عید کے دن تعزیت
سوال: ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں جب کسی کا انتقال ہوجاتا ہے تو میت کے رشتہ دار، محبین عید والے دن برائے تعزیت اسکے گھر جمع ہوتے ہیں کیا ایسا کرنا شریعت کی رو سے درست ہے؟
المستفتی: منصور احمد قاسمی پوٹریاں جون پور۔
الجواب باسم الملہم للصدق والصواب:
شرعی اعتبار سے وفات کے تین دن بعد تعزیت کی نیت سے جانا مکروہ ہے؛ اس لئے کہ اس سے بلا وجہ غم تازہ ہوتا ہے؛ لیکن اگر کوئی شخص بر وقت حاضر نہ رہا ہو، اور تین دن بعد حاضر ہوکر تعزیت کرے تو اس میں کو ئی حرج نہیں ہے۔ لہذا رشتہ دار وغیرہ اگر پہلے تعزیت کرچکے ہوں تو عید کے دن تعزیت کے لئے نہ جائیں اور اگر ضروری سمجھ کر جائیں گے تو بدعت اور گناہ ہوگا؛ ہاں اگر کوئی رشتہ دار انتقال کے بعد عید ہی دن کہیں سے آئے تو تعزیت پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
الدلائل
مدة التعزیة: جمهور الفقهاء علی أن مدة التعزیة ثلاثة أیام. واستدلوا لذٰلک بإذن الشارع في الإحداد في الثلاث فقط، بقوله صلی اللّٰه علیه وسلم: لا یحل لامرأة تؤمن باللّٰه والیوم الآخر أن تحد علی میت فوق ثلاث، إلا علی زوج: أربعة أشهر وعشرًا. وتکره بعدها؛ لأن المقصود منها سکون قلب المصاب، والغالب سکونه بعد الثلاثة، فلا یجدد له الحزن بالتعزیة، إلا إذا کان أحدهما (المعزی أو المعزي) غائبًا، فلم یحضر إلا بعد الثلاثة، فإنه یعزیه بعد الثلاثة. (الموسوعة الفقهیة / مادة تعزیة 12/288 کویت).
ووقتها من حین یموت إلیٰ ثلاثة أیام ویکره بعدها إلا أن یکو ن المعزي أو المعزي علیه غائبًا فلا بأس بها. (الفتاوی الهندیة 1/167-149دار إحیاء التراث العربي بیروت).
ولا بأس ………. بتعزیة أهله وترغیبهم في الصبر بإتخاذ طعام لهم وبالجلوس لها في غیر مسجد ثلاثة أیام، وأولها أفضل وتکره بعدها، إلا لغائب. (الدر المختار مع الشامي 3/147 زکریا).
والله أعلم
تاريخ الرقم: 27 – 9 – 1439ھ 12 – 6 – 2018 م الثلاثاء
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.