hamare masayel

عورتوں کا اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لکھنا

(سلسلہ نمبر: 571)

عورتوں کا اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لکھنا

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ شادی شدہ عورتیں اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہروں کا نام لکھ سکتی ہیں یا نہیں؟

ایک مضمون میں باپ کے بجائے شوہر کے نام لکھنے کو اللہ اور فرشتوں کی لعنت کا سبب اور موجب کفر وغیرہ بتایا گیا ہے اور اس پر بطور دلیل کئی احادیث سے استدلال بھی کیا گیا ہے۔ برائے کرم اس حوالے سے شرعی حکم اور احادیث کا صحیح مفہوم بیان فرماکر ماجور ہوں۔

المستفتی: محمد غفران قاسمی، آندھی پور، اعظم گڑھ۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: عورتوں کے نام کے ساتھ قرآن وحدیث میں جس طرح باپ کی طرف نسبت کی گئی ہے اسی طرح شوہر کی طرف بھی نسبت کی گئی ہے؛ اس لئے شادی شدہ عورت اپنی نسبت میں باپ کے علاوہ اپنے شوہر کا نام بھی لگا سکتی ہے۔

سوال میں مضمون میں جن احادیث کا حوالہ دیا گیا ہے ان سب کا مطلب یہ کہ کوئی اپنی ولدیت کی نسبت کسی دوسرے کی طرف کرے، یعنی اپنا باپ کسی اور کو بتائے تو یہ حرام ہے، لیکن چونکہ شادی شدہ عورتوں کا مقصد اپنی ولدیت کو بدلنا یا چھپانا نہیں ہوتا بلکہ صرف اپنے شوہر کے نام کو ظاہر کرنا ہوتا ہے اس لئے شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

الدلائل

قال الله تعالى: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ ۖ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَقِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ ، وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِندَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ، وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ (سورة التحريم: 10-11- 12).

وفي الصحيحين :  “جَاءَتْ زَینب امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ، تستاذن عَلیه، فَقیل: یا رَسُولَ الله، هذه  زینَبُ، فَقَالَ: أَی الزیانِبِ؟ فَقِیلَ: امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: نَعَمْ، ائْذَنُوا لَها“.(صحيح البخاري: 1462، وصحيح مسلم : 1462).

عن سعد بن مالك ، قال : سمعته أذناي ووعاه قلبي من محمد صلى الله عليه وسلم، أنه قال : ” من ادعى إلى غير أبيه، وهو يعلم أنه غير أبيه، فالجنة عليه حرام “. (سنن أبي داود، رقم الحديث: 5113).

(من ادعى) بتشديد الدال أي: انتسب ورضي أن ينسبه الناس إلى غير أبيه. (وهو يعلم) أي: والحال أنه يعلم. (فالجنة عليه حرام) أي: إن اعتقد حله أو قبل أن يعذب بقدر ذنبه أو محمول على الزجر عنه لأنه يؤدي إلى فساد عريض. قال ابن بطال: ليس معنى هذا الحديث أن من اشتهر بالنسبة إلى غير أبيه أن يدخل في الوعيد كالمقداد بن الأسود وإنما المراد به من تحول عن نسبته لأبيه إلى غير أبيه عالما عامدا مختارا وكانوا في الجاهلية لا يستنكرون أن يتبنى الرجل ولد غيره ويصير الولد ينسب إلى الذي تبناه حتى نزل قوله تعالى: {ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله} وقوله تعالى: {وما جعل أدعياءكم أبناءكم} فنسب كل واحد إلى أبيه الحقيقي وترك الانتساب إلى من تبناه لكن بقي بعده مشهورا بمن تبناه فيذكر به لقصد التعريف لا لقصد النسب الحقيقي كالمقداد بن الأسود وليس الأسود أباه وإنما كان تبناه واسم أبيه الحقيقي عمرو بن ثعلبة. كذا في الفتح. (عون المعبود شرح سنن أبي داود).

والله أعلم.

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply