قاری احمد اللہ بھا گلپوری

رئیس القراء قاری احمد اللہ بھا گلپوری رحمۃ اللہ علیہ

مدتوں رویا کریں گے جام و پيمانہ تجھے

بقلم: مفتی جاوید احمد قاسمی بستوی استاذ حدیث دارالعلوم مدنی دارالتربیت کر مالی روید ر ا سا کن ممبرا ممبئی

آه! رئیس القراء قاری احمد اللہ بھا گلپوری رحمۃ اللہ علیہ نہیں رہے

فن تجوید و قرآت کو فروغ دینے والے، ہزاروں علماء و طلبہ و علوم قرآنی سے سیراب کرنے والے، تقریبا نصف صدی تک علمِ تجوید کی روشنی سے پورے برصغیر کو منور کرنے والے، سید القراء جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل گجرات کے ہر دل عزیز استاد، قاری احمد اللہ بھا گلپوری رحمۃ اللہ علیہ ہزاروں لاکھوں لوگوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر آغوش رحمت الہی میں پہنچ گئے ۔ آپ کے انتقال کی خبر سن کر ہر شخص ہکّا بکّا رہ گیا، مگر انا لله وانا اليہ راجعون پڑھنے كے سوائے كوئى چارہ نہ تھا، مگر:

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی

تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی

  حقیقت یہ ہے حضرت قاری صاحب ایک غیر معمولی اور عبقری شخصیت کے مالک تھے، آپ کی ذات عالی نوع بنوع کے کمالات سے آراستہ و پیراستہ تھی۔ میں نے نظامِ قدرت و حکمتِ الہی پر بار بار  تدبر کیا کہ علوم وفنون کی ترقی ، ترویج و اشاعت کے لیے  اللہ رب العالمین اپنی قدرت و حکمت بالغہ سے رجال کار پیدا فرماتا ہے اور جب کسی شخصیت سے کوئی عظیم علمی سرمایہ وجود میں لانا چاہتا ہے تو مطلوبہ صلاحیت و قابلیت کے ساتھ ساتھ دھن و لگن اور بے پناہ عشق و محبت پیدا کر دیتا ہے، حضرت قاری صاحب کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا کہ تجوید کی کتابوں اور کلام الہی کے ساتھ وارفتگی عشق کی حد تک پہنچی ہوئی تھی:

میرا وجود کسی ایک کی میراث نہیں

         میں مثلِ موج صبا خوشبوؤں کا لشکر ہوں

مؤرخہ 10 فروری 2024 ء مطابق 29 رجب المرجب 1445ھ كو امت مسلمہ نے دبستان علم و حکمت اور چمنستانِ علم تجويد  کے ایسے گنجینہء گراں مایہ کو مٹی میں چھپا دیا جس کے نعم البدل کی تمنا اس قحط الرجال اور فتنے کے دور میں مشکل ہے، اپنی قدیم اور سابقہ روایت کے مطابق اہل گجرات نے حضرت قاری صاحب کی بڑی فراخدلی و حوصلہ مندی کے ساتھ قدردانی کی، خصوصاً جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل روز اول سے اہل علم و ماہرین فن کا بڑا قدردان رہا ہے۔ صدقہ جاریہ کے طور پر حضرت قاری صاحب نے شاگردوں کی اتنی بڑی جماعت اپنے پیچھے چھوڑی ہے کہ پورا بر صغیر عرصہ دراز تک اس سے مستفید ہوتا رہے گا ، لائق و فائق اسا تذہ، جید الاستعداد علماء کی ایک کھیپ آپ نے تیار کر دی ہے، جو حقیقی معنی میں آپ کے علم کے وارث و جانشین اور آپ کے مشن کو اگلی نسلوں تک پہنچانے میں معین و مددگار ہوں گے:

کلیوں کو ميں خون جگر دے کے چلا ہوں

برسوں مجھے گلشن كى  فضا یاد کرے گی

 دیو بند کے مدنی و حسینی خانوادے سے حضرت قاری صاحب کے گہرے روابط تھے۔ خاندان کے ہر فرد کا آپ بڑے عزت و احترام سے نام لیتے تھے اور پوری زندگی اس کو نبھایا۔ پسماندگان اولا دو احفاد میں ، امی جان ، قاری سعد اللہ اور قاری اسعد اللہ صاحبزدگان ما شاء اللہ آپ کے علم کے امین اور وارث ہیں ، مقامی طور پر محمود نگر میں جو علم کی شمع آپ نے جلائی تھی اس کو آپ کے چھوٹے صاحبزادے مولانا سعد اللہ صاحب اور آپ کے خادم خاص قاری اسحاق بھڑ کو دروی اور ان کی اہلیہ پوری جانفشانی نے سے اسے روشن کئے ہوئے ہیں اور اس کی روشنی دور دور تک پھیل رہی ہے۔ ما شاء الله لاقوة الا بالله تقبل اللہ سعيهم

بہار اب جو گلشن ميں آئى ہوئى ہے

يہ سب پود انہيں كى لگائى ہوئى ہے

 خواتین میں تجوید کا علم حد درجہ معمولی تھا قاری صاحب اور ان کے شاگردوں نے اس سمت میں پہل کر کے اس کو زندہ کیا ۔ اور خاطر خواہ فائز المرامى حاصل ہوئی۔ تمام علماء کا اتفاق ہے قرآن کی سات قرآتیں متواتر ہیں، ہر قرآت میں قرآن پڑھنا پڑھانا سننا سنانا جائز ہے۔ قرآن کی ساتوں قراءتوں کو عملی طور پر فروغ دینے ، زندہ رکھنے اور عوام میں رائج کرنے میں  قاری صاحب مرحوم نے اہم اول ادا کیا،  ان كى اس خدمت كے ليے ان كو رہتى دنيا تك ياد ركھا جائے گا۔

حضرت مہتم مولانا اجود صاحب دامت برکاتہم نے ، قاری صاحب کے انتقال پر گہرے رنج و افسوس کا اظہار کیا، اور امت کے لیے نا قابل تلافی خسارہ قرارد یا حقیقی معنی میں آپ موت العالم موت العالم کے صحیح مصداق تھے۔

وما كَانَ قَيْسٌ هُلْكُهُ هُلْكُ وَاحِدٍ

 وَلَكِنَّهُ بُنْيَانُ قَوْمٍ تَهَدَّمَا

قارى صاحب  کئی کتابوں کے مؤلف ہیں خصوصاً  آپ کی عمدہ تالیف مرقات التجوید ہے۔ جو فن تجوید ميں عظیم شاہ کار كا درجہ ركھتى ہے،  اور بہت سے مدارس عربیہ میں داخل درس ہے، قرآنی خدمات کے حوالے سے آپ نے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی ، ہزاروں طلبہ وطالبات کو تجوید و قرآت کا درس دیا تاریخ میں آپ کی خدمات جلیلہ کو سنہرے حروف سے لکھا جائے گا ، آپ کی پوری زندگی جفا کشی استقامت جہد مسلسل افراد سازی سے عبارت ہے۔ ذکر الہی میں ہر وقت رطب اللسان رہتے تھے اور اپنے مقصد حیات اور منزل مقصود کے حصول میں رواں دواں متحرک تھے، اور علماء کی خاص بیماری ، حسد، جلن اور غیبت سے حد درجہ اجتناب کرتے تھے۔

نہ غرض كسى سے نہ واسطہ مجھے كام اپنے ہى كام سے

ترے ذكر سے ترى فكر سے ترى ياد سے ترے نام

سالانہ امتحان کی گہما گہمی كے باوجود  علماء طلباء، عوام اور خواص کا ہجوم آپ کے دیدار ، اور نماز جنازہ میں شرکت کے لیے ٹوٹ پڑا، یہ آپ کے عنداللہ مقبول محبوب ہونے کی واضح دلیل ہے، آپ کے فراق میں نہ جانے کتنی آنکھیں پرنم ہوگئیں، اور نہ جانے كتنى بے اختيار چھلک پڑيں، اور نہ جانے  کتنے لوگوں  پر غموں واندوہ  كى شدت نے سناٹا طاری کر دیا،   ہماری دعا ہے خداوند قدوس حضرت قاری صاحب مرحوم کو اپنی شایان شان اجرِ جزیل عطا فرمائے، اعلی علیین میں مقام رفیع عطا کرے، آپ کے قائم کردہ مشن کو جاری و ساری رکھے، اور پسماندگان کو صبر جمیل دے ۔ آمین ثم آمین ۔

آسماں تيرى لحد پر شبنم افشانى كرے

سبزہ نورستہ اس گھر كى نگہبانى كرے

قارئین کرام سے خصوصی ایصال ثواب ورفع درجات کیلئے دعا کی درخواست ہے۔

راقم الحروف ننگ اسلاف ؛ خاکپائے بزرگاں: ( مفتی ) جاوید احمد قاسمی بستوی استاذ حدیث دارالعلوم مدنی دارالتربیت کر مالی روید ر ا سا کن ممبرا ممبئی

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply