(سلسلہ نمبر: 432)
فرض نماز میں لقمہ کب دیں
سوال: فرض نماز میں امام سے اگر قرات میں غلطی ہوجائے تو لقمہ دینے کا کیا اصول ہے؟ ایک امام صاحب نے “الرحمن علم القرآن” کے بعد غلطی سے “خلق الانسان من صلصال کالفخار” پڑھ دیا تو کیا ایسی صورت میں لقمہ دینا ضروری تھا، یا اس طرح بھی نماز ہوسکتی تھی؟ فرض اور تراویح دونوں نماز میں لقمہ دینے کا اصول ایک ہی ہے یا کچھ فرق ہے؟ بینوا توجروا۔
المستفتی: ڈاکٹر ابو عبید احمد، منجیرپٹی، استاذ ابن سینا طبیہ کالج، بیناپارہ، اعظم گڑھ۔
الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:
فرض نماز میں نہ مقتدی کو لقمہ دینے میں عجلت سے کام لینا چاہئے نہ ہی امام کو مقتدی کو لقمہ دینے پر مجبور کرنا چاہئیے، یعنی اگر امام سے قرات میں ایسی غلطی نہ ہورہی ہو جس سے نماز ہی فاسد ہو جائے، یا امام قرات کرتے وقت بھول کی وجہ سے رک جائے تو مقتدی کو فوراً لقمہ دینا مکروہ ہے، اسی طرح امام آگے کی آیت بھول جائے اور ایک بڑی آیت یا اتنی مقدار پڑھ چکا ہو تو لقمہ کا انتظار نہ کرے بلکہ رکوع میں چلا جائے، اور اگر اتنی مقدار ابھی نہ پڑھا ہو تو دوسری جگہ سے قرات کرلے، پھر بھی اگر مقتدی نے لقمہ دیدیا اور امام نے لقمہ قبول کرلیا تو نماز ہو جائے گی۔
صورت مسئولہ میں لقمہ دینے کی ضرورت نہیں تھی اس لئے کہ گرچہ بیچ کی آیات چھوٹ گئی تھیں لیکن معنی میں فساد نہ ہونے کی وجہ سے نماز درست تھی، البتہ اگر کسی نے لقمہ دیدیا تھا تب بھی نماز ہوگئی۔
مذکورہ بالا اصول صرف فرض نماز کے بارے میں ہے، تراویح کی نماز میں کوئی آیت چھوٹ جائے یا غلطی ہوجائے (گرچہ اس سے نماز فاسد نہ ہو) پھر بھی لقمہ دینا چاہیئے کیونکہ تراویح میں پورا قرآن سننا سنت ہے اگر ایسی صورت میں لقمہ نہیں دیا گیا تو پورا قرآن سننے کی سنت پر عمل نہیں ہوسکے گا۔
الدلائل
يكره أن يفتح من ساعته كما يكره للإمام أن يلجئه إليه، بل ينتقل إلى آية أخرى لا يلزم من وصلها ما يفسد الصلاة أو إلى سورة أخرى أو يركع إذا قرأ قدر الفرض كما جزم به الزيلعي وغيره وفي رواية قدر المستحب كما رجحه الكمال بأنه الظاهر من الدليل، وأقره في البحر والنهر، ونازعه في شرح المنية ورجح قدر الواجب لشدة تأكده. (رد المحتار: 1/ 623).
ولا ينبغي للمقتدي أن يفتح على الإمام من ساعته؛ لأنه ربما يتذكر الإنسان من ساعته فتكون قراءته خلفه قراءة من غير حاجة. (المحيط البرهاني: 1/ 389).
قالوا يكره للمقتدي أن يفتح على إمامه من ساعته وكذا يكره للإمام أن يلجئهم إليه بأن يقف ساكتا بعد الحصر أو يكرر الآية بل يركع إذا جاء أوانه أو ينتقل إلى آية أخرى لم يلزم من وصلها ما يفسد الصلاة أو ينتقل إلى سورة أخرى. (البحر الرائق: 2/ 6).
والله أعلم
حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.
16- 12- 1441ھ 7- 8- 2020م الجمعة.
المصدر: آن لائن إسلام.
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.