sachchi kahani

Sachchi Kahani, ایمان کا سودا, حضرت مولانا مفتى يوسف صاحب فرنگى محلى

ایمان کا سودا

از: حضرت مولانا عبدالماجد دریابادیؒ۔

مرتب: منتشا عارف غازى، على گڑھ۔

زير نظر مضمون مولانا عبد الماجد دريابادى كا ہے، جو حضرت مولانا مفتى يوسف صاحب فرنگى محلى رحمہ الله كے تقوى وپرہيز گارى اور استقامت  سے متعلق ايك واقعہ پر مشتمل ہے، اصل واقعہ سے پہلےہم قارئين كے سامنے حضرت مفتى صاحب كے مختصرا حالات قلم بند كر رہے ہيں تاكہ مفتى صاحب كے حالات كے  بارے ميں ايك گونہ بصيرت پيدا ہو جائے۔

  حضرت مفتی محمد یوسف فرنگی محلی رحمۃ اللّٰه علیہ

نام ونسب: محمد یوسف، لقب: فرنگی محلی، سہالوی، سلسلہ نسب اسطرح ہے: مفتی محمد یوسف، بن مفتی محمد اصغر، بن مفتی ابی الرحیم، بن مولانا محمد یعقوب، بن مولانا عبد العزیز، بن مولانا سعید، بن مولانا قطب الدین الشہید السہالوی۔ آپ علیہ الرحمہ کے آباؤ اجداد اپنے وقت کے جید علماء کرام اور اجلہ مشائخ تھے۔ (رحمۃ اللہ علیہم اجمعین)

تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1223ھ/بمطابق 1808ء کو ہوئی۔

تحصیلِ علم: ابتدائی تعلیم سے لیکر آخر تک اکثر کتب اپنے والدِ گرامی مفتی محمد اصغر علیہ الرحمہ سے پڑھیں۔ کچھ کتب مولانا مفتی محمد ظہور اللہ، مولانا احمد انوار الحق، اور اپنے بھائی مولانا نوراللہ سے پڑھیں، اور اس وقت کے کاملین میں شمار ہوئے۔

بیعت و خلافت: مولانا احمد انوارالحق رحمہ اللّٰه کے ہاتھ پر بیعت ہوئے۔

سیرت و خصائص: مولانا فقیر محمد جہلمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: اپنے زمانہ کے جمال و کمال میں یوسف، اور جامع فروع واصول اور حاوی معقول و منقول، متعبد، متہجد، صاحب ریاضت و مجاہدت و مکاشفہ تھے۔ والد کی وفات کے بعد لکھنؤ کی عدالت و افتاء کا کام آپ کے سپرد ہوا جس کو آپ نے بڑی دیانت کے ساتھ زمانۂ غدر ہند تک سر انجام دیا ۔ علوم و فنون میں امامت کا منصب رکھتے تھے، اکثر علمائے فرنگی محل کا سلسلۂ تلمذ آپ سے وابستہ ہے۔ بعدہ مدرسہ الحاج امام بخش مرحوم جونپور میں مدرس ہوئے۔ دن رات طلباء کی تعلیم میں مشغول رہتے تھے ہیں۔تدریس کے ساتھ تصنیف بھی فرماتے تھے۔ بہت سی کتب پر حواشی تحریر فرمائے۔آپ کی تصنیفات سے تعلیقات صحیح بخاری، تعلیقات تفسیر بیضاوی، حواشی شرح مسلم ملا حسن، حواشی شرح سلم قاضی مبارک، حواشی شرح شمس بازغہ، تکملہ حواشی شمس بازغہ ملا حسن، حواشی شرح وقایہ نا مکمل وغیرہ مشہور و معروف ہیں۔

وصال: آپ کا وصال 19/ذیقعد 1286ھ، بمطابق فروری 1870ء کو مدینۃ المنورہ میں ہوا، اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے مزار کے قریب مدفون ہوئے۔

اصل واقعہ بقلم مولانا عبد الماجد دريابادى

ذکر قرون اولی کا نہیں، ذکر قرون اخری کا نہیں، زمانہ، ہجرت کی پہلی صدی کا نہیں، تیرہویں صدی کا ہے اور مقام حجاز کی ارض مقدس نہیں، لکھنؤ، بدعت زدہ لکھنؤ کی سرزمین ہے۔ دینی وروحانی ہی نہیں، دنیوی اور مادّی اقتدار بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے رخصت ہوچکا ہے،  اور وہ جو اودھ کے بڑے نام ”اسلامی“ سلطنت گزشتہ عظمت واقبال کی نوحہ خواں، بچی کھچی باقی رہ گئى تھی وہ بھی ”صاحب“ کے قبضہ میں جاچکی ہے۔ ع

اک شمع رہ گئى تھی سو وہ بھی خموش ہے!

زمانہ ١٨٦٢ء ٕ کا ہے، یعنی تاریخ اودھ کے مشہور ہنگامہ ١٨٥٧ء ٕ کو فرو ہوئے ابھی پانچ چھ سال ہی ہوئے ہیں۔ ہر دل میں اقبال فرنگ کا نقش بیٹھا ہوا، ہر زبان سرکار عظمت دار کا کلمہ پڑھتی ہوئى، فرنگی محل کے ایک گوشہ میں ایک صاحب بیٹھے نظر آرہے ہیں،  نام محمد یوسف، کسی زمانہ میں عالم صاحب افتاء تھے۔

  ہنگامہ (١٨٥٧ ٕ) میں گھر بار کچھ اس طرح لٹا کہ مفتی صاحب زرومال سے ہر طرح فارغ البال ہوگئے۔ دل میں داعیہ حج کا تھا، وقت وہ آ گیا کہ نہ حج فرض رہا نہ زکوة، اب صبرو تسلیم کی منزلیں ہیں اور یہ خانہ نشین، گوشہ گزیں مولانا!!!

ایک روز کیا ہوتا ہے کہ ایک صاحب بہادر حکومت انگریزی کے بہت بڑے بااختیار عہدہ دار صوبہ دار فنانشل جو ڈیشنل کمشنر (اس زمانہ میں اودھ کے چیف کمشنر کے بعد سب سے بڑا عہدہ دار یہی تھا)  پتہ پوچھتے فرنگی محل پہونچتے ہیں اور بعد اجازت مولانا کی خدمت میں پہونچتے ہیں۔ بعد اجازت کا لفظ یاد رکھئے۔۔۔۔ پرانے وقت کا یہ مولوی ملاّ ملازمت کی تلاش میں نہیں نکلتا، عہدہ و منصب خودتلاش کرتا ہوا وہاں پہونچتا ہے اور پھٹے حال مولانا جب تک اجازت نہیں دیتے، انگریز بہادر کی ہمت سامنے آنے کی نہیں ہوتی۔۔ روایت ساری کی ساری ایک چشم دیداری، فرنگی محل ہی کے ایک نوجوان کی دیکھی ہوئى اور بڑھاپے میں بیان کی ہوئى، اور راوی بھی کون ؟؟ کوئى گمنام و مجہول نہیں، مولوی شرافت اللہ مرحوم پنشنر ڈپٹی کلکٹر، ابھی تو انکے دیکھنے والے اور سینکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں، انہوں نے اپنے صاحبزادہ مفتی عنایت اللہ مرحوم (صدر مدرس عالیہ نظامیہ)  سے بیان کیا، اور انہوں نے اپنے تذکرہ علمائے فرنگی محل (ص٢٠٨۔٢٠٩) میں اسے درج کر دیا، انکی وفات بھی تو ابھی کل کی بات ہے۔۔

سامنا صاحب کا ہوا، وقت وہ تھا کہ انگریز کا بچہ بچہ حاکم وقت اور پھر انگریز تو واقعی صوبہ کا تقریباسب سے بڑا افسر تھا۔ شکستہ حال مصیبت زدہ مولوی بوسیدہ چٹائى پر بیٹھا کچھ لکھنے میں مشغول تھا۔ کہاں کا ڈرائنگ روم اور کہاں کا کوچ اور صوفے، حاکم وقت حاکم صوبہ کو اجازت ایک ٹوٹے ہوئے مونڈھے پر بیٹھنے کی ملی، آنے والے نے کچھ سوالات كئے ، شریعت کے مطابق معاملات قانونی (نکاح طلاق) سے متعلق جواب مفصل ملے۔ اب سوال ہوا کہ جناب کی بسر اوقات کی کیا صورت ہے؟ جواب ملا کہ اسباب ظاہری تو کچھ نہیں، بسر عسرت سے ہوتی ہے۔ فاقہ زدہ مولوی نوکری پر نہیں گر رہا ہے، سندیں اور درخواستیں پیش نہیں کر رہا ہے، سفارش کے پشتارے پیٹھ پر نہیں اٹھائے ہوئے ہیں، نوکری خوددار مولوی پر گر رہی ہے۔ سوال جواب آگے سنئے۔۔۔۔

آپکو سرکاری ملازمت دلا دوں گا، لیکن میں نے مدتوں فتوے احکام شریعت کے دئيے ہیں، خدا سے شرم آتی ہے کہ اب احکام خلاف شرع صادر کروں، انگریز کی ملازمت میں یہ ہونا لازمی ہے۔ انگریز افسر نوکری دینے اور عہدے بخشنے ہی آیا تھا۔ رخصت ہوا چلتے چلاتے یہ لفظ کہتا ہوا۔۔۔ جی نہیں آپکے لئے ایسا انتظام کر دیا جائے گا کہ نہ آپکو کو احکام صادر کرنا پڑے اور نہ کوئى امر خلاف شریعت آپ سے متعلق کیا جائے۔

 دوسری صبح کا سورج طلوع ہوا تو انگریز افسر پھر موجود ہوا اور آج مسلمان منشی بھی ہمراہ مفتی فرنگی محل کے لئے عہدہ رجسٹراری کا تجویز ہوا، اس رجسٹراری کو آج کی رجسٹراری پر قیاس نہ کیجئے گا۔ شروع انگریزی دور میں ایک معزز ترین عہدہ تھا، کہیں یہ خدمت کلکٹر سے لی جاتی تھی، اور کہیں ڈسٹرکٹ جج سے، مشاہرہ کہیں چھ سات سو ماہوار سے بھی اوپر تھا، رقم کا خیال فرمایا آپنے؟؟ دس بیس پچاس نہیں کہ وہ بھی ایک ملّائے مسجد کے لئے بہت تھے، چھ سات سو اور وہ بھی اس زمانے کے، کہ آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جائے۔۔۔ اور یہ تو آگ لانے کے لئے اپنی جگہ سے ہلے تک نہ تھے۔ جاہ و دولت کی پیمبری خود ہی چل کر انکے پاس آ گئى تھی۔

 ملّاۓ مسجد اب بھی فرط مسرت سے بےخود نہیں جاتا، صاحب کے قدموں سے لپٹ نہیں جاتا،مدح و توصیف کے قصیدے نظر گزارنے کی فکر نہیں کرتا۔ سکون و وقار سے پوچھتا ہے کہ یہ رجسٹری کیا ہے؟ صاحب سمجھاتے اور کہتے ہیں کہ آپکو زحمت نہ ہوگی، نہ کہیں آنا جانا نہ کاغذات کا لکھنا پڑھنا، آپکی کچہری آپکے مکان میں رہےگی، ایک کمرہ ان منشی کو دیجئے یہ سارا کام کرتے رہیں گے۔ چار بجے کاغذات آپکے سامنے پیش کردیا کریں گے، آپکا کام صرف دستخط کرنا ہوگا۔ ایسی بےمشقت نوکری آج تک کسی کو کیوں ملی ہوگی؟؟

  فرنگی محل کی ملازمت کا پہلا دن شروع ہوا منشی نے دن میں سہ پہر کو کاغذات دستخط کے لئےمفتی صاحب کے سامنے پیش كئے، آپنے دستاویز کو پڑھنا چاہا منشی نے کہا اس زحمت کی کیا ضرورت ہے کاغذات میرے دیکھے ہوئے اور جانچے ہوئے ہیں۔آپ صرف دستخط فرما دیجئے۔ ارشاد ہوا یہ کیوں کر ممکن ہے؟ دستخط بمنزلہ میری گواہی کے ہیں بغیر پڑھے گواہی کیسے دے دوں؟

رجسٹر کھلا اور آپنے کاغذات پڑھنا شروع كئے، اتفاق دیکھئے کہ پہلی ہی دستاویز سودی قرضہ سے متعلق تھی۔ آگے کیا گزری اسے خود راوی کی زبان سنئے:

 چہرہ مبارک غصہ سے سرخ ہوگیا، رجسٹر اٹھا کر دور پھینک دیا اور منشی سے کہا کہ ابھی نکل جاؤ، فوراً نکال دیا، منشی غریب روتا دھوتا فریاد کے لئے صاحب کے پاس پہنچا، دوسرے دن صاحب خودوارد ہوئے منشی کو ساتھ لئے ہوئے۔ روایت کے الفاظ خود راوی ہی سے سنئے:

  آپنے صورت دیکھتے ہی اس کو ڈانٹنا شروع کیا اور کہا کافر سے سوا اس کے اور کیا امید ہوسکتی ہے اور کہا، میری غلطی تھی جو کافر کے کہنے میں آگیا اور زاروقطار رونا شروع کیا۔ پھر فرمایا کہ یہ منشی سودی دستاویز پر میرے دستخط کرا رہا تھا جو گویا میری گواہی ہے۔ حدیث شریف میں سود کے متعلق لکھنے والے اور گواہ سب پر لعنت آئى  ہے۔ ابھی تھوڑے زمانے پر تو میرے دستخط خدا اور رسول کے احکام پر ہوتے تھے اب میرے دستخط سودی دستاویزات پر ہوں گے۔

 انگریز حاکم نے ایک بار پھر معافی مانگی، تلافی کردینا چاہی اور کہا کہ بیشک مجھ سے غلطی ہوئى۔ اب میں ایسی صورت رکھوں گا کہ یہ بھی زحمت نہ رہے اور کسی امر خلاف شریعت کی صورت پیش نہ آئے، اور عہدہ برقرار رہنے پر بےحد اصرار کیا، لیکن جو زبان ایک بار انکار پر کھل چکی تھی، پھر کسی ترغیب اورکسی ترکیب سے نہ پلٹی، اور آپ عمر بھر فرنگیت کے ساۓ سے بچے رہے۔۔۔

عمر کا بڑا حصہ سلم اور شرح سلم، ملا حسن، شمس بازغہ،معقولات کی حاشیہ نویسی میں گزرا، لیکن شاید اسی تقوے استقامت ایمانی کی برکت تھی کہ چند سال بعد جب مدرسہ جونپور سے تعلق کے بعد نوبت حج کے جانے کی آئى تو ماہ رمضان المبارک مکہ معظمہ  میں گزار کر عین قریب حج وفات مدینہ منوّرہ میں پائى، اور جنت البقیع میں صد ہزار پاکوں اور پاکبازوں کے جوار میں جگہ پائى، اور فرنگی محل کے معروف و مشہور عالم عبدالحئى نے یہ شہادت اپنی ناتمام قاموس الفقہ میں دی کہ:

 کان جامعا للفروع والأصول، حاويا للمعقول والمنقول، صاحب الرياضات والمجاهدات والبرکات والفيوضات، حسن الصورة كاسمه لطيف السيرة في خلقه.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply