کا آڈر چلتا تھا یا اسکی ماں کی چلتی تھی کوئى بھی لڑکی ایسی نہیں ہوتی کہ وہ اپنی ماں کے سامنے اپنی حکومت کی خواہش کرے بلکہ ہر معاملہ میں اپنی ماں کو مقدم رکھتی ہے تو جب وہ اپنے مائکہ میں اپنی ماں کو مقدم رکھتی تھی اور خود انکے کہنے پر چلتی تھی تو اس بہو کو چائے کہ سسرال میں اپنی ساس کو مقدم رکھے اور خود انکے کہنے پر چلے نہ کہ انکو اپنے حکم پر چلانے کی خواہش کرے اور اپنی اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے سسرال میں فساد مچائے، عام طور پر سب تو نہیں لیکن کچھ بہوئیں اپنے شوہر کو اسکے بوڑھے ماں باپ سے بلکل الگ کردیتی ہیں اسے ماں باپ سے بولنے تک نہیں دیتیں، اور جھوٹے جھوٹے الزامات اسکے ماں باپ پر لگا کر اسکے کانوں میں زہر گھولتی ہیں،  یہ کتنی غلط بات ہے میرے خیال میں ایسا وہی عورت کر سکتی ہے جسکی صحیح طریقہ سے تربیت نہ ہوئى ہو جسکا دل پتھر ہو نرمی اور محبت سے خالی ہو آپ ذرا  دیر کے لئے سوچیں کہ اگر  آپ سے  آپکے  بیٹے کو کوئى اس طرح جدا کرے تو کیا آپ برداشت کر پائیں گیں؟ نہیں نہ تو پھر آپکی غیرت یہ کیسے گوارہ کرسکتی ہے  کہ آپ ایک بیٹے کو اسکی ماں سے الگ کردیں۔یہ بات ہمیشہ یاد رکھئے کہ آپ آج بہو بنی ہیں لیکن کل آپکو ساس بھی بننا ہے آپ اگر آج نند بن کر کسی کی بیٹی پر آڈر چلا رہی ہیں تو کل آپکو بھی کسی کی بھابی بننا ہے آپ جیسا کریں گیں ویسا بھریں گیں اس لئے آپ  کو چاہئے کہ آپ پیار محبت کے ساتھ اپنی سسرال والوں کے ساتھ رہیں اگر تھوڑی بہت بات برداشت بھی کرنی پڑے تو آپ برداشت کریں، آپکو اگر جھکنا پڑے تو جھکیں، لیکن گھر کو بکھرنے نہ دیں، دشمنوں کو خود پر ہنسنے نہ دیں، بلکہ آپ یہ کوشش کریں کہ آپ ایک درخت بن کر سبکو اپنی چھاؤں میں سمیٹیں اس سے آپکی روح کو سکون ملے گا، دل مسرور ہوگا۔

اور خواتین میں ایک برائى یہ بہت عام ہورہی ہے کہ وہ اپنے شوہروں کی نافرمانی کرتی ہیں، انکی ناشکری کرتی ہیں، ان سے بحث و مباحثہ کرتی ہیں، انکی بات نہیں مانتیں، ان سے زبان درازی کرتی ہیں، یہ بات یاد رکھئے کہ نافرمان عورت پر  اللہ رب العزت کا غضب نازل ہوتا ہے اگر شوہر اپنى ز وجہ سے  ناراض ہوتا ہے تو اللہ رب العزت بھی اس خاتون سے ناراض ہوتے ہیں شوہر کا حق اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے بعد سب سے بڑا ہے۔ خواتین کی اکثر یہ شکایت آتی ہے کہ انہیں کتنی بھی قیمتی چیز لاکر دو اسے ناک ضرور مارتی ہیں بلیک ہے تو وائٹ ہونی چاہئے تھی، گول ہے تو چکور ہونی چاہئے تھی، بڑی ہے تو چھوٹی ہونی چاہئے ، میری بہنو! یہ بہت غلط عادت ہے وہ جو چیز بھی آپکو شوہر اپنی خوشی سے لاکر دےرہا ہے  تو اسے خوشی سے لےلو، اسکے لینے میں ناک نہ مارو اور کسی بھی بات پر شوہر سے بحث نہ کرو، اس سے شوہر کے دل میں محبت کم ہوتی ہے، کبھی اپنے شوہر سے زبان درازی نہ کرو یہ آپکی محبت کو شوہر کے دل سے نکالنے میں آپ كى سوكن كا رول ادا  کرتی ہے۔ کبھی ایسی غلطی نہ کرو جس سے شوہر کو ذلت کا سامنا کرنا پڑے ہمیشہ اسکی عزت کا خیال رکھو، اور خود کو کبھی بھی اس سے زیادہ قابل اور عقلمند نہ سمجھو، بلکہ اپنے شوہر کو ہر بات میں ہر چیز میں خود پر ترجیح دو، اس سے آپکی محبت آپکے شوہر کے دل میں بڑھےگی۔

 اور سب سے بڑی اور بری بات یہ ہے کہ خواتین اپنے شوہروں پر شک کرتی ہیں اور اسی وجہ سے انکے گھر برباد ہوتے ہیں، اولاد کہیں ہے، شوہر کہیں ہے، اور یہ محترمہ خود کہیں ہیں، شوہر پر الزام لگانے اور اسے بدنام کرنے سے اس طرح بچو جس طرح تم آگ سے بچتی ہو۔ ورنہ یہ غلط فہمی آپکا شک کرنا  آپکے گھر کو جہنم کا گڑھا بنا دیگا۔ خواتین کے گھر اکثر اسی وجہ سے برباد ہوتے ہیں کہ وہ اپنی کم عقلی کی دلیل دیتی ہیں ،لھذا آپ اس سے بلکل الگ رہیں ۔

الله تعالى ہم سب كو سمجھ عطا كريں، اور معاشرے ميں سب كو اپنى اپنى ذمہ داريوں اچھى طرح سے نبھانے كى توفيق ديں۔ آمين

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply