Asad Madni

امیر الہند فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی

عالم اسلام کا ایک بے باک ملی جرنیل

(امیر الہند فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ اپنے اہداف کے حوالے سے)

از:۔ حضرت مولانا  قیام الدین القاسمی مد ظلہ، جنرل سکریٹری جمعیت علماء ضلع  بستی اتر پردیش انڈیا

  (خادم التدریس مدرسہ عربیہ اشرف العلوم ہٹوا بازار  ضلع بستی اتر پردیش انڈیا)

 

ابتدائی نشو ونما

سنت الٰہی ہے کہ جس صدی جس جگہ جہاں جیسی ضرورت پڑی اللہ رب العزت وہاں پر انبیاء کرام مجد دین اور مصلحین عظام کو پیدا فرمایا چنانچہ اُن راست باز بندوں نے اپنی دعوت وعزیمت کے ذریعہ بر وقت بڑھتی ہوئی ہر طرح کی کرپشن کے خاتمہ کے لئے ہر چیلنجز کو قبول کیا ایمان اور انسانیت کی بنیاد پر وہ شاندار خدمات انجام دیں جو تاریخ کے صفحات پر ثبت ہیں اور آج بھی بحمد اللہ علماء حق کے ذریعہ امت کے حق میں ملی معاشرتی اور عالمی خدمات کا سلسلہ جاری ہے انھیں علماء ربانیین میں سے سر زمین ہند سے ابھر نیوالی انقلاب انگیز عظیم متحرک شخصیت امیر الہند فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنیؒ سابق صدر جمعیۃ علماء ہند کی ہے جن کی سن پیدائش ۲۷؍ اپریل ۱۹۲۸ء ؁ ہے ابتدائی تعلیم وتربیت کے حوالہ سے خانگی نگہداشت میں آپ کی نشو ونما ہوئی فقط نو سال کی عمر میں ماں کی ممتا سے محرومی کے باوجود آپ کا ذہنی، تعلیمی اور تربیتی کیرئیر متاثر نہیں ہوا بلکہ شفقت پدری اور رغبت علمی کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم دارالعلوم دیوبند کے روشن ضمیر شب بیدار اساتذۂ کرام کے آغوش میں ہوئی، سن ۱۹۴۶ء ؁ میں دارالعلوم سے فراغت کے بعد کچھ دنوں خاندانی ممبران کے ساتھ مدینہ منورہ میں قیام پذیر رہے، پھر آپ ۵؍ جولائی ۱۹۵۱ء ؁ کو دارالعلوم دیوبند کے مسند درس پر فائز ہوئے، دس گیارہ سال تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد عالمی، قومی، ملی مسائل اور ملک کے اقلیتوں کے تئیں ہمہ جہتی خدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے دارالعلوم سے مستعفی ہوگئے۔

قیادت کے بال وپر

پھر اکابرین ملت کے زیر فیض قیادت کے بال وپر نکلنے لگے کہ آپ اپریل ۱۹۵۵۶ء ؁ میں جمعیۃ علمائے دیوبند کے نائب صدر منتخب ہوئے، ۲۴؍ جون ۱۹۶۰ء ؁ کو جمعیۃ علماء اتر پردیش کے صدر ۱۹۶۲ء ؁ کو جمعیۃ علماء ہند کے ناظم اور ۱۹۶۳ء ؁ کو ناظم عمومی اور ۱۱؍ اگست ۱۹۷۳ء ؁ کو جمعیۃ علماء ہند کے صدر بنائے گئے جس پر تادمِ حیات فائز رہے، مولا نا مرحوم اپنی عالمی فکر وخیالات کے ذریعہ ملک وبیرون ملک میں بسنے والی انسانیت سوز ملت مخالف شور شوں کو فِرو کرنے اور ان کے تعاقب کے لئے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی یہی وجہ ہے کہ دار بقا کو سُدھار جانے کے باوجود آج بھی وہ ایک قد آور قائد اور مرد آہن کے روپ میں نئی نسلوں کے ذہن میں زندہ اور مصلحین امت کے لئے مشعل راہ بنے ہوئے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ مولانا مدنی کا سوانح خاکہ خاندانی تعارف ملی سرگرمیاں اور کامیاب زندگی قطعاً محتاج تعارف نہیں اور نہ راقم ناچیز ان موضوعات کو احاطہ اوراق میں قلمبندی کی ضرورت کا احساس رکھتا ہے چونکہ سانحۂ ارتحال کے بعد بڑے بڑے ارباب رقم وقلم ریسرچ اسکالرس اور اکابرین ملت نے عالمی پیمانہ پر جو تأثرات اور تعزیتی پیغام پیش کئے ہیں ان سے یقیناًآپ کی روداد زندگی تعارفی خاکہ اور دائرۂ خدمات کا کوئی گوشہ تشنہ نہیں رہا لیکن پھر بھی خریدار ان یوسف ؑ میں شمولیت کے ناطے خراج عقیدت کے لئے تجربات ومشاہدات کے تناظر میں مولانا مدنی کی اہداف کے حوالہ سے کچھ ایسے کارہائے نمایاں اجاگر کرنیکی جسارت کر رہا ہوں جو میرے لئے باعث فخر ہونیکے ساتھ سبق آموز بھی ہے۔

شرف زیارت سے مشرف

احقر مادر علمی مدرسہ عربیہ اشرف العلوم ہٹوا بازار ضلع بستی میں درس نظامیہ کی ابتدائیہ کا طالب علم تھا ابھی مکمل طور سے عقل وشعور میں بالیدگی بھی نہیں تھی کہ سمریاواں بازار میں بتاریخ ۲۵؍ فروری ۱۹۸۸ء ؁ ہونے والے تحفظ حرم کانفرنس کے سلسلہ میں بڑے بوڑھوں اور ہم جیسے بچوں میں عجیب جوش وخروش اور حوصلہ بخش جذبہ تھا بالخصوص صدر محترم مولانا سید اسعد مدنیؒ کی آمد کا خوب چرچہ تھا اور شوق دیدار میں نگاہیں بے تاب تھیں اور وہ وقت آگیا کہ بموقع کانفرنس مولانا مدنیؒ کی شرف زیارت سے مشرف ہوا جو میرے زندگی کا پہلا موقع تھا کہ جب کسی ولی صفت مجاہد انسان کا مشاہدہ میری آنکھوں نے کیا ہو اور یہ اپنے لئے بڑی ہی خوش بختی کی باعث بنی، اس کے بعد بارہا دارالعلوم دیوبند دہلی لکھنؤ کے اجلاس اور نجی مجلسوں میں زیارت اور مصافحہ کا موقع ملا، یہ کانفرنس در اصل خمینی ایرانی کارندوں کے ذریعہ بیت اللہ شریف کی شرافت کو پامال کرنے اور ان کے ناپاک عزائم کی مذمت کرنے کے لئے جمعیۃ العلماء کے زیر اہتمام ایک احتجاجی اجلاس تھا جس کی صدارت خادم ملت مولانا عبدالحمید قاسمیؒ اور نظامت رئیس القلم مولانا عبدالحفیظ رحمانیؒ نے انجام دی بعد نماز عشاء کانفرنس کا آغاز ہوا کلیدی خطاب مہمان مؤقر صدر محترم نے فرمایا ماشاء اللہ پروگرام بہت ہی کامیاب رہا امنڈتے ہوئے سیلاب کی طرح عوام کا ایک بڑا جم غفیر جمع تھا۔

جمود وتعطل سے پاک حساس دل

غالباً دوسرے روز بوقت صبح مدرسہ تعلیم القرآن سمریاواں بازار کے وسیع صحن میں علماء عوام اور دانشوران ملت کے مخصوص حضرات کے رو برو مولانا مدنیؒ کا خصوصی خطاب بھی تھا، یقین مانئے دورانِ خطاب عالم اسلام اور حرم مکی کے تقدس کے بابت آپ کی عالمی فکر وتدبر اور شرکاء کانفرنس کی کثرت اژدہام نے آپ کی فعالیت وحساسیت کا جو نقوش میرے قلب وجگر پر چھوڑا ہے وہ آج تک قائم ودائم ہے اسی طرح آپ کا خصوصی خطاب بھی سیاسی معاشرتی سطح پر ایک بصیرت افروز بیان تھا اس سے مجھے اسی وقت اندازہ ہوگیا کہ آپ بلا شبہ جمود وتعطل سے پاک حساس دل کے ایسے مالک ہیں کہ قائدانہ مزاج کی تمام خوبیاں اپنی توانائی کے ساتھ آپکی خمیر میں اس طرح رچی بسی ہیں کہ آپ دفاعی پوزیشن کے قائل نہیں بلکہ اقدامی کاروائی کے لئے ایک بے باک حوصلہ مند ملی جرنیل ہیں بہر کیف یہ بے باکی اور حوصلہ مندی اللہ کی طرف سے ایک زبردست انعام ہے جو راست باز اور خوش نصیب بندوں کے حصہ میں آتا ہے۔

اپنے والد بزرگوار کے سچے امین

سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ چیزیں آپ کو ورثہ میں ملی تھیں اور ایک عظیم باپ کے عظیم فرزند ہوشمند ہونے کے ناطے اپنے والد بزرگوار شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ کی بہت سی صفات جفاکشی بے باکی دور اندیشی زہد وتقویٰ اور استقامت کے سچے امین تھے امانت داری اور احساس ذمہ داری کا یہ عالم تھا کہ لعینوں کی لعن وطعن اور حاسدوں کی حسد سے صرف نظر کر کے پوری استقامت اور اولولعزمی کے ساتھ حالات حاضرہ کے چیلنجز کو قبول کرکے اپنے جانباز ہمالیہ ہمت والد کی طرح میدان عمل کے لئے کمر کس لیا، تاریخ شاہد ہے کہ آزادئ وطن کے وقت جب قیام پاکستان کی تحریک چلی تو اس کی موافقت ومخالفت میں علماء دیوبند کے اکابرین فکری طور پر دو خیموں میں منقسم ہوگئے دونوں طرف کے علماء کرام نہایت ہی بھاری بھر کم علم تقویٰ جہاد اور اجتہاد کے اعلی درجہ پر فائز تھے اور ایک دوسرے کا ادب واحترام بھی ملحوظ خاطر رکھتے تھے یعنی نظریاتی اختلاف کے باوجود آپسی پیار ومحبت اور اخلاقی برتاؤ باقی رہا، لیکن لیگی زہینت کے کچھ تیز طرار لیڈران نے عوامی سطح پر اس عقیدہ کو باور کرایا کہ قیام پاکستان کیخلاف کوئی حرف تردید زبان سے نکالنے والا ان کے نزدیک گویا اسلامی حکومت کا مخالف ودشمن اور انتشار بین المسلمین کا داعی اور محرک بن گیا بلکہ قریب الکفر ہوگیا وقت کی نزاکت ایسی کہ پھونک پھونک کر قدم رکھنا مشکل ہوگیا چنانچہ ایسے نازک حالات میں بھی فدائے ملت مولانا مدنیؒ کے والد ماجد شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ اپنی دور اندیشانہ قوت فیصلہ کو لے کر قیام پاکستان کی مخالفت اور متحدہ قومیت کی موافقت میں اپنے فکری احباب کے ساتھ کوہ گراں کی طرح ڈٹے رہے اور مخالفین کی طعن وتشنیع اور ناقدری کو سہتے ہوئے سینہ سپر رہے بالآخر تقسیم وطن کا فیصلہ نامرضیہ سامنے آگیا جس کی وجہ سے ملت اسلامیہ ہندیہ کا ناقابل تلافی نقصان ہوا آزادی کے بعد یہاں کا مسلمان سخت آزمائش سے گذرا تہذیب وتشخص شان شہریت اور اس کے وطنیت کی وقار کا معاملہ نہایت ہی پُر پیچ تھا جس کے لئے شیخ الاسلام مولانا مدنیؒ نے اپنی مضبوط اور حوصلہ مند ٹیم کے ساتھ جمعیۃ العلماء کے پلیٹ فارم سے ملک کو سیکولر بنانے میں کلیدی رول ادا کیا اور یہ جمعیۃ العلماء کی تحریک آزادی وجمہوریت کا نتیجہ ہے کہ آج ہم سب اپنے وطن میں اسلامی شعار اور ملی تشخص کے ساتھ زندہ ہیں چنانچہ اسی سرمایہ کی حفاظت کے لئے مولانا مدنیؒ اپنے والد بزرگوار کے نقش قدم پر چلتے رہے، لہٰذا ایسی صورتوں میں اگر کوئی احسان فراموش اور ضمیر فروش ذھنیت کا بیمار انسان علماء کی شاندار ماضی اور روشن تاریخ کے ساتھ بد دیانتی کرکے حقائق پر پردہ ڈالنے کی ناجائز کوشش کرتا ہے تو حقیقت میں وہ نالائق اور سیاسی خائن ہی نہیں بلکہ اپنے مذہب اور وطن کا غدار ہے اس لئے ایسے وطن دشمن کا سیاسی سماجی بائیکاٹ کرنا بر وقت ملک وملت کا تقاضا ہے، واضح رہے جس وقت راقم کا یہ مضمون سپرد قلم ہورہا ہے تو ایک مسلم فرقہ پرست پارٹی کی قیادت کے نام پر متحدہ قومیت کے خلاف علماء مخالف تحریک زوروں پر ہے جس کی وجہ سے ملت کا سیاسی مستقبل خطرے میں ہے، بدرگاہ رب العزت دعا گوہوں کہ ملت کی قیادت کو صحیح سمت سفر نصیب ہو۔

سیاسی تدبر اور حکمت عملی

فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنیؒ ملک کی صورت حال کے پیش نظر کبھی بھی تنہا سیاسی صف بندی کے قائل نہیں ہوئے بلکہ جمہوریت پسند ذہنیت کے ساتھ سیاسی افق پر کمندیں ڈالنے کے لئے ہمہ وقت کوشا رہتے وہ اپنی دور رس پلاننگ کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سمجھتے تھے کہ ڈیڑھ اینٹ کی سیاسی مسجد بے معنی ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ملک کے بٹوارہ کے بعد قیام پاکستان سے برادران وطن کی عوامی ذہنیت نے جن تصورات کو انگیز کیا ہے کہ مسلمانوں کا حق پاکستان کی شکل میں مل گیا اور باقی ماندہ ملک ’’ہندوستان‘‘ بلا شرکت غیرے ہماری ملکیت ہے (جبکہ آئین ہند اس طرح نظریہ کی قطعا اجازت نہیں دیتا) اس کی وجہ سے ہر وقت اقلیت واکثریت کی کشمکش کا منظر نامہ سامنے رہتا ہے بلکہ اکثریتی فرقہ کے کچھ لوگ ملک کی سیکولرزم کو ختم کرنے کی مانگ بھی کر رہے ہیں اس لئے ایسے تشدد آمیز نظریات کے بیچ میں مسلم سیاسی وفاق کا تصور اور اس کا قیام ممکن نہیں بلکہ بھارتی مسلمانوں کو فرقہ پرست بنانے کا ایک متحدہ دعوت فکر ہے جس کے نقصان کے سوا افادیت کی کوئی ضمانت نہیں ہاں یہاں کی اکثریتی اور اقلیتی تناؤ کو نارمل اور فرقہ پرست ٹولیوں کو ڈاؤن کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سیکولر مزاج سے ہم آہنگ افراد کی مخلوط سیاسی سسٹم کو مضبوط کیا جائے اور ملک وملت کے مفاد میں جوش مندی نہیں بلکہ ہوش مندی کے ساتھ سیکولر پارٹیز کا ساتھ دیا جائے اسی حکمت عملی میں جمہوریت کے تحفظ کا راز مضمر ہے، یہی وجہ ہے کہ مولانا مدنیؒ نے سیکولر ہندوؤں کو ساتھ لے کر اسی سیاسی تدبر اور حکمت عملی کے ساتھ ملکی وملی مسائل میں قائدانہ رول ادا کیا۔

ملی سرگرمیوں میں قائدانہ رول

فدائے ملت مولانا مدنیؒ نے ملک وبیرون ملک میں ہونے والے کم وبیش انسٹھ (۵۹)اجتماعات اور کانفرنسوں میں شرکت فرما کر ملی سرگرمیوں میں قائدانہ رول ادا کیا اور اس کے لئے تادم ہوش بیس کروڑ ہندستانی مسلمانوں کے نمائندہ اور پشتیبان کی حیثیت سے نصف صدی تک ڈٹے رہے خاص کر عالم اسلام پر ہوئے بیرونی جارحیت کی مذمت امریکا اور اسرائیل کی خارجہ پالیسی پر سخت رد عمل قومی نصاب تعلیم پر ریمارک اور اس کے اصلاح کی کوشش پوٹا اور یکساں سول کوڈ کے خلاف صدائے احتجاج ’’اصلاح معاشرہ عشرہ تحریک‘‘ مسلم اوقاف اور مدارس اسلامیہ کا تحفظ فقہی اجتماعات، اقلیتوں کے تحفظ اور ریزرویشن تحفظ شریعت بھارت بچاؤ ریلی تحفظ سنت وختم نبوت تحفظ حرم کانفرنس، سول نافرمانی تحریک مذہبی مقامات ریگولیشن ایکٹ ۲۰۰۰ء ؁ کی تسبیح بندے ماترم جیسے مشرکانہ گیت کی تردیدی تجویز بابری مسجد انہدام وحق ملکیت کیس کی نگرانی ٹاڈا مظلوم اور دیگرے گناہ قیدو بند افراد کی داد رسی اور ان کے مقدمات کی پیروی، غیر سودی نظام بینکنگ تحریک، گجرات کے مظلوم مسلمانوں کی اٹھارہ کروڑ باون لاکھ روپئے کی مجموعی بجٹ سے باز آباد کاری اور دیگر سہولیات کی فراہمی جیسے اہم امور کی آئینی خدمات انجام دی اس طرح ملک کے علاوہ بیرون ملک قاہرہ مصر، لندن، سعودی عرب، کراچی پاکستان، بنگلہ دیش، تیونس، ملیشیا، از بکستان برمنگھم، بغداد کے علاوہ بہت سے عالمی کانفرنس میں شرکت فرما کر اپنی اصابت رائے اور دور اندیش مشورہ سے عالم اسلام کو فیضیاب کیا بحمد اللہ آپ کی نمائندگی ملت اسلامیہ ہندیہ کے لئے مضبوط تصور کی جاتی تھی، چنانچہ آپ دارالعلوم دیوبند کے روح رواں، رابطہ عالمی اسلامی، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کورٹ، ہمدرد ٹرسٹ دہلی، مرکزی جج کمیٹی دہلی سمیت کی اداروں اور تنظیموں سے وابستہ رہے، ملک کی پارلیمینٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا میں بھی اٹھارہ سال ممبر رہے جہاں ملک وملت کے حق میں آپ کی چھپّن تقاریر (۵۶) پر مبنی صدائے حق کی گونج آج بھی ایوان کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔

رقابتی کشاکش اور مولانا مدنیؒ کی استقامت

جہاں تک مولانا مدنیؒ کی راجیہ سبھا ممبری کا سوال ہے یقین مانئے کبھی انھوں نے اس اعلیٰ عہدے کو عیش کوشی زر کوشی اور آسائش زندگی کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ اس محترم منبر سے بے لوث اور فدا کا رانہ جذبہ کے ساتھ ملی اور معاشرتی خدمات انجام دیں لیکن ملت کے اس وفا کیش خادم کی فدائیت کے باوجود جماعتی تباعد کے نشہ میں ایک طبقہ ہمیشہ مولانا مدنیؒ کی ملی خدمات اور ان کی سیاسی بصیرت کو دو رخا پن اور مداہنت سے تعبیر کرتا تھا حالانکہ شکایتی گروپ کے لوگ اپنی نالائقی کی وجہ سے مولانا کے بالمقابل کسی بھی معاملات میں عشر عشیر بھی نہیں تھے بلکہ وہ فقط ’’چھوٹا منھ بڑی بات‘‘ کے عادی تھے واقعی اگر مسلمانوں میں عصبیت گروہی تصادم اور مسلکی تباغض کی بیماری نہ ہوتی تو میں سمجھتا ہوں کہ فدائے ملت مولانا مدنیؒ کو اپنی متحدہ ملی قوت اور امن پسند برادران وطن کے ذریعہ وطنی، سیاسی، اقتصادی اور آئینی سرکاری حقوق جیسے ہر محاز کو بڑی ہی آسانی کے ساتھ سر کر لینے میں دیر نہ لگتی اور متعصب قائدین بھی سیکولر مزاجی پر انگشت نمائی کی ہمت نہ جٹا پاتے پھر بھی اس طرح تلخ حقیقت اور رقابتی کشاکش کے باوجود مولانا مدنیؒ پوری استقامت کے ساتھ سر گرم عمل رہے، چنانچہ مولانا کی سر گرمی اور معاندین کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس موضوع پر کبھی کبھی رقیبوں اور راقم کے مابین مکالمہ آرائی بھی ہوا کرتی تھی اگر کسی نے جمعیۃ کی کاز اور مولانا مدنیؒ کی تحریک کو کنڈم کرنے کے لئے اخباری بیان اور مراسلے جاری کئے تو بندہ ناچیز نے مراسلاتی مباحثہ کے ذریعہ اس کا ضرور تعاقب کیا ہے۔

مراسلاتی تعاقب اور پس منظر

جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام فدائے ملت مولانا مدنیؒ کی قیادت میں ’’متحدہ قومیت‘‘ نامی کتاب انگریزی ایڈیشن کا رسم اجراء تھا جس میں ملک کے باوقار علماء کرام، دانشوران ملت اور تعلیم یافتہ برادران وطن کے علاوہ اس وقت آر ایس ایس کے سربراہ کے ایس سدرشن بھی شریک اجلاس تھے دوران خطاب انھوں نے بابری مسجد انہدام کو درست قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو اکثریت کے تہذیبی اقدار کو ابنانے کا مشورہ دیا بروقت ہاؤس سے ناراضگی کا اظہار بھی ہوا تھا اور فدائے ملت مولانا مدنیؒ نے بھی سنگھ سربراہ کے نظریہ اور مشورہ کی تردید کی تھی جس کے بعد کچھ پرنٹ میڈیا والوں نے دعوت سدرشن کو مداہنت سے تعبیر کرتے ہوئے آسمان کو سر پر اٹھالیا اور مولانا مدنیؒ کو مورد الزام ٹہرانے لگے کچھ اس طرح کی جملہ باز ی گورکھپور الٰہی باغ کے ڈاکٹر سعید گورکھپوری نے بھی راشٹریہ سہارا کے شمارہ 12-01-2005 کے مراسلاتی کالم میں مولانا اسعد مدنیؒ اور سدرشن کے عنوان سے کی تھی جس کے بعد خادم ملت مولانا عبدالحمید قاسمیؒ صدر جمعیۃ علماء ضلع بستی کی اجازت سے احقر نے مجلس اصلاح المسلمین رودھولی کے پلیٹ فارم سے بعنوان ’’جمعیۃ العماء اور متحدہ قومیت‘‘ راشٹریہ سہارا کے شمارہ 25-01-2005میں جواب لکھا پھر ڈاکٹر سعید گورکھپوری صاحب کا جواب الجواب ’’حقیقت یا عقیدت‘‘ کے عنوان سے 05-02-2005کو شائع ہوا، چنانچہ راقم نے جواب الجواب کے تعاقب میں ۱۱؍ فروری ۲۰۰۵ کو ’’عقیدت نہیں حقیقت‘‘ کے نام سے مراسلہ ارسال کیا جوا درج ذیل تعاقبی مراسلات ہدیۂ قائین ہیں۔ ضرور ملاحظہ فرمائیں

(مراسلہ نمبر۱) راشٹریہ اردو گورکھپور: از:۔ ڈاکٹر سعید گورکھپوری بتاریخ ۱۲؍ جنوری ۲۰۰۵ء ؁

مولانا مدنیؒ اور سدرشن

مکرمی!

مولانا اسعد مدنیؒ نے اپنے والد مولانا حسین احمد مدنیؒ کی کتاب ’’متحدہ قومیت‘‘ کی رسم اجراء میں جن لوگوں کو مدعو کیا تھا، ان میں آر ایس ایس کے سر سنچالک کے سی سدرشن بھی شامل تھے۔ اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے سدرشن کے جو نظریات ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور وہ اپنے نظریہ کے برملا اظہار میں کسیی تکلف یا رواداری سے کوئی کام نہیں لیتے، رسم اجراء کے اس موقع پر بھی انھوں نے جہاں دو ٹوک لفظوں میں بابری مسجد کے انہدام کو درست قرار دیا وہیں مسلمانوں کو اکثریت کے تہذیبی اقدار کو اپنانے کا مشورہ بھی دیا۔ جب راشٹریہ سہارا کے جوائنٹ ایڈیٹر جناب ڈاکٹر عزیز برنی صاحب نے سدرشن کے اس حساس مسئلہ پر مولانا اسعد مدنیؒ کی خاموشی کے خلاف آواز اٹھائی تو ان کے صاحب زادے محمود مدنی نے اسے وضاحتی بیان میں کہا کہ یہ درست نہیں کہ سدرشن کے اس بیان پر ان کے والد مولانا اسعد مدنیؒ خاموش رہے، بلکہ انھوں نے اپنے مخصوص اسلوب میں سدرشن کی باتوں کی تردید کی اور کہا کہ مسلمان ہونے کے ناطے ہم کسی ایسی بات کو نہیں مان سکتے جس سے ہمارے عقیدہ اور شناخت پر زد پڑتی ہو، حیرت ہے کہ سدرشن نے تو اس بات کی قطعی پرواہ نہ کی کہ ان کے بیان سے ہندوستان کے بیس کروڑ مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں گے، لیکن مولانا اسعد مدنیؒ نے حق بات کہنے کے لئے مخصوص اسلوب اختیار کیا، تاکہ سدرشن کی دل آزاری نہ ہو، سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے مولانا کی اعلیٰ ظرفی یا خوف کی نفسیات سے تعبیر کیا جائے یا سیاست۔

جہاں تک اس تقریب میں سدرشن کو مدعو کرنے کا سوال ہے تو اس کی غرض وغایت پر جمعیۃ العلماء کے ترجمان ہی روشنی ڈالیں گے، لیکن قارئین کو یاد ہوگا کہ ملک میں ایمرجنسی کے دوران آر ایس ایس اور جماعت اسلامی کے کارکنان مختلف جیلوں میں بند تھے۔ اس موقع پر جماعت کے افراد نے اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے آر ایس ایس والوں کی غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کی تھی۔ جیل سے رہائی کے بعد بھی دونوں جماعت کے افراد کے درمیان رابطہ قائم رہا اور کچھ دنوں تک قائم نہ رہ سکا۔ اس وقت جمعیۃ العلماء نے جماعت اسلامی اور آر ایس ایس کے درمیان رابطے اور افہام وتفہیم کے عمل پر شدید الزام تراشیاں کی تھیں، لیکن آج اسی جمعیۃ العلماء کے ذمہ داران بابری مسجد کے مسئلہ کے حل کے سلسلہ میں آر ایس ایس والوں سے در پردہ گفتگو کرنے اور اپنی تقریبات میں انھیں مدعو کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔

جمعیۃ العلماء کے طرز عمل میں اس نمایاں تبدیلی کے جو بھی اسباب ہوں، لیکن ایک بات تو بہت ہی واضح طور پر نظر آرہی ہے راجیہ سبھا کی رکنیت سے محرومی کے بعد مولانا اسعد مدنیؒ نے اپنی اور اپنی جماعت کی طاقت سے کانگریس کو مختلف انداز میں متأثر کرنے کی مسلسل کوششیں کیں تاکہ وہ یا ان کے صاحب زادے محمود مدنیؒ راجیہ سبھا کے ممبر منتخب کرلیے جائیں، لیکن ان کی کوششیں بار آور نہ ہوسکیں، اپنے مشن میں ناکامی کے بعد محمود مدنیؒ نے پارلیمنٹ کے الیکشن میں بھی اپنی تقدیر آزمائی لیکن یہاں بھی مقدر نے ساتھ نہ دیا، اب اپنی سیاسی آرزو کی تکمیل کے لیے مولانا کے پاس اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں کہ وہ بھی وحید الدین خاں اور نجمہ ہبت اللہ کی طرح آر ایس ایس کو خوشنودی حاصل کریں اور ’’متحدہ قومیت‘‘ کی رسم اجراء کی تقریب میں سدرشن کی شرکت اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے، بہر حال اپنی ذات اور اپنی جماعت کے مفاد میں مولانا اسعد مدنیؒ کو کوئی بھی فیصلہ کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔

(مراسلہ نمبر۲) راشٹریہ سہارا اردو گورکھپور۔ از:۔ قیام الدین القاسمی جنرل سکریٹری مجلس اصلاح المسلمین رودھولی بستی بتاریخ ۲۵؍جنوری۲۰۰۵ء ؁

جمعیۃ العلماء اور متحدہ قومیت

مکرمی!

اپنے مؤقر روزنامہ کے 12.01.2005 کے شمارہ میں بعنوان ’’مولانا اسعد مدنیؒ اور سدرشن‘‘ ڈاکٹر سعید گورکھپوری کا مراسلہ نظر نواز ہوا، جس میں انھوں نے آر ایس ایس کے سر سنچالک کے ایس سدرشن کی نظریاتی ونفسیاتی توضیح کرتے ہوئے جمعیۃ العلماء اور اس کے صدر کو تنقید کا نشان بنایا ہے، حالانکہ بابری مسجد کے وجود اور اسلامی تہذیب وتشخص کے بابت جمعیۃ العلماء کا کردار وموقف کھلی کتاب کی طرح واضح ہے، ’آفتاب آمد دلیل آفتاب‘ اور خود جمعیۃ العلماء بابری مسجد رام جنم بھومی مندر کیس میں عدالت میں اہم فریق بھی ہے، چنانچہ سنگھ سر براہ کا بیان اور اس کے رد میں مولانا مدنی کا وضاحتی بیان اس کے لئے حجت اور دلیل ہے، پھر بھی اس طرح مسئلہ کو اچھال کر موضوع بحث بنانا ایک مضحکہ خیز حرکت ہے، جہاں تک ’’متحدہ قومیت‘‘ کی رسم اجراء تقریب میں شرکت سدرشن کا سوال ہے تو اس غرض وغایت پر کوئی ایسا دبیز پردہ نہیں پڑا ہوا ہے کہ بقول ڈاکٹر صاحب ’’جمعیۃ العلماء کے ترجمان ہی روشنی ڈالیں گے ‘‘ بلکہ اس تقریب سے واضح ہے کہ در اصل فرقہ پرست عناصر بالخصوص آر ایس ایس او راس کی ذیلی تنظیموں کو یہ دعوتِ فکر دینا مقصود تھا کہ یہ ہندوستان ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہے، یہ قومی ارتباط وہم آہنگی کا گہوارہ ہے، اس کے قومی ترنگا جھنڈے کو کسی زعفرانی آب ورنگ میں رنگنا اور اقلیتوں کو اکثریت کے تہذیبی اقدار کو اپنانے کا مشورہ دینا غیر جمہوری قول وفعل کے مترادف ہوگا اور یہ وطن کی سا لمیت کے لئے اچھا ثابت نہ ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ جمعیۃ العلماء کی روایتی اور تاریخی اقدار وخدمات کے تناظر میں بلا شبہ مولانا مدنی اپنی اور اپنی جماعت کی طاقت سے کانگریس کیا بلکہ حکومت کو بھی بیس کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کے مفاد میں مختلف انداز سے متأثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بزعم ڈاکٹر اگر مولانا مدنی صاحب کا پارلیمنٹ راجیہ سبھا کی ممبری حاصل کرنا مقصود ہے تو یہ خوش آئند قدم ہے، لیکن حیرت کی بات ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو اس سے اضطرابی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے، مسٹر موصوف کی اضطرابی کیفیت کو سیاسی بصیرت کی اعلیٰ ظرفی سے تعبیر کیا جائے یا تنگ نظری سے، جبکہ مولانا مدنی ایوان پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی اچھی نمائندگی کرسکتے ہیں، چنانچہ جمعیۃ العلماء مسلمانوں کی ایک نمائندہ تنظیم ہے، اسی تاریخی تنظیم کے زیر نگرانی 27، 28،؍دسمبر 1948کو لکھنؤ میں منعقد ہونے والی کانفرنس نے مسلمانوں کو ایک نیا حوصلہ بخشا اور آزاد ہندوستان میں سیکولر نظام اور جمہوری آئین کے نفاذ کے لیے کلیدی رول ادا کیا اور مسلمانوں کی ملی، معاشرتی، آئینی خدمات انجام دی،لہٰذا جمعیۃ العلماء اور ارباب جمعیۃ کے تاریخی اقدار اور اس کے مفید اثرات وروایات کو مجروح کرنے کی کوشش کرنا تاریخ اور احوال واقعی کے ساتھ کھلی ہوئی بد دیانتی ہے۔

(مراسلہ نمبر۳) بتاریخ ۵؍ فروری ۲۰۰۵ء ؁، اردو راشٹریہ سہارا گورکھپور از: ڈاکٹر سعید گورکھپوری

حقیقت یا عقیدت

مکرمی!

25؍جنوری 2005کے شمارہ میں جناب قیام الدین القاسمی، جنرل سکریٹری مجلس اصلاح المسلمین بستی کا مراسلہ پڑھا، اگر قاسمی صاحب تمام حقائق سے باخبر ہونے کے باوجود انھوں نے یہ فرض خوش گوار ادا کیا ہے تو میں کہوں گا کہ جب انسان کا ذاتی مفاد اس پر غالب آجاتا ہے یا جب وہ شخصیت پرستی کے سحر میں مبتلا ہوجاتا ہے تو وہ حق بات کہنا اور سننا اسی طرح ناپسند کرتا ہے جس طرح آج بھاجپا اور اس کی ذیلی تنظیمیں گودھرا المیہ کے سچ کو سننا پسند نہیں کرتیں، در اصل قاسمی صاحب کا مراسلہ اس مخصوص ذہنیت کا غمار ہے جو اپنی ذات اور اپنی پسندیدہ شخصیت کے کسی بھی عمل کے محاسبہ کو ناپسند کرتی ہے اور یہ وہی ذہینیت ہے جس نے آج مسلم پرسنل لا بورڈ جیسی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم کو تین حصوں میں تقسیم کر کے مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا ہے۔

بلا شبہ جمعیۃ العلماء مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم تھی اور اس کے قائدین اعلیٰ کردار کے حامل تھے، لیکن یہ ماضی کی باتیں ہیں، یہ کہنا کہ یہ جماعت آج بھی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے حقائق سے چشم پوشی اور خود فریبی کے مترادف ہے، یہ کہنا حقیقت نہیں بلکہ عقیدت ہے کہ مولانا مدنی اپنی جماعت کی طاقت سے کانگریس کیا بلکہ حکومت کو متأثر کرنے کی صلاحبت رکھتے ہیں، اگر واقعی مولانا اور ان کی جماعت میں اتنی صلاحیت ہوتی تو اپنی تمام کوششوں کے باوجود انھیں راجیہ سبھا کی ممبری حاصل کرنے میں نہ تو ناکامی کا منھ دیکھنا پڑتا اور نہ ہی ان کے صاحبزادے محمود مدنی کو پارلیمنٹ کے الیکشن میں شکست سے دو چار ہونا پڑتا، کیا قاسمی صاحب اس 20کروڑ مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی جمعیۃ العلماء کی طاقت پر نازاں ہیں جس کے قائدین کانپور شہر کے مسلمانوں سے سنامی متاثرین کے لئے 10ہزار کی حقیر رقم تک اکٹھا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔

مجھے مولانا یا ان کے صاحبزادے کے پارلیمنٹ یا راجیہ سبھا کی ممبری حاصل کرنے پر کوئی اعتراض نہیں، بلکہ اس طریقۂ کار پر اعتراض ہے جو اسے حاصل کرنے کے لئے اختیار کیا جاتا رہا ہے، لیکن مراسلہ نگار جوشِ عقیدت میں ان دونون باتوں کے درمیان فرق کو نہ سمجھ سکے، مولانا نے دوبارہ ’’ملک وملت بچاؤ‘‘ تحریکیں چلائیں، جب پہلی تحریک کے دوران ہی کانگریس نے مولانا کو راجیہ سبھا کا ممبر نامزد کردیا تو انھوں نے یہ کہہ کر یہ تحریک ختم کردی کہ اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہ گئی، کیا یہ اپنے ذاتی مفاد کے لئے ملت کے نام پر حکومت سے سودے بازی کرنے کے مترادف نہیں؟ اور قاسمی صاحب کی اس رائے کے بارے میں کہ مولانا مدنی مسلمانوں کی اچھی نمائندگی کرسکتے ہیں، میں اتنا ہی عرض کروں گا کہ آج تک انھوں نے مسلمانوں کی نمائندگی نہ سہی لیکن اپنی ذات اور بر سر اقتدار جماعتوں کی بہت اچھی نمائندگی کی ہے، ایمرجنسی کے دوران جماعت اسلامی اور آر ایس ایس کے کارکنان ملک کی مختلف جیلوں میں ایک ساتھ بند تھے، اس وقت دونوں جماعتوں کے افراد کے درمیان رابطہ قائم ہوا اور افہام وتفہیم کا سلسلہ بھی شروع ہوا، جماعت اسلامی کے اس قدم کو سراہنے کے بجائے جمعیۃ العلماء نے جماعت کے افراد کے خلاف طرح طرح کی بہتان طرازیاں کیں اور ان کی کردار کشی کی مہم چلائی، لیکن آج آر ایس ایس کے سر براہ سدرشن کی ہم سفری کو حق بجانب ٹھہرانے کے لئے اسی طرح کی تاویلات پیش کی جا رہی ہیں جس طرح کی تاویلات بت پرست اپنے بتوں کو خدا ٹھہرانے کے لئے پیش کیا کرتے ہیں، یہ عجیب بات ہے کہ کل تک جو چیز جماعت اسلامی کے دستر خوان پر حرام تھیآج وہ جمعیۃ العلماء کے دستر خوان پر پہنچ کر حلال ہوگئی،کیا ہی اچھا ہوا ہوتا اگر ’’متحدہ قومیت‘‘ کے رسم اجراء کے موقع پر سدرشن کو امن ودوستی کی علامت کے طور پر اسی طرح ایک شاخِ زیتون پیش کردی گئی ہوتی جس طرح یا سر عرفات نے اسرائیلی وزیر اعظم کو پیش کی تھی، بہر حال جمعیۃ العلماء کو اپنا نیا ہم سفر مبارک ہو، ممکن ہے اس دوستی کے صدقے مولانا مدنی کی وہ آرزو پوری ہوجائے جو ایک مدت سے ان کے سینہ میں انگڑائیاں لے رہی تھیں۔

قاسمی صاحب کا یہ فرمانا درست ہے کہ جمعیۃ العلماء بابری مسجد اور ام جنم بھومی کیس میں ایک فریق ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس سلسلہ میں حکومت یا کسی فریق سے گفتگو کے لئے مسلم پرسنل لا بورڈ کو مجاز قرار دیا گیا تھا، جسے نظر انداز کرکے محمود مدنی صاحب نے آر ایس ایس کے نمائندہ سے خفیہ گفتگو کا آغاز کیا تھا، قاسمی صاحب بتائیں کہ ان کے اس طرزِ عمل کو ملت کے مفاد میں کہا جائے گا یا مسلمانوں کے اتحاد کو سبو تاز کرنے کی سازش قرار دیا جائے گا؟

آج 2005میں جمعیۃ العلماء کے 1948کے لکھنؤ جلسہ کا ذکر فضول اور بے معنی ہے، جناب قاسمی صاحب کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ قوموں کی زندگی میں چند سال نہیں چند لمحوں کی بھی اہمیت ہوتی ہے، اگر 55سال کی طویل مدت میں کانگریس جیسی منظم تنظیم کو اپنے قائدین کی بد اعمالیوں کے سبب دھول چاٹنی پرسکتی ہے تو پھر جمعیۃ العلماء کی کیا بساط ہے، جو ہمیشہ کانگریس کی حاشیہ بردار جماعت کی حیثیت سے کام کرتی رہی، دنیا کی کوئی قوم یا جماعت محض اپنے ماضی کے ورثہ کو اپنے سینہ سے لگائے رہنے سے زندہ نہیں رہتی، بلکہ اسے اپنا وجود باقی رکھنے کے لئے تعمیری عمل کی ضرورت ہوتی ہے، عرب شاہوں کی طرح ایئر کنڈیشن مکان اور دفتر میں بیٹھ کر ملت کے مفاد کی باتیں کرنا اس ملت کے ساتھ انتہائی بھونڈے اور سفا کانہ مذاق کے مترادف ہے۔

(مراسلہ نمبر۴) بتاریخ ۱۱؍ فروری ۲۰۰۵ء ؁ راشٹریہ سہارااردو گورکھپور از: قیام الدین القاسمی جنرل سکریٹری مجلس اصلاح المسلمین رودھولی بستی

عقیدت نہیں حقیقت

مکرمی!

ڈاکٹر سعید گورکھپوری کا مراسلہ نظر نواز ہوا، تاریخی گوشوں سے واقفیت حاصل کرکے کچھ تاریخی مضمرات کو بے نقاب کرنے اور موجودہ تعمیری جد وجہد کو بیان کرنے کا حوصلہ ملا، جس کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں، حیرت کی بات ہے کہ تعاقبی جذبات میں آکر ڈاکٹر صاحب نے مراسلہ نگار کے شعوری نقطہ نظر کو محض جوش عقیدت کا نام دے کر ایک مرتبہ پھر تاریخی حقائق، احوالِ واقعی کے ساتھ چشم پوشی کرنے کی کوشش کی، میں یہ نہیں کہتا کہ ربابِ جمعیۃ فرشتہ صفت ہیں اور کسی رکن سے کبھی کوئی غلطی نہیں ہوئی، نہ میں کسی کج طینت علماء سو کی وکالت کرنا چاہتا ہوں میں تو جمعیۃ العلماء اور ارباب جمعیۃ کی ان مخلصانہ کاوشوں کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو عقیدت نہیں حقیقت ہیں، بشرطِ معذرت خواہی مجھے صاف صاف کہنے دیجئے، در اصل جناب والا کا مراسلاتی اسلوب نگارش ایسے مخصوص طرز فکر سے ہم آہنگ ہے کہ جس کے نگہ بلند میں بڑے بڑے اسلاف واکابر امت کھرے نہیں اتر پائے تو بعد کے ارباب جمعیۃ کی ان کے یہاں کیا قدر وقیمت ہوگی، چنانچہ اس ذہنیت نے اکابر امت پر تنقید کرنے کو اپنے نیاز مندوں کے لیے جز وایمان ٹھہرا دیا، بہر حال کچھ بھی ہو یہ طرزِ عمل استشراقی ذہنیت سے مستعار ہے کہ جس نے اسلام اور اسلامی اثرات وروایات کو مسخ کرنے کی ایک طویل مہم چھیڑ رکھی ہے جس کا شاخسانہ آج کی الیکٹرانک اور پریس میڈیا ہے اور اس سے متأثر ہوئے بغیر ہمارے ڈاکٹر صاحب بھی نہ رہ سکے۔

جمعیۃ نے جہاں سنامی متاثرین کے لیے کروڑوں روپیہ جمع کیا تو بموقعہ فسادات گجرات مظلومین کے لیے جمعیۃ العلماء کی راحت رسانی اور باز آباد کاری سر گرمیاں ان خدمات کی شاہد ہیں جو اٹھارہ کروڑ باون لاکھ روپئے کی مجموعی بجٹ سے گجرات کے ۸؍ اضلاع میں 236گاؤں کے 3031کنبوں کی باز آباد کاری اور چودہ کالونی کی تعمیر اور طبی، تعلیمی، اقتصادی سہولیات فراہم کی جاچکی ہیں، اسی طرح بابری مسجد کی شہادت کے بعد پھوٹ پڑنے والے ممبئی فسادات اور بم دھماکوں کی جانچ پر مشتمل جسٹس سری کرشنا کمیشن کے سامنے جمعیۃ العلماء کے سینئر ایڈوکیٹ ہارون آدم سولکر کی توسط سے بحیثیت فریق حاضر ہوئی اور فسادات کے سلسلے میں اہم شواہد پیش کیے اور اس کا اعتراف کمیشن رپورٹ میں جا بجا کیا گیا ہے، چنانچہ آج بھی جمعیۃ العلماء ٹاڈا کیس میں پھنسے مظلوم مسلمانوں کی دفاع میں اہم فریق ہے، تو کیا ان مشاہدات کے تناظر میں جمعیۃ کی نمائندگی اور تنظیمی اثر ورسوخ کو خود فریبی کے مترادف قرار دینے والے خود بینی اور فریب خوردگی کے شکار نہیں ہیں۔

رہی بات جزوی ناکامی اور اجتہادی غلطیوں کو بنیاد بناکر مولانا مدنیؒ کی قیادت وخدمات کو نظر انداز کرنا تو یہ کوئی ہوشمندی نہیں گو کہ ڈاکٹر صاحب خاص نوعیت کی زود فہمی اور بلندئ نگاہ کے ناطے اپنے حلقہ احباب میں لائق مبارک باد ہوں، لیکن وقت کا مورخ اس طرح کے فریضۂ خوشگوار کو حقیقت پسندی پر محمول نہیں کرسکتا، جہاں تک بابری مسجد سے جمعیۃ العلماء کی وابستگی کا سوال ہے تو ڈاکٹر صاحب کو بحوالہ جمعیۃ رپورٹ معلوم ہونا چاہیے کہ جمعیۃ علماء ہند مارچ ۱۹۳۴ء ؁ سے ہی ان سازشوں کے سد باب کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے جب اس کی دیوار شہید کردی گئی تھی، کتبے نکال دیے گئے تھے اور مسجد کی دیواروں پر جگہ جگہ ’’رام‘‘ لکھ دیا گیا تھا، اس وقت جمعیۃ علماء ہند کے صدر حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ مفتی اعظم ہندؒ بہ نفس نفیس نہ صرف خود اجودھیا تشریف لے گئے تھے بلکہ آپ نے اعلان بھی کیا تھا کہ ۲۱؍ اپریل ۱۹۳۴ء ؁ سے جمعیۃ علماء ہند اپنے خرچ سے اور رضا کاروں کے ذریعہ مسجد کی مرمت کر کے اس کے تقدس کو بحال کرے گی، اس اعلان اور اقدام کے بعد حکومت برطانیہ کانپ گئی تھی، اب اگر آج جمعیۃ العلماء اپنے روایتی اہداف پر قائم رہتے ہوئے مسجد کے تقدس اور خدمات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے تو اس کی وجہ سے تفرقہ بازی اور اتحاد کو سبو تاژ کرنے کی سازش کا الزام لگانا حقیقت پسندی نہیں ہے۔

شدید صدمہ

عالم اسلام کا بے باک ملی جرنیل مرد آہن مثالی قائد امیر الہند فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنیؒ صدر جمعیۃ علماء ہند آخر کار دہلی کے مشہور ہاسپٹل ’’اپولو اسپتال‘‘ میں غیر معمولی علالت مسلسل تین ماہ بے ہوشی کے عالم میں ۶؍فروری۲۰۰۶ء ؁ بروز دوشنبہ پونے چھ بجے شام کو انتقال فرما گئے، دوسرے روز بوقت صبح اکابرین دارالعلوم دیوبند سے آباد شہر خموشاں مقبرہ قاسمی دیوبند میں اپنے والد بزگوار کے بغل میں آسودۂ خاک ہوئے، مولانا مدنیؒ کی سانحہ ارتحال سے ملت اسلامیہ ہند کو شدید صدمہ پہونچا، چہار جانب سے تعزیتی پروگرام کا سلسلہ جاری رہا، راقم نے بھی ۱۳؍ فروری ۲۰۰۶ء ؁ کو راشٹریہ سہارا اردو گورکھپور کے حوالہ سے خراجِ عقیدت اور تعزیتی پیغام ارسال کیا تھا، ملک بیرون ملک میں آپ کی وفات سے کہرام مچ گیا کہ خانوادہ مدنی کے ایک مثالی قائد سے عالم اسلام محروم ہوگیا،راقم کو عالم گیر تعزیتی خطوط اور پیغامات سے اندازہ ہوا کہ مولانا مرحوم کی شخصیت عالمی قائد کی سی تھی، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ملت کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے، اور آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔(آمین)

خانوادۂ مدنی کی قیادت کو سلام

شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ نے اپنے اساتذۂ کرام بالخصوص پیر طریقت غازی ملت شیخ الہندؒ کی حسن صحبت، صدقۂ ارادت اور ان کی بے پایاں خدمت کرنے کی وجہ سے جو مراتب عالیہ حاصل کیا ہے یقیناًوہ ایک صالح مرد مومن ہونے کی سچی گواہی ہے اور واقعہ ہے کہ اسی مرد مومن نے انگریز گنہگار ملک دشمن کو للکارتے ہوئے اپنے مذہب اور وطن کی آبرو بچانے کا جو کام کیا ہے وہ قابل رشک ہے بلا شبہ خاندان کے ایک مرد مومن ک ایمانی فراست پشتوں تک ایمان ویقین کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج کی تاریخ میں مسلمانوں کے مسائل کے تئیں خانوادۂ مدنی کی قیادت لائق تحسین ہے میں سمجھتا ہوں کہ غیر منقسم ہندوستان کی ملی تاریخ خانوادہ مدنی کی قیادت کے بغیر ادھوری اور ناقص تصور کی جائیگی، چنانچہ آج بھی جانشین شیخ الاسلام فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنیؒ کی فدائیت اور محبوبیت کا شہرہ پورے ملک میں ہے، الحمد للہ اس وقت خانوادۂ مدنی کے چشم وچراغ روشن ضمیر باہمت اصول پسند جانشین شیح الاسلام ملت اسلامیہ ہند کے امین ونقیب مولانا سید ارشد مدنی صاحب صدر جمعیۃ علماء ہند بلاشبہ اپنی ملی خدمات اور مظلوم انسانوں کی داد رسی کی وجہ سے مقبولیت ومحبوبیت میں اوروں سے فائق نظر آرہے ہیں جو عند اللہ مقبولیت کی علامت ہے، جگر گوشۂ شیخ الاسلام مولانا سید اسجد مدنی صاحب کی ملی تعلیمی کاوشوں کا سلسلہ جاری ہے، اور آپکی ملی روحانی حلقۂ اثر ملک کے علاوہ بنگلہ دیش تک پھیلی ہوئی ہے اس طرح جانشین فدائے ملت مولانا سید محمود مدنی صاحب اپنی قوت ارادی، عمل پیہم اور سیاسی بصیرت کے ساتھ ملک وملت اور عالم اسلام پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ملت کے خلاف اٹھنے والے سوالوں کے جوابات نہایت ہی حاضر جوابی اور حکمت عملی سے دیتے ہیں، فی الحال جمعیۃ علماء اترپردیش کے صدر نبیرۂ شیح الاسلام مولانا سید اشہد رشیدی صاحب اپنی ملی معاشرتی فریضۂ خوشگوار کی ادائیگی، فکر انگیز لائحہ عمل اور پر مغز خطاب کی وجہ سے جمعیتی اور علمی احباب میں ایک مؤقر اور منفرد شناخت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے بحمد اللہ یوپی جمعیۃ کی تمام یونٹیں منظم، مستحکم اور مستعد ہیں، ماشاء اللہ خانوادۂ مدنی میں بر وقت ایک درجن سے زائد عائلی ممبران ہیں جو ملی معاشرتی تعلیمی اور سیاسی خدمات انجام دے رہے ہیں جو واقعی خانوادۂ مدنی کی قیادت اور ان کے ایمانی فراست کی شاہکار ہے جسے میں سلام پیش کرتا ہوں۔

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply