hamare masayel

عدت وفات میں اسقاط حمل، ابارشن کرنے سے عدت کا حکم

 (سلسلہ نمبر: 708)

عدت وفات میں اسقاط حمل

سوال: ایک عورت جن کے شوہر کا گزشتہ جنوری میں انتقال ہوگیا، انکے دو چھوٹے بچے ہیں، ایک بچہ ابھی چھ ماہ کا ہے، اور انھیں گزشتہ ماہ میں پتہ چلا کہ وہ پھر سے حمل سے ہوگئیں ہیں، اس وقت حمل تقریباً ڈیڑھ ماہ کا ہے، جب کہ وہ عدت میں ہیں اور وہ حمل کا اسقاط چاہتیں ہیں، وہ یہ کہہ رہیں ہیں کہ میرے آگے پیچھے کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہیں ہے، میں بہت پریشان ہوں اور جو بچہ ابھی چھ ماہ کا ہے وہ آپریشن سے پیدا ہوا ہے۔

دوبارہ بھی ڈاکٹر نے آپریشن ہی بتایا ہے تو میں کیا کروں میں بہت پریشان ہوں، مطلب میں حمل کا اسقاط کرانا چاہتی ہوں، تو میرا ایسا کرانا کیسا ہے؟ اور پھر میری عدت کا کیا ہوگا؟ رہنمائی فرمائیں۔

المستفتی: محمد خالد سلہرا، استاذ حفظ مدرسہ اسلامیہ دار ارقم شیرواں۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: حمل ضائع کرنے سے متعلق اصول یہ ہے کہ اگر  حمل  چار  ماہ  سے  کم کا ہو  اور  دین دار وماہر ڈاکٹر  یہ کہہ دے کہ بچہ کی پیدائش کی وجہ سے  ماں کی جان کو یقینی یا غالب گمان کے مطابق خطرہ ہے، یا ماں کی صحت اس حمل کا تحمل نہیں کرپائے گی،  تو ان  جیسے اعذار کی بنا پر  حمل میں روح پڑ جانے سے پہلے پہلے  (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے)  اسے ساقط کرنے کی گنجائش ہوگی،  چار ماہ کے بعد کسی صورت میں اسقاط حمل جائز نہیں ہے۔

لہذا مذکورہ خاتون ماہر ڈاکٹر سے مشورہ کریں اگر وہ اس حمل کو چھوٹے بچے کی پرورش یا حمل اور ماں میں سے کسی کے لئے خطرہ کا باعث بتائے تو چونکہ ابھی حمل چار ماہ سے کم کا ہے اس لئے اسقاط کی گنجائش ہوگی، اور عدت چار ماہ دس کے بعد ہی پوری ہوگی، یعنی عدت وفات مکمل کرنی ہوگی، اور اگر ڈاکٹر ایسا نہ بتائے تو اسقاط کرانا سخت گناہ ہے، اس سے باز رہنا ضروری ہے۔

نوٹ: دیکھ ریکھ کرنے والے کا نہ ہونا یا آپریشن کے ذریعہ پیدائش ہونا یہ شرعی عذر نہیں ہے؛ اس لئے محض اس وجہ سے اسقاط کی اجازت نہیں ہے۔

الدلائل

“وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لا تأثم إثم القتل. (الموسوعة الفقهیة الکویتیة: 30/285).

وإذا أسقطت سقطاً استبان بعض خلقہ انقضت به العدة؛ لأنه ولد وإن لم یستبن بعض خلقه لم تنقض، الخ. (البحر الرائق: 4/ 229، زکریا).

والله أعلم.

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.

8- 8- 1443ھ 12- 3- 2022م السبت.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply