hamare masayel

اگر فلاں عورت سے ملى تو طلاق اور وہ اس كے گھر آجائے

تبسم سے اگر ملی تو طلاق، تبسم خود آکر ملے تو کیا حکم ہے؟ 

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تم تبسم سے ملی تو ہمارا تمھارا رشتہ ختم، زید کی بیوی تو نہیں ملی؛ لیکن خود تبسم اسکے گھر آگئ اور زید کی بیوی نے اخلاقًا اس سے بات بھی کرلی ایسی صورت میں کیا طلاق پڑ جائے گی؟  اگر پڑے گی تو کتنی؟ بینوا توجروا

المستفتی منصور احمد قاسمی پوٹریاں جون پور

الجواب باسم الملہم للصدق والصواب

صورت مسئولہ میں زید سے اس کی بات کے متعلق دو طرح کی وضاحت طلب کی جائے۔

(1) “ہمارا تمہارا رشتہ ختم” اس جملہ سے طلاق مراد لیا ہے یا نہیں، اگر طلاق مراد نہیں لیا ہے تو چونکہ یہ کنائی لفظ ہے اس لیے بلا نیت طلاق واقع نہ ہوگی۔

(2) اور اگر طلاق مراد لیا ہے تو یہ وضاحت طلب کی جائے کہ تبسم کے گھر جا کر یا خود بیوی کی طرف سے اقدام کر کے ملنا مراد ہے یا مطلقا ملنا؟

اگر پہلی صورت ہے تب بھی طلاق واقع نہیں ہوگی کیونکہ عام یمین کی تخصیص فقہاء کے یہاں جائز ہے۔ اور اگر وہ کہتا ہے کہ میں نے مطلقًا ملنا مراد لیا تھا تو ایک طلاق بائن واقع ہوگی دوبارہ نکاح کر کے اس کے ساتھ رہ سکتا ہے۔

اور اگر زید عام آدمی ہے اور اپنے اس جملہ کی کوئی وضاحت نہیں کر رہا ہے تب بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی کیونکہ یمین میں شرعاً الفاظ عرفیہ مراد ہوتے ہیں اغراض نہیں اور اس جملہ میں بیوی کو تبسم سے ملنے سے منع کیا ہے نہ کہ تبسم کے اس کے گھر آکر ملنے سے، اِس حکم کی تائید فقہ کے درج ذیل جزئیہ سے بھی ہوتی ہے۔

الدلائل

حلف لایکلمه فناداه وهو نائم فأیقضه فلو لم یوقظه لم یحنث وهو المختار، ولو مستیقظاً حنث لو بحیث یسمع۔ (تنویر الأبصار مع الدر المختار، کتاب الأیمان/ باب الیمین في الأکل والشرب والکلام 5/594 زکریا، 3/791 دار الفکر بیروت، 3/791 کراچی).

والحاصل أن الذي یبني علیه الحکم في الأیمان هو ألفاظ المذکورة في کلام الحالف باعتبار دلالتها علی معانیها الحقیقیة أو المجازیة۔ (رسائل ابن عابدین 1/302).

ولو قال لها: لانکاح بیني وبینک أوقال: لم یبق بیني وبینک نکاح یقع الطلاق إذانوی۔ (قاضي خان علی هامش الهندیة، زکر یا قدیم ۱/46۸، زکریا جدید دیوبند 1/284، الفتاوى الهندية، زکریا قدیم 1/375، جدید زکریا دیوبند 1/443).

وفي شرح الطحاوي: لانکاح بینی وبینک ۔۔۔۔و إن قال لم أرد به الطلاق أو لم تحضره النیة لا یکون طلاقا. (الفتاوی التاتارخانیة، زکریا دیوبند 4/460، رقم:6669).

أما نیة تخصیص العام فی الیمین فمقبولة دیانة اتفاقا و قضاء عند الخصاف، والفتویٰ علی قوله۔ (الأشباه قدیم ص: 48، جدید ص: 96).

الأیمان مبنیة علی الألفاظ لا علی الأغراض. (تنویر الأبصار علی الدر المختار، الأیمان باب الیمین في الدخول والخروج 5/528 زکریا، 3/743 دار الفکر بیروت).

إذا وجد الشرط انحلت الیمین. (الفتاویٰ الهندیة 1/415).

إذا أضافه إلی شرط وقع عقیب الشرط. (هدایة/باب الأیمان في الطلاق: 2/385، البحر الرائق / باب التعلیق 4/8 کوئٹه(.

 والله أعلم 

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله، أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية، بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.

21/8/1439ه 7/5/2018م الاثنين.

۞۞۞۞۞۞۞

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply