مولانا ابوالکلام

مولانا ابوالکلام آزاد پر ايك جامع اور مختصر تقریر

مولانا ابوالکلام آزاد ايك بے مثال اديب، خطيب اور مفسر

نحمده ونصلي على رسوله الكريم أما بعد:

السلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ:

محترمہ پرنسپل صاحبہ،عزیز اساتذہ اور پیارےساتھیو!میری تقریرکاعنوان ہے:مولانا ابو الکلام آزاد ايك بے مثال اديب، خطيب اور مفسر

هزاروں سال نرگس اپنى بےنورى پر روتى هے

بڑى مشكل سے هوتا هے چمن مىں ديده ور پيدا

پیارے ساتھیو!مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں،ہر پڑھا لكھا آدمى انہىں بخوبى جانتا ہے، وه ہندوستانی تاریخ کی ايك لازوال ہستی ہیں، ان كى پوری زندگی  عزمِ مصمم، جہد ِمسلسل، عمل ِ پیہم  سے عبارت  ہے، جو ہند میں سرمایہ ٔ ملت کے نگہبان تھے، اور اپنی تمام تر خداداد صلاحیت وقابلیت،فہم وفراست،فکر و بصیرت کو ہندوستان کی تعمیر و ترقی اور مسلمانوں کے ساتھ ہندوستانیوں کی فلاح وبہبودی میں خرچ كر ديا، وه جنگ ِ آزادی کے میر ِ کارواں اور ہندوستان کے معمار ِ اعظم تھے۔

ايسا  كہاں سےلاؤں كہ تجھ سا  كہىں جسے

عالم  مىں  تجھ  سا  لاكھ  سہى  تو  مگر كہاں

پیارے ساتھیو! مولانا ابو الکلام آزادؒ کی شخصیت پر بہت لکھا گیا اور مختلف زایوں سے آپ کی گوناں گوں متنو ع خدمات پر ممتاز قلم کاروں ،ادیبوں اور مصنفوں نے خامہ فرسائی کر كے انہىں خراجِ عقىدت پيش كيا ہے ۔آئیے اس مختصرتقريرمیں اس عظیم الشان شخصیت کی زندگی كے پهلوؤں  كا استقصاء كرنے لمبا  وقت دركار ہے،  اس ليے  ہم  كچھ اہم اور خاص پہلو  پرروشنى ڈالنے كى كوشش كريں گے ۔

ع: سفينہ چاہئے اس بحرِ بيكراں كے ليے

پیارے ساتھیو! مولانا آزاد ؒ کی ولادت حج كے مبارك مہىنے ذی الحجہ1305 مطابق 11 نومبر 1888ء کو  مرکز اسلام مکہ معظمہ میں ہوئی ، آپ كے والد ِ ماجد مولانا خیر الدین احمد، غدر كے سال 1857ء  مىں  برطانوی جبر وتشدد سے تنگ آکر  ہندوستان سے ہجرت كركےمکہ معظمہ تشریف لے گئے ،اور مدینہ منورہ کے مفتی اکبر شیخ محمد طاہر کی بھانجی سے ان کی شادی ہوئی ،انہی كے بطن سے مولانا آزاد ؒ دنیا ئے رنگ وبو میں تشریف لائے ۔آپ کا ذاتی نام’’ محی الدین احمد‘‘ اور تاریخی نام’’فیروز بخت‘‘ رکھا گیا،لیکن آپ کی کنیت’’ ابو الکلام ‘‘اور آپ کا لقب ’’آزاد‘‘ نے آپ کے اصلی نام پر کچھ ایسا پردہ ڈالا  كہ لوگوں كو صرف كا لقب ياد ره گىا، مولانا آزاد نے ابتدائی دس مکہ معظمہ میں والد ماجد ہی کی نگرانی میں تعلیم حاصل کی ،اور بہت کم عمری میں دینی علوم سے آراستہ ہوگئے تقریبا13 سال کی عمر میں تحصیل علوم سے فراغت حاصل کی ۔

پیارے ساتھیو! مولانا آزاد بچپن ہی کتب بینی کے شوقین تھے ،مطالعہ ان کی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ تھا ، اور پڑھنا لكھنا ان ان كا اوڑھنا بچھونا تھ، ابتدائی عمر سے کتابوں کے شوقين اور مطالعہ کے عادی بن گئے تھے ،وہ خود اپنا لڑکپن کا ایک واقعہ بیان كرتے  ہیں: لوگ لڑکپن کا زمانہ کھیل تماشا، سير سپاٹا میں گزار کرتے ہیں ،مگر كوئى تیرہ برس کی عمر میں میرا یہ حال تھا کہ کتا ب لے کر کسی گوشہ میں جا بیٹھتا اور کوشش کرتا کہ لوگو ں کی نظرىں مجھ پر نہ پڑے، انہى كا قول ہے كہ: میں آپ کو بتلاؤں میرے تخیل میں عیش ِ زندگی کا سب سے بہترین تصور کیا ہوسکتا ہے؟جاڑے کا موسم ہو اور جاڑا بھی قریب قریب درجہ انجماد کا ،رات کا وقت ہو ،آتشدان سے اونچے اونچے شعلے بھڑک رہے ہوں اور میں کمرے کی ساری مسندیں چھوڑ کر اس کے قریب بیٹھا ہوں اور پڑھنے یا لکھنے میں مشغول ہوں۔

پیارے ساتھیو! مولانا آزادؒ نے چودہ یا پندرہ سال کی عمر میں1 190ء ؁ میں ’’المصباح‘‘ جاری کیا ،آزادؒ نے اس کم سنی میں لوگوں کے ذہن ودل پر اپنی ادبیت کارعب مسلط کردیا۔چار ماہ کے بعد المصباح بند ہوگیا ،اس کے بعد آپ نے بہت سارے اخبارات کی ادارت سنبھالی اور بالاخر شہرہ آفاق ہفتہ واری اسلامی جریدہ الہلال1912ا؁ء میں جاری کیا جس نے ادب و صحافت کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا ،اورلوگ دیوانہ وار اس کی تحریروں کے عاشق بن گئے ،اور یہاں تک کے لوگ الہلال کے نسخوں کو نہایت حفاظت کے ساتھ رکھتے اور ایک دوسرے کو مطالعہ اور جذبات کو مہمیز کرنے کے لئے دیتے۔تقریبا مولانا آزاد ؒ نے 28 سال ادب و صحافت کی وادیوں میں مشغول رہے ،اور اپنے قلم معجز رقم سے اسلام کی بے مثال خدمات انجام دیں ۔

دوستو! مولانا آزاد کی شخصیت کا ایک بنیادی پہلو آپ کی سحر انگیز ادبیت، اور اچھوتے انداز كى نثر نگارى ہے ،آپ تحرىروں مىں بلا كى چاشنى ، عجيب طرح كى جاذبيت،   اسلوبِ بيان كى تمام تر خوبيوں سے لبريز، اور حشو وزوائد سے پاك صاف ہوتى تھى، جس نے ہر ایک کو آپ كا گرويده بنادیا ،آپ کے دوست ودشمن ،موافقین اور مخالفین سب كے سب آپ کی تحریروں کے فریفتہ رہے ،ہر کسی نے آپ وجد آفریں نگارشات سے استفادہ کیا،لوگ نظم میں انقلاب برپاکرتے ہیں لیکن آزادؒ کے قلم نے ہندوستان کی تاریخ میں بڑا نقلاب پیداکیا اور ایک نئے اور پرکشش اسلوب سے اردو ادب کو روشناس کروایا، صا حب طرز ادیب مولانا عبد الماجد دریابادی ؒ مولانا آزاد کی ادبی عظمت اور ان کی نگارشات کی قدر و قیمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :خدا نخواستہ اگر ادبیا ت کا سارا ذخیرہ جل کر خاکستر ہو جائے اور تنہا ابوالکلام کی تخلیقات باقی رہ جائے تو انشاء اللہ ادب اردو کی عظمت وجلالت کا اندازہ لگانے کے لئے وہ بس کافی ہوں گی،  اور مولانا حسرت موہانی جیسے نامور  شاعر كو مجبور ہوكے  کہنا پڑا كہ:

جب سے دیکھی ابو لکلام کی نثر

نظم ِ حسرت میں کچھ مزا نہ رہا

دوستو! مولاناآزاد ؒ کو اللہ تعالی نے نثر نگارى كے ساتھ ساتھ تقرير و خطابت میں غیر معمولی صلاحیتوںسےا تھا، اسلوب وانداز ، ادبيت و جاذبيت ، مضامين كى دلكشى اور سحر انگيزى مىں آپ كى تقريرں آپ كى تحريروں سے كسى درجہ كم نہ تھىں، جيسے اردوئے معلى سے دھلى دھلائى آپ كى تحرير ہوتى تھى ويسے آپ كى تقرير بھى ، ايسي يكسانيت كسى مىں خال خال ہى ديكھنے كو ملتى ہے،آپ پندرہ برس کی عمر میں اچھے خاصے خطیب بن گئے تھے ،ان کی سب سے پہلی تقریر 1902ء ایک جلسہ میں ہوئی ،پھر1904؁ء انجمن حمایت اسلام لاہو ر کے سالانہ جلسہ میں تقریر فرمائی ۔ آپ کے شاہکار خطبات مطبوعہ  كى شکل میں موجود ہیں ،جو قوم وملت كے ليے مشعلِ راه ہىں ۔

پيارے دوستو! مولانا آزاد ؒ کے قلم  گہر بار سے جہاں اردو زبان وادب كى بہترین اور شاہکار تحریریں نکلیں وہیں آپ نے دینی موضوعات اور قرآن وحدیث کے عنوانات پر بیش بہاسرمایہ چھوڑا ہے ۔ ان کی مایہ ناز تفسیر ترجمان القرآن ہے، اس میں ترجمہ و روایت کی پوری احتیاط و دیانت ، اور چھان پھٹك کے ساتھ اپنے جادونگار قلم سے جس طرح جان ڈال دی ہے ان کی ذہنی کشمکش ،نازک امتحان،اسلام سے سچی وفاداری اور عشق رسول کی جس طرح تصویر کھینچی ہے ،ا ن کی دھڑکنوں کو جس طرح الفاظ میں منتقل کیا ہے ،جس برجستگی وبے ساختگی کے ساتھ اردو اور فارس کے آبدار شعروں کو جابجا نگینہ کی طرؤح جڑاہے ،اس نے مضمون کو صرف اردو ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے کلاسیکی ادب میں شامل ہونے کا مستحق بنادیا ہے بہرحال مولانا آزاد ؒ نے اپنے قلم کو خدا کی عظیم کتاب اور صحیفہ ہدایت کی خدمت میں استعمال کرکے اس کی عظمت کو زندہ و جاوید کردیا۔

ىہ حوصلہ  بلند  ملا  جس  كو   مل   گيا

ہر مدعى كے  واسطے  دار  ورسن   كہاں

پيارے دوستو!  مولانا آزاد ؒ تقسیم وطن کے قائل نہیں تھے ،متحدہ ہندوستان کے سرخیل اور شيدائى تھے ، اس کے لئے انہوں نے اس كى يكتائيت، اور قومى يك جہتى كے ليے بڑی قربانیاں دیں ،اور ہميشہ اس كے ليے جدوجہد کرتے رہے ، ہمارا ہرا بھرا چمنستان  جس کو مسلمانوں نے خون ِ جگر دے کر سنواراتھا اس کی عظمت و تحفظ ، اور اس كى گنگا جمنى تہذيب وثقافت کے لئے وہ بڑے ہی فکر مند رہاکرتے ،اپنی اخری سانس تک ہندوستان کی ترقی کے خوابو ں کو آنکھوں میں سجاکر جیتے رہے ،مولانا آزاد ؒ کے یاد گار خطبات میں ایک خطبہ اور تقریر وہ بھی ہے جو انہوں نے 1947 مىں  ہندوستان سےہجرت  کرنے والے مسلمانوں کے سامنے کی تھى، جس سوز وغم ڈوب كر انہوںنے خطاب کیا تھا اس کی وجہ سے لوگوں کے اپنا  ارادۂ ہجرت ترك كرنا پڑا،اس کاایک مختصر اقتباس ملاحظہ فرمائیں:یہ فرار کی زندگی جو تم نے ہجرت کے مقدس نام پر اختیار کی ہے اس پر غور کرو ، اپنے دلوں کو مضبوط بناؤ، اپنے دماغوں کو سوچنے کی عادت ڈالواور دیکھو کہ تمہارے یہ فیصلے کتنے عاجلانہ ہیں ،آخر کہاں جارہے ہو اور کیوں جارہے ہو؟یہ دیکھو مسجد کے بلند مینار تم سے اچک کر سوال کرتے ہیں تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گم کردیا ہے؟ابھی کل کی بات ہے کہ جمنا کے کنارے تمہارے قافلوں نے وضو کیا تھا ،اور آج تم ہو کہ تمہیں یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے ،حال آنکہ دہلی تمہارے خون سے سینچی ہوئی ہے ۔

 پیارے ساتھیو! ہندوستان کی آزادی کے بعد مولانا ابولکلام آزاد پہلے وزیر تعلیم بنے ،اگرچہ عہدہ یا منصب آزادؒ کے لئے کوئی فخر و عظمت كى چيز  نہیں تھى ،جس نے خود اپنے خون جگر سے گلشن کی  آبيارى اور حفاظت کی ہو اسے ان معمولی عہدوںکی وجہ سے رتبہ نہیں ملتا ۔لیکن بہرحال ان کی گراں قدر خدمات اور آزادی وطن کى پیہم سعی کے پيشِ نظر وہ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم بنائے گئے ،لیکن اس مرد ِ قلندر کی سادگی اور خداترسی اور عوام كے ساتھ ہمدردى  میں ذره برابر کمی نہیں آئی ،اور وہ گوشہ نشین اور خلوت گزین اسی بے نفسی اور ٹھاٹ و باٹ سے کوسوں دور رہ کر خدمات انجام دیتا رہا۔

نہ غرض كسى سے نہ واسطہ مجھے كام  اپنے ہى كام  سے

ترے ذكر سے، ترى فكر سے، ترى ياد سے ترے نام سے

آج ہندوستان میں تعلیمی میدان میں جو کچھ سبقت اور کوششیں نظر آرہی ہیں بلاشبہ اس میں مولانا آزاد ؒ کاناقابل ِ فراموش حصہ شامل ہے ،آزادؒ نے ہندستانیو ں کو زیورِتعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے ہمہ جہت کوششیں کیں اور بہت سی چیزوں کا شروع کیا۔ بحیثیت ِ وزیر تعلیم مولانا آزادؒنے دورِ اول ہی سے بہت سی اصلاحات فرمائی اورمختلف راہوں کو ہموار کیا۔ہندوستان کبھی ان کی اس میدان کی عظیم خدمات کو بھلا نہیں سکتا ۔

پىارے دوستو! ايك زمانے تك اپنى ضو پاش كرنوں سے  دنيا كو روشن كرنے والا ىہ آفتاب بالآخر 22 فروری 1958ء  2 شعبان1377ھ)  كو غروب ہو گيا۔

آسماں تيري لحد پہ شبنم افشانى كرے

سبزۂ نورستہ ، اس گھر كى نگهبانى كرے

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply