hamare masayel

مكان كےكرايہ سے حاصل شده آمدنى پر زكوة ہے

مكان كےكرايہ سے حاصل شده آمدنى پر زكوة ہے

سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام زید کے پاس ایک مکان ہے جو کہ اس کی فیملی کے رہنے کیلئے کافی ہے اب زید نے دوسرا مکان بھی لیا ہے جسے کرایہ پر اٹھا رکھا ہے نیت اس مکان سے کمانے کی ہے اس صورت میں مکان کی زکوة دینا ہوگی ہر سال؟ یا آمدنی پر زکوة دینا ہوگی؟

المستفتی:  ابو عبیدہ اعظمی ممبر پاسبان علم وادب۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

 ضرورت سے زائد مکان کی قیمت پر زکوٰة واجب نہیں ہے؛ بلکہ اس سے حاصل شدہ کرایہ کی آمدنی اگر نصاب کے برابر ہو جائے تو سال گذرنے کے بعد اس پر زکوٰة واجب ہوگی۔ (فتاویٰ دارالعلوم 6/133 -6/57، امداد الفتاویٰ 2/17)

الدلائل

لا زکاة في ثیاب البدن واثاث المنزل ودور السکنی. (الدر المختار علی هامش رد المحتار 3/182زکریا)

ولو اشتری قدورا من صفر یمسکہا ویؤاجرہا لا تجب فیها الزکاة کما لا تجب في بیوت الغلة. (الفتاوی الخانیة 1/251، الفتاوی التاتارخانیة 1/169 رقم:  4017 زکریا)

ولو أجر عبدہ أو دارہ بنصاب إن لم یکونا للتجارة لا تجب ما لم یحل الحول بعد القبض الخ . (البحر الرائق، کتاب الزکاة 2/208 مطبوعہ ماجدیہ کوئٹہ)

وشرطہ، أي شرط افتراض أدائہا حولان الحول وہو في ملکه. (درمختار مع الشامي 3/186).

 والله أعلم

تاريخ الرقم: 8- 6- 1441ھ 3- 2- 2020م الاثنین.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply