abdul haleem mazahiri

استاذ العلماء مولانا عبد الحلیم مظاہری قاسمی

استاذ العلماء مولانا عبد الحلیم مظاہری قاسمی علیہ الرحمہ، ملى علمی،انتظامی خدمات کے تناظر میں

از:   قیام الدین القاسمی،  جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء،ضلع بستی یوپی

خادم التدریس: مدرسہ عربیہ اشرف العلوم ہٹوابازار، ضلع بستی

qayamuddinqasimi@gmail.com

آغاز سخن:

 الحمدللہ ہمارے  علاقہ کی علمی دنیا میں ا یسے بہت سے علماء کرام گذرے ہیں جنہوں نے مقصدِزندگی کی صحیح سراغ یابی کا موقع فراہم کیا، واقعی وہ علم دوست ہستیاں اپنے وقت کے دیہاتی رنگ وآہنگ اور ناسازگار سماجی رسم ورواج سے متاثر ہوئے بغیر اپنے مشن میں کامیاب وکامراں رہے، مدارس سے وابستہ انتظامی امور ہوں، یا تدریسی خدمات، اسی طرح ملک وملت سے متعلق ملی سرگرمیاں ہوں، یا آزادئ وطن کے خاطر سیاسی خدمات ہر محاذ پر جمے رہے، روایت دیکھی جائے تووہ یقینا اکابرین ملت کے نقش قدم پرقائم رہے اور دین بلیغ کی تعلیم وتبلیغ کے لئے بروقت دستیاب وسائل وافراد کا استعمال کرتے ہوئے اپنے من میں ڈوب کر اوروں کو زندگی کا سراغ یابی نسخہ بانٹتے رہے۔

          چنانچہ غیرمنقسم ضلع بستی کی اِن علمی شخصیات کو ملک کے مشاہیر اکابرین اپنے اپنے تأثراتی تحریروں میں قابل فخر خراج عقیدت پیش کئے ہیں،جیسا کہ مولاناعبدالحفیظ رحمانی سابق محقق شیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبند رقمطراز ہیں: ” غیر منقسم ضلع بستی کو اہل علم کی دنیا میں مردم ساز کہاجاتا ہے بلا شبہ اس ضلع میں بہت سے باکمال پیدا ہوئے اور اپنے علم وفن کے انمٹ نقوش چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے مشاہیر علماء نے اِن علمی شخصیات کے مختصر حالات بھی تحریر فرمائیں ہیں حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے حضرت مولانا فتح محمد بستوی ؒ کو کثیر التصانیف لکھا ہے،علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے حضرت مولانا رحم اللہ صاحب (بستویؒ) کو مشاہیر علماء میں شمار کیا ہے، محدث جلیل حضرت مولانا حبیب الرحمن الاعظمی رحمہ اللہ نے حضرت مولانا زین اللہ صاحب ؒ، حضرت مولاناابو ظفر وغیرہم کو داعیان کی فہرست میں رکھا ہے،حضرمت مولانا ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ اللہ نے حضرت مولانا سید جعفر علی نقوی رحمہ اللہ کو سیرت سید احمد شہید اور دیگر کتابوں میں بلند الفاظ میں عقیدت مندانہ طور پر یاد کیا ہے، اِن کے علاوہ بہت سے علماء کرام ایسے ہیں جن کے تذکرے متعدد کتابوں میں بکھرے ہوئے ہیں کاش کوئی صاحب اِن بکھرے ہوئے موتیوں کو ایک لڑی میں پرو دیتے”۔

اِسی طرح ابھی ماضی قریب میں وفات پاچکے دیار کی علمی شخصیت مولانا عبد الوہاب مظاہری سابق ناظم مدرسہ عربیہ جعفریہ ہدایت العلوم کرہی سنت کبیر نگر،مولانا حلیم اللہ مظاہری سابق ناظم مدرسہ عربیہ امدادالعلوم دانوکوئیاں سنت کبیر نگر، مولانا لیاقت حسین قاسمی سابق ناظم مدرسہ عربیہ مفتاح العلوم رونا کلاں ضلع بستی یوپی، و شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ مظفر پور اعظم گڑھ، مولانا عبد الحلیم مظاہری ثم قاسمی سابق ناظم مدرسہ عربیہ اشرف العلوم ہٹوا بازار بستی، مولانا عبد الحمیدقاسمی سابق صدر جمعیۃ علماء ضلع بستی یوپی علیہم الرحمۃوالرضوان کی علمی تدریسی ملی انتظامی اور تنظیمی سرگرمیاں نظروں کے سامنے ہیں، بلکہ راقم اِن سے  بالواسطہ مستفید ومتعارف رہا، یا شرف تلمذ سے مشرف، یقینا اِنکے حوصلہ بخش تمام امور سبق آموز قابل تقلید ہیں، اور انکی وفیات سے ہم جیسے شاگردوں کو سخت صدمہ پہونچا،اللہ رب العزت اِنہیں غریق رحمت فرمائے،آمین۔

   بہر حال اِنھیں ہستیوں میں سے آج مَیں ایک ایسے “قابل ذکر ملی،علمی اور انتظامی ہمہ جہت صفات کی حامل شخصیت” کے عنوان سے بطور خراج عقیدت قلم بندی کا شرف حاصل کررہا ہوں جنکے احاطہٴ تدریس وانتظام میں رہ کر بندۂ ناچیز کی دینی تعلیم و تربیت کی نشو نما ہوئی، اوراسطرح کامیاب مراحل سے گذر کر مقصدِ افرینِش سے ليس ایک نئی زندگی کی شروعات ہوئی، اور اہل علم اس پختہ کار عالم دین کو حضرت مولانا عبدالحلیم مظاہری ثم قاسمی ابن عبدالکریم متوطن “چھَپِیَا چھِتَوْنَہ” ضلع سنت کبیر نگر کے نام سے جانتے ہیں۔

بلاشبہ مولانا مرحوم عزم وحوصلہ سے ہم آہنگ بے لوث منتظم، اور باکمال مدرس تھے، انہوں نے نہایت ہی فعالیت اور حساسیت کے ساتھ گوشہٴ  گمنامی میں رہ کر مدارس اسلامیہ کی تعلیمی تدریسی انتظامی اور ملی خدمات انجام دی، بلکہ مولانا کے اِس فطری مشغلہ کا ایک طویل سلسلہ ہے جوان کی حیات مستعارکے بیشتر حصوں پر محیط ہے، لیکن راقم نے مولانا مرحوم کی انہیں سرگرمیوں کو موضوعِ قلم بنایا ہے، جنہیں بزمانہٴ طالب علمی مدرسہ ہٹوابازار بچشم خود معائنہ کیا، اور انکے شرفِ تلمذ سے مشرف ہوا، اسی طرح اُن باتوں کو بھی شامل مضمون کیا جن سے تأثراتی وتحقیقاتی سطح سے متعارف ہوا۔

پرورش و پرداخت:

مولانا مرحوم کی ولادت 1936عیسوی کو اپنے آبائی وطن چھپیا چھتونہ خلیل آباد ضلع سنت کبیر نگر کے ایک زمیندار علم دوست گھرانہ میں ہوئی، خانوادہ میں شروع سے ہی پڑھائی لکھائی کا عام رواج تھا جس کی وجہ سے ممبرانِ فیملی کے کچھ لوگ ہر دور میں سرکاری و نیم سرکاری دفاتر جاب ا ور عہدوں پر فائز رہے، اسی طرح آپ کی پرورش وپرداخت خاندان کے دیندار بیدارمغز افراد کے آغوش میں ہوئی، خاندانی ماحول نے آپکو دینی تعلیم کی اہمیت اور رغبت دلائی، چنانچہ مکتبی تعلیم کے بعد آپ نے علوم نبوت،تفسیر قران،احادیث نبویہ،فقہ،عربی فارسی، گرامرس،صرف ونحو،انشاء،عربی فارسی،علم عروض،معانی،بلاغت،منطق و فلسفہ اور علوم شرعیہ کی دیگر اہم بنیادی کتابوں کی تعلیم نہایت ہی اعلیٰ ذوقی کے ساتھ ملک کی بڑی بڑی درسگاہوں میں حاصل کی، اور وہاں کے ارباب علم ومعرفت، اور صاحب بصیرت روشن دل اساتذہٴ  کرام کے سامنے زانوئے تلمذتہ کیا، اور باضابطہ عالم و فاضل بن کر وار ثِ انبیاء بنے اورتا حینِ وفات مدارس اسلامیہ سے وابستہ رہے۔

تعلیمی مشاغل:

مولانا نے درس نظامیہ کی تعلیم کا آغاز مادرعلمی مدرسہ عربیہ “ہدایت العلوم کرہی” سنت کبیر نگر یوپی سے کیا، اور وہاں درجہٴ متوسطات تک تعلیم حاصل کی جو اپنے وقت کامشہورقدیم ترین تعلیمی اقامتی ادارہ تھا، اور الحمدللہ آج بھی یہ ادارہ رو بہ ترقی اور اکابرین کے نقش قدم پرقائم ہے، بقول استاذ محترم مولانا عبدالسلام قاسمی (ساکن کرہی اسرا شہید) استاذ مدرسہ اسلامیہ امدادالعلوم دانوکوئیاں: ”مولانا عبد الحلیم مرحوم مجھ سے گرچہ سینئر تھے لیکن اْن کے طالب علمی کازمانہ آنکھوں کے سامنے ہے، مدرسہ ہدایت العلوم کرہی، مظاہر علوم سہارنپور، اور دارالعلوم دیوبند، یہ وہ تعلیم گاہیں ہیں جہاں پر انہوں نے ترتیب وار وہاں کے اساتذۂ کرام سے اپنی علمی تشنگی دور کیا، اور اپنے قیمتی ا وقات کو تعلیمی مشاغل میں صرف کیا“۔

مولانامرحوم مادری علمی مدرسہ ہدایت العلوم کرہی میں براہ راست علم و معرفت کے رسیا، صاحب نسبت بزرگ عالِم دین مولانا ہدایت علی مظاہری رحمۃ اللہ علیہ ناظم مدرسہ ہدایت العلوم کرہی،مولاناعبدالغفور مظاہری رحمۃ اللہ، مولانا انوارالحق مظاہری نور اللہ مرقدہ، اور دیگر علمائے کبار سے تعلیم و تربیت حاصل کی،  یہاں سے تعلیمی مراحل کی تکمیل کے بعد سن1954ء میں ملک کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کا رخ کیا،بقول حضرت مولانا عبد القیوم شاکر الاسعدی مظاہری ناظم مدرسہ عربیہ اصلاح المسلمین “جمدا شاہی” بستی یوپی(ملاقات کے بعد حضرت مولانا عبدالقیوم شاکرالاسعدیؒ کا انتقال بتاریخ 13/اگست 2020ء بمطابق ۱۱/محرم الحرام 1442ھ ہوگیا تھا): ”مولانا عبد الحلیم رحمہ اللہ مجھ سے جونئر تھے، جس سال میری فراغت مظاہر علوم سہارنپور سے 1374ہجری میں ہوئى اُسی سال مولانا مرحوم نے مظاہر علوم میں داخلہ لیا، اور وہاں کے قابل رشک اساتذۂ کرام خاص کر مرشدالعلماء مولاناالشاہ محمد اسعداللہ نور اللہ مرقدہ،محدث وقت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ،فقیہ زماں عالم ربانی مفتیئ اعظم مولانا سعید احمد اجراڑوی علیہ الرحمہ، فا ضل نبیل مولانامنظوراحمد خانصاحب سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ، اوررئیس الاساتذہ مولانا امیر احمد کاندھلوی علیہ الرحمہ جیسی عبقری شخصیات کی درسیات اوراُ نکی تعلیم وتربیت سے فیضیاب ہوئے، تاریخ مظاہر علوم کے ریکاڈ کے مطابق مولانا عبدالحلیم صاحب نے مظاہر علوم سے 1376ہجری/ مطابق1956عیسوی میں فراغت حاصل کی، اور آپ کے ہمدرس صاحب نسبت فاضل مولانا عبد القیوم رائپوری رہے“۔

سہارنپور  کے بعد مولانا مرحوم نے اپنے ذوق وشوق سے مزید علمی نکھار پیدا کرنیکی غرض سے ایشیاء کی شہرۂ آفاق عظیم علمی مرکز دار العلوم دیوبند میں داخلہ لیا، اور وہاں سے بھی علم وعمل کے پیکر،قائدانہ صلاحیت سے ہم آہنگ صاحبانِ علم وفن بالخصوص حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب قاسمی نوراللہ مرقدہ کے زیر سایہ رہ کر فخرالمحدثین شیخ الحدیث مولاناسیدفخر الدین احمد مرادابادی رحمہ اللہ،بلند پاۂ عالم دین علامہ محمد ابراہیم بلیاوی ؒ، کامل الاستعدادمولانا محمد حسین  مْلّا بہاری ؒ، فخرِ علم وفن مولانا فخرالحسن مرادابادی ؒ جیسے اساتذۂ کرام سے اکتساب فیض کی سعادت حاصل کی اور دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل فاضل بنے۔

تدریسی مشاغل:

فراغت کے بعد مولانا مرحوم نے درس و تدریس کو اپنا محبوب مشغلہ بنایا، اور اسے اپنے لئے ذخیرۂ آخرت تصور کیا، مولانا نے شروعاتی دور میں ہی مدرسہ انجمن اسلامیہ خونی پور گورکھپور شہر میں رہ کر علمی تدریسی خدمات انجام دیا، اسی طرح وہاں کے بااثرعلماء عظام، ائمہ کرام اور معزز و معتبر شخصیات سے اپنے مراسم استوار کئے، اور اُن کے دلوں میں رَچ بَس گئے، جس کی وجہ سے آپ کی علمی شخصیت کا شہرہ پڑوس کے اضلاع میں بھی سنائی دینے لگا،چنانچہ علماء کے مشورہ سے  سیکڑوں میل دور دیوریا ضلع کے قصبہ مدن پور کے قدیم دینی ادارہ مدرسہ عربیہ انجمن اسلامیہ میں شعبہ٫ عربی وفارسی کی درسیات سے منسلک ہوکر کئی سالوں تک علوم نبوت کے طلبگاروں کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا۔

پھر کچھ دنوں بعد مولانا مرحوم وہاں سے واپس آکر اپنے علاقہ کے مدارس میں تعلیمی خدمات انجام دینے لگے اور ملت کے لئے ہونہار رجال کار تیار کئے، اگر دیکھا جائے تومولانا قاسمی کی پوری زندگی مدارس سے وابستہ رہی،نجی زندگی یا گھریلو معاملات میں نشیب و فراز کےباوجود حوصلہ مند مردِمومن کی طرح ہمیشہ تعلیم علومِ نبوت کے خاطر خوش وخرم رہے، اور کبھی اِن جھمیلوں سے خاطر آشفتہ نہ ہوئے کہ مدارس سے علاحدہ زندگی گذاریں، اور ماہیئ بے آب کی طرح بے تاب رہیں، سچ بات ہے کہ تدریسی عمل مولانا کے لئے ہوا، پانی، اور غذا کے درجہ میں تھی بقول مولانا مرحوم:”ایک زمانہ میں گھروالوں کے مشورہ سے مجھے امورِزراعت کی ذمہ داری دی گئی، جس پرمىں مامور رہا، لیکن جذبہء تعلیم وتعلم نے مدارس کا رخ کرنے پر مجبور کیا“، یہی وجہ ہے کہ بہت سے مدارس میں مولانانے تعلیمی انتظامی فیضان جاری رکھا بالخصوص انجمن اسلامیہ خونی پور گورکھپور،   مد نپور ضلع دیوریا کے علاوہ  ڈومریاگنج، دانوکوئیاں،ہٹوابازار،روناکلاں،گنوا کھور،روضہ مہولی،خیرالعلوم بستی،دارالعلوم خلیل آباد، بھٹنی، متھولی وغیرہ کے مدارس قابل ذکر ہیں۔

 مولانا مرحوم کی تدریسی سرگرمیاں اترپردیش کے علاوہ بیرون ریاست جنوبی ہندوستان حیدرآباد میں بھی جاری رہیں،لیکن وہاں کی آب و ہوا آپ کو راس نہ آسکی  اور جلد ہی واپسی کا فیصلہ لیا،مولانا اپنی جرأتمندانہ اور غیرت مند مزاج کی وجہ سے مدارس اسلامیہ میں استقلال کے ساتھ تو نہیں بلکہ استمرار کے ساتھ ابر رحمت کی طرح اضلاع کے مختلف خطوں میں تشنگان علوم طلباء عزیز کو سیراب کرتے رہے، چنانچہ آپ کے ہزاروں شاگرد مفتیان، علماء،، حفاظ مبلغین داعی ملک اور بیرون ملک میں ملی، معاشرتی، درسیاتی اور دیگر رفاہی امور میں سرگرم عمل ہیں،جو آپکے لئے یہ باقیات صالحات اِن شاء اللہ صدقہء جاریہ ثابت ہوں گی۔

 راقم آثم مادرِ علمی میں:

احقرکاداخلہ مادرعلمی مدرسہ عربیہ اشرف العلوم ہٹوا بازار بستی میں وہاں کے ریکارڈ کے مطابق 18/نومبر 1982ء میں ہوا اُس وقت مولانا عبدالحلیم مرحوم منصب اہتمام پر فائز تھے، اِقامتی مدرسہ میں زیر تعلیم ہونا میرے لئے ایک نیا عجوبہ تھا، چونکہ ہمارے گردوپیش کا ماحول سوداگری صنعت گری اور کاشتکاری کے سواتعلیم وتعلم سے عاری تھا، بلکہ ہم عمروں یا ان کے گارجینس میں مذہبی اعلیٰ تعلیم کا نہ ذوق اور نہ ہی کوئی ناطہ، ہاں البتہ الحمدللہ میرے گھر کا موروثی مزاج دینی تعلیمی تھا، اُس زمانہ میں جب مکتب کارواج نہ تھا تو بڑے بوڑھوں کے بقول احقر کے غریب خانہ پرہی گھریلو تعلیم کا نظم رہا، اور باذوق لوگ فیض یاب ہوئے، چنانچہ یہی موروثی ماحول کا ثمرہ تھا کہ کسی اقامتی مدرسہ میں داخلہ کا داعیہ پیدا ہوا، قربان جاؤں اپنے والد بزرگوار کے دینی جذبہ اورفریضہء خوشگوارکی ادائیگی پر جنہوں نے میرا (اور برادر محترم حافظ نظام الدین کا) داخلہ گاؤں سے میلوں دوراقامتی دینی ادارہ مدرسہ عربیہ اشرف العلوم ہٹوا بازار بستی میں میں کرایا، اورہمیں دینی تعلیم کے لئے انہوں نے ایک ایسا گولڈن چانس دیا جِسے شامِ زندگی تک بھلایا نہیں جاسکتا، اور بطور تحدیث نعمت یہ کہنا پڑرہا ہے کہ والدِمحترم کے اخلاص کا نتیجہ ہے کہ بندۂ ناچیزآج دینی دنیاوی ملی اور معاشرتی ہرطرح سے مطمئن وخوش مزاج ہے، دعا ہے کہ صحت وعافیت کے ساتھ والدین کا سایہء شفقت تادیر قائم رہے۔(آمین)

بہرحال مادرِعلمی میں احقرنے درجہ 5مکتب 1984ء میں پاس کیا، اسی طرح درس نظامیہ کا تعلیمی سلسلہ شرح جامی تک جاری رہا، پھر مولانا مرحوم نے  ہمدرس نہ ہونے کیوجہ سے عربی پنجم کے لئے ناچیزکا داخلہ مدرسہ دانوں کوئیاں میں کروایاجہاں حضرت الاستاذ مولانا حلیم اللہ مظاہری ؒ کی فیض رساتربیت میں ایک سال رہنے کے بعداحقر نے دارالعلوم دیوبندکارخ کیااور فروری 1992ء میں وہاں سے فراغت حاصل کی۔

ناظمانہ نظم و نسق اوررعب:

          مولانا کے زیراہتمام مدرسہ کے لیل و نہار اور نظام الاوقات اسطرح مربوط اور مستحکم تھا کہ طلبہ کے علاوہ اساتذہ کرام بھی اپنے اپنے واجبات کی ادائیگی میں کوتاہی قطعاً نہ کرتے، بلکہ آپ کی بارعب باوقار شخصیت کے ناطے مدرسہ کے تمام لوگ چاق و چوبند رہتے، یہ بات مسلّم ہے کہ تعلیم وتربیت تعمیر ومرمت  خورد و نوش اورتنظیم وترقی یہ مدارس کے ایسے کلیدی شعبہ جات ہیں کہ ذرہ برابر بھی اگر توجہ دیجائے تو مدرسہ کا معیار دو بالا ہوجائے، کم یاب وسائل اور محدود آمدنی کے باوجود مولانا مدرسہ کی بہر طور انتظامی فکرمیں لگے رہتے، آپ کے دور اہتمام کے قبل حضرت مولانا نعیم الدین مظاہری ؒ کے زمانہء نظامت میں جہاں تک تعلیم وتربیت کامعاملہ رہا،الحمدللہ درس نظامی کی تعلیم ٹھوس تھی، یہاں سے فارغ طلبہ ملک کی بڑی درسگاہوں میں جاکر تعلیم حاصل کئے اور کامیاب بھی رہے۔ لیکن جب سماجی کارکن حاجی زین اللہ صاحب نے 1981ء میں مدرسہ کا نظام اپنے ہاتھ میں لیا (جوآج بھی مدرسہ کے منیجر ہیں) اور مولانا مرحوم کوبا ضابطہ منصب اہتمام پر فائز کیاتو سب سے  پہلے مولانا نے مکتب کی نظام تعلیم کومنظم کرکے حسب ضرورت عصری مضامین انگریزی،ہندی، سائنس، جغرافیہ، حساب کا اضافہ کیا، اور درجہ بندی قائم کیا، اور اسے ڈسٹرکٹ تعلیمی بورڈ سے مربوط کیا،اسی طرح درسِ نظامی کو جزوی ترمیم کے ساتھ انگریزی اور عربی انشاء شاملِ نصاب کرکے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا،اور طالبان علوم نبوت یہاں سے فیضیاب ہوکر ملک کی بڑی بڑی درسگاہوں میں داخل ہوئے اور سند فضیلت حاصل کئے۔

اسی طرح ہٹوا مدرسہ کا مطبخی نظام دیگر مدرسوں سے جداگانہ تھا، ناشتہ میں روٹی سبزی کے علاوہ ہفتہ میں دو مرتبہ گوشت مینو میں ضرور شامل رہتا، خورونوش کے معاملہ میں مولانا مرحوم ذرہ برابر بھی کوتاہی برداشت نہ کرتے، طلبہ واساتذہ کى تمام مراعات کا خاص خیال رکھتے صاف صفائى تعمیر ومرمت آپ کے نظامتی جز کا اہم حصہ رہا، واقعی مولانا کا ناظمانہ ونسق اور رعب ماتحتوں پراسطرح غالب رہا کہ ہر ایک اپنے وظائف پر پابند رہتا۔

تعلیم وتربیت پر گہری نظر:

          حضرت مولانا مرحوم بذات خود تعلیم وتربیت پر گہری نظر رکھتے، یہاں تک کہ مولانا تمام تعلیمی شعبوں اور تربیتی نظام کو مزید فعال بنانے کے لئے صدر مدرس نگراں  اتالیق اور اساتذۀ کرام کے ساتھ میٹنگ کرتے، اور حسب ضرورت گائد لائن جاری کرتے، اور آپ کا مشفقانہ رویہ طلبہ کے لئے نرالا ہوتا، اِنکے علاج معالجہ ودیگر ضروریات کی تکمیل کیلئے کوشاں رہتے، خارج اوقات میں نماز تلاوت صباحی شبینہ دعاؤں کے التزام پر خاص دھیان دیتے، حضرت کے اِس تجسسانہ اور تربیتی نگاہ سے اساتذہ بھی آگاہ رہتے۔

مولانا مرحوم تعلیم وتعلم کے لئے ہمیشہ چست وپھرت رہتے، علم نحو،علم کلام،علم معانی اور علوم بلاغت کی کتابیں بڑے ذوق وشوق سے پڑھاتے، اور زبردست مطالعہ کا اہتمام کرتے، پابندئى اسباق کے ساتھ تکمیل نصاب اورمقدار خواندگی کی فکر رکھتے، احقر کو یادہے اعدادیہ اور عربی اول دونوں جماعتوں کی کتابیں حضرت نے یکسالہ کورس کے طور پر  پڑھوائیں، جس کے لئے نحومیر تعطیل کلاں میں بھی آپ کے زیر درس جاری رہى، اور عید الفطر کی نماز کے بعد اسی دن نحومیر کی تکمیلی رسم پوری ہوئی،جب بھی ہم طلبہ کو پڑھاتے نہایت ہی انہماک،یکسوئی اور خاص تکیہ کلام کیساتھ سمجھانے کی کوشش کرتے، کہ ہر طالب علم اکتسابی پوزیشن میں آجائے چنانچہ آپکے شاگردعزیز مفتی جاوید احمد نقشبندی بستوی ابن مجتبیٰ حسین کرہی ایس کے نگر رقمطراز ہیں  ”حضرت الاستاذ (مولانا عبدالحلیم مرحوم) اپنے طلبہ کے تئیں انتہائی مخلص وخیرخواہ تھے، تقریبا ساڑھے تین سال آپ کے زیر سایہ پڑھائی کا سلسلہ رہا، اس دوران تربیت اور استعداد سازی پر خصوصی طور پر زور دیتے تھے، صحیح اعراب کے ساتھ عبارت خوانی حشو وزوائد سے خالی حل مطالب آپ کا طرۀ امتیاز تھا، ہر معاملہ میں بے حد سادگی پسند اور تصنع وتکلف سے کوسوں دور رہے، مطالعہ کے پابند تھے، مغرب سے عشاء تک کا وقت مطالعہ کے لئے خاص تھا، ہرفن کی دقیق درسی کتابیں اپنے سے متعلق رکھتے تھے، انداز تدریس بہت نرالا تھا پورے سبق کا خلاصہ آسان لفظوں میں بیان کردیتے تھے، پھر حل عبارت اور ترجمہ پر اکتفاء کرتے، تسلسل اور استمرار کے ساتھ اسباق پڑھاتے، کبھی ناغہ نہ کرتے، اگر کبھی کسی ملی پروگراموں میں بغرض شرکت سفر درپیش ہوتا تو بعدفجر سبق کااعلان ہوجاتا، اسی طرح واپسی کے بعد تھکاوٹ کا احساس کئے بغیر بقیہ اسباق بھی پڑھادیتے، درجہ اعدادیہ اور عربی اول دوسالہ نصاب تعلیم کو ایک ہی سال کے عرصہ میں ہم لوگوں کو پڑھا دیا،نحو میر،جوفن نحو میں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کچھ ناقص رہ گئی تو رمضان کے مبارک مہینہ میں پوری جماعت کے لئے مدرسہ میں قیام وطعام کا انتظام کرایا، اورتدریسی مرحلہ کو پوراکیا۔ آپ درباری عالم نہ تھے استغناء،خود داری اور اہل ثروت سے دور قناعت پسند تھے، آپکی زندگی کا بیشترحصہ مختلف مدارس کی خدمات میں گذرا، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ خدمات آپکے حق میں صدقہئ جاریہ بنائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔  آمین یارب العالمین 

اخباروافکارسے ہم آہنگ علمی ماحول:

احقر کو ہٹوا مدرسہ میں کم وبیش ۶/ برس مولاناکے سایہء عاطفت میں مکتبی تعلیم سے شرح جامی تک رہنے کا اتفاق ہوا موقع بموقع ایک مشفق مربی نگراں کی طرح ہرضروریات پردھیان دیتے رہے، مجھے کبھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوا، آپ کے شاہانہ انتظام و انصرام سے ناچیز ہی نہیں ہر کوئی مطمئن اور خوش رہتا، اس لئے کہ دیہاتی مدرسہ کی اسطرح کا ڈسپلن یقینا شہرکے بڑے اداروں کا عکاس نظر آتا، مدرسہ میں کتب بینی مطالعہ تکرار و مذاکرہ اور اخبار و افکار سے ہم آہنگ علمی ماحول قائم و دائم رہا۔

مولانامرحوم کے حسن ذوق اور ان کی انتظامی کاوش سے ملک کے معیاری معروف رسائل و جرائد الفرقان لکھنؤ،ماہنامہ دارالعلوم دیوبند اور نئی دنیا وغیرہ مدرسہ کے نام بزریعہ ڈاک پوسٹیڈ تھے، جو تسلسل کے ساتھ جاری رہے، اساتذہ اور طلبہ فیضیاب ہوکر معلومات میں اضافہ کرتے، اور ملک کے ملی سیاسی سماجی جیسے ملک وملت بچاؤ تحریک،شاہ بانو کیس،اندراگاندھی قتل وہنگامہ آرائی، بھوپال گیس لکیز حادثہ، قضیہ نا مرضیہ دارالعلوم دیوبند، شِلانیاس اور بابری مسجد تالہ کھول المیہ واقعات سے باخبر رہتے، اور اساتذۀ کرام کے ساتھ مولانا مرحوم دسترخوانی مجلسوں میں عالم اسلام،ملی،معاشرتی اور علمی مسائل پر بصیرت افروز تبادلہء خیال اور مذاکرہ کرتے، جو آج بھی خام خیالی کے باوجود شعور و آگہی کی اسکرین پر وہ پٹی گردش کر رہی ہے، اور وقت کے حالات سے بندۀ ناچیز نا بلد نہ رہا اوریہ محض مولانا مرحوم اورانکے اسٹاف معاون اساتذہ کی دوررس نگاہ اور بیداری کا نتیجہ رہا ہے، ورنہ دیہات کی بے خبر مجلس میں یہ باتیں کم یاب اور نامانوس ہوتی ہیں، یہی وجہ تھی کہ کوئی بھی طالب علم یہاں سے نکل کر بڑی جگہوں سے کبھی مرعوب نہ ہوا اور اسے اپنے آپ کو مینج کرنے میں دیر نہ لگی اور آج الحمد للہ یہاں (مدرسہ عربیہ اشرف العلوم ہٹوابازار،بستی) کے فارغ التحصیل علماء ملک و بیرون ملک میں اپنے اپنے حلقہء شغل میں سرگرم عمل ہیں۔

علم وادب کا خاموش شناور:

          مولانا عبدالحلیم مظاہری قاسمی بلاشبہ مظاہرعلوم سہارنپور اور دارالعلوم دیوبند کے قدیم فضلاء میں سے تھے، وہاں کے اکابرین سے براہ راست فیض یاب ہوئے، اور تمام علوم وفنون پراچھی دسترس اورعبور رکھتے تھے، الحمد للہ آپ علم وادب کے خاموش شناور تھے مدارس اسلامیہ میں جہاں کہیں بھی رہے علم وادب سے وابستہ اور عربی درسیات سے لگے رہے، علم نحو،علم کلام،علم معانی،اور علوم بلاغت کی کتابیں بڑے ذوق وشوق سے پڑھاتے اور مطالعہ کااہتمام بھی کرتے  پابندئى اسباق کے ساتھ تکمیل نصاب اور مقدار خواندگی کی فکر رکھتے جب بھی ہم طلبہ کو پڑھاتے نہایت ہی انہماک یکسوء اور خاص تکیہ کلام کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کرتے کہ ہر طالب علم اکتسابی پوزیشن میں آجائے، آپ کہیں بھی رہے عالمانہ فاضلانہ وضع قطع کے ساتھ ممتاز نظر آتے، کسی قائد ملت کی معیت میں رہے توقائد، شعراء کی ہم نشینی میں رہے توشاعر اسی طرح علماء کے صفوں میں کھڑے نظر آئے توباصلاحیت عالم دین، اور اگر ممبر خطابت پر جلوہ افروز ہوئے توبے باک خطیب، یہ ہمہ جہتی خوبیاں آپ کے اندر موجودرہیں۔

          استاذ الشعراء مولانا مجیب بستوی صاحب صدر انجمن افکار ادب سمریاواں کے بقول: “مولانا مرحوم ایک اچھے قادر الکلام شاعر بھی تھے”، مولانا بستوی نے کہا کہ ہماری ترتیب شدہ کتاب ”ذکراسعد“جسمیں حضرت الاستاذ مولانا اسعد اللہ رحمۃ اللہ علیہ پردیگرشعراء اسلام کی طرح مولانا عبد الحلیم صاحب نے بھی منظوم خراج عقیدت پیش کی ہے، اور یہ آپکی شاعرانہ صلاحیت اور شعری مذاق کی شناخت اور دلیل ہے“۔ویسے اِس کے سوا مولانا کی اوربھی تخلیقات ہیں جو ناقدری کی نذر ہوگئیں اور وہ ریکارڈ میں نہیں صِرف یہی تخلیق،بیاد حضرت اسعد،کے عنوان سے”ذکر اسعد“میں محفوظ ہیں، جو افادہئ قارئین کیلئے پیش خدمت ہیں:

بیاد حضرت اسعد

از:  مولانا عبدالحلیم مظاہری قاسمی ؒ

بے رونقی شمع شبستان ہنر دیکھ

ہمدم میرے بے کیف صبا بادِ سحر دیکھ

خاموش فضا، رکتی ہوا، بدلا، قمر دیکھ

مدہوش فضا، اجڑا چمن، روتا شجر دیکھ

اجڑا ہوا دنیائے محبت کا نگر دیکھ

جو شعلہء انوار مظاہر تھا ابھی تک

جو خادم ابرار مظاہر تھا ابھی تک

جوا واقفِ اسرار مظاہر تھا ابھی تک

جو پیکر ایثار مظاہر تھا ابھی تک

اللہ کے گھر میں ہے وہ اللہ کا گھر دیکھ

الفاظ ومعانی کے خم وپیچ کا ماہر

پاکیزہ خیالات و کرامات کا شاعر

تھا وہ بخدا واقفِ نیرنگ مظاہر

تاریخ و ادب  اور تفاسیر کا ساحر

اس ہوش ربا سارے مناظر کو نظر دیکھ

اے نکہتِ گل ہائے عقیدت تیرے قرباں

اے راہبر راہ طریقت ترے قرباں

اے دین کی معروف حقیقت ترے قرباں

اے پیکر اخلاص و نیت ترے قرباں

اللہ کے لئے میری طرف وقتِ سحر دیکھ

تصویر تری حسن کا آئینہ رہی ہے

گفتار تری جیسے کہ ساغر میں ڈھلے مے

کردار کے مانند نہىں اور کوئی شی

اخلاص ترا مرا ترانہ ہے میری لے

کس جا پہ مجھے لائی مری راہ گزر دیکھ

اے میری تمنا کے اُفق اور اُجالے

دل ہے کہ نہیں آج سنبھلتا ہے سنبھالے

اے نیر تاباں ہوں مبارک ترے ہالے

دنیا سے رہے ہیں ترے انداز نرالے

لایا ہے حلیمؔ اپنی عقیدت کا گہر دیکھ

حوصلہ بخش ملی جذبہ:

مولانا عبدالحلیم مرحوم ملک کی سب سے بڑی ملی تنظیم جمعیۃ علما ہندسے وابستہ رہے، وابستگی کا عالم یہ رہا کہ انتقال سے تین برس پہلے جب راقم نے حضرت سے جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ اجلاس میں شرکت کے لئے دیوبند جانے کی درخواست کی توانہوں نے فرمایاکہ”مَیں پیدائشی جمعیتی ہوں“ بہر حال آمدورفت کا ٹکٹ نکال کر حضرت کی معیت میں سفر دیوبند کا اتفاق ہوا، اور خدمت کا موقع میسر ہوا، دوران سفر مولانا نے اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں اسلاف کے واقعات اورملفوظات سے ماحول کو لطف اندوز کیا، اور جمعیۃ کی تاریخ ساز تحریکوں سے روشناس کرایا۔

 احقر کو یادہے کہ ضلعی سطح پر جمعیۃ کے فلیٹ فارم سے جو بھی پروگرام،اجلاس ہوتے اورتحریکیں اٹھتیں مولانا ان میں ضرور بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے، اور اسے رو بہ عمل لانے کے لئے ضلعی جمعیۃ کے ذمہ داران کی معیت میں برسر مہم ہو تے، اور جمعیۃ علماء ہندکے اغراض ومقاصد سے لوگوں کو روشناس کراتے، خاص کر بموقعہ جمعہ ممبر خطابت سے حالات حاضرہ اورملت کے مسائل پر ضرور روشنی ڈالتے، جیسے…….ملک وملت بچاؤ تحریک،تحفظ شریعت وسنت،تحفظ حرم،یکساں سول کوڈ  مخالف کنونشن،تحریک اصلاح معاشرہ اور دیگر ملی عائلی مسائل ہیں جو ملت کی تاریخ میں محفوظ ہیں،چنانچہ خانہء خیال میں آج  بھی یہ منظر نامہ مُرتسم ہے کہ 26/فروری1988ء کو جمعیۃ علماء ضلع بستی کے زیر اہتمام سرزمین سمریاواں بازار پر تحفظ حرم کانفرنس کے عنوان سے ایک پروگرام منعقد کیا گیا،اس کی کامیابی کیلئے مولانا مرحوم نے ذمہ دارانِ جمعیۃ کی معیت میں ضلع کے مختلف مقامات اور مدارس کا دورہ کیا، معاشرہ میں کانفرنس کی اہمیت وافادیت اور اس کی ضرورت کا احساس دلایا، بلکہ آپؒ کے ہی کی تجویز اور رضامندی سے سماجی کارکن حاجی زین اللہ صاحب منیجر مدرسہ ہٹوابازار کو کانفرنس کی مجلس استقبالیہ کا صدر بنایا گیا، اور حاجی صاحب کی طرف سے بحیثیت نمائندہ مولانا نے خطبہء استقبالیہ پیش کیا۔ اب اس سے اندازہ ہوا کہ مولانا مرحوم واقعی حوصلہ بخش ملی جذبہ کے مالک تھے۔

مولانا تہاڑ جیل کے سلاخوں میں:

مولانا کے بڑے صاحبزادے مولانا عبدالعلیم (مبارک بھائی) نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ایک زمانہ تھاکہ ابا مرحوم جمعیۃ کے جانباز سپاہی  اوربے لوث والنٹیئر تھے،  1979ء میں ملک وملت بچاؤ تحریک میں شامل ہوئے، اور مولانا عبدالحفیظ رحمانی ؒ کے ہمراہ تیسرے جتھہ کے ساتھ تہاڑ جیل میں آہنی سلاخوں کے پیچھے رہے، مولانامرحوم کے صاحبزادہ کے ذریعہ معلوم ہواکہ: ابا نے دہلی سے بذریعہ رجسٹری ایک خط ارسال کیا تھا کہ یہاں کے حالات نہایت ناگفتہ بہ ہیں حکومت وقت کے تیور سخت ہیں، جبکہ بحمد اللہ ہمارے اور مجاہدین ملت کے بھی حوصلے بلند ہیں دارو رسن اور قید وبند کے لئے ہر ایک کمر بستہ ہے اس لئے آپ لوگ صبر وتحمل سے کام لینا آئندہ کیاہوگا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

چنانچہ مولانارحمانی رحمہ اللہ ملک وملت بچاؤتحریک کی کارگذاری یوں تحریرفرماتے ہیں ”جمعیۃ کے ذمہ داران اور قائد تحریک پر عجیب کیفیت طاری تھی، طرح طرح کے شکوک وشبہات تھے حکومت کاتیور کڑا تھا ہی، ادھرمجاہدین کے حوصلے بھی کچھ کمزورنہیں تھے سرفروشی کاولولہ ہر مجاہدمیں اس قدرتھا کہ اس کااندازہ لگانا مشکل تھا، ہرایک کے چہرہ پرمسرت وخوشی کی لہر دوڑ رہی تھی جیسے ہر مجاہد بیتاب ہوکہ کب ملک وملت کے تحفظ میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردیگا“۔ (تذکرہ فدائے ملت ۷۳۸)

تعارفی خاکہ:

مولانا عبد الحلیم مظاہری قاسمی ابن عبدالکریم کا قدوقامت درمیانہ،رنگت سپید،چھریرا بدن،پیشانی کشادہ،آنکھیں بڑی بڑی داڑھی اور سر کے بال گھنے  روشن چہرہ،شگفتہ رو، اور تبسم ریز ہونٹ والے تھے علماء،طلبہ اور عزیز واقارب کے قدر داں تھے۔آپکی سکونت اور وطن اصلی گرام چھپیا چھتونہ پوسٹ صالحپورضلع سنت کبیر نگر اترپردیش ہے۔مولانا مرحوم سمیت پانچ بھائی محمد نسیم،محمد وسیم، محمد شمیم، عبد الحکیم، عبد الحلیم اور دو بہنیں تھیں۔آپ كى اولاد میں مولانا عبد العلیم (مبارک بھائی) حافظ عبد العلی، حافظ عبد الولی،اور چار لڑکیاں ہیں،الحمد للہ ہرایک شادی شدہ ہیں،ماشاء اللہ اولاد واحفاد اور نبیران سے ہرا بھرا پورا ایک کنبہ ہے،فی الحال لب روڈ پر واقع گاؤں کے خانگی قبرستان میں آسودہ خواب ہیں۔

مولانا  كى شخصيت  تأثرات  كے آئينے مىں

تأثر: مولانا عبدالمنان آصف بستوی ساکن چھپیا چھتونہ

 مولانا مرحوم کی شخصیت متعلقین طلبہ , معاصر علماء اور اہم شخصیات کے نزدیک مسلَّم ہیں چنانچہ کچھ تأثرات ہدیۂ قارئین ہیں جو مقامی , صوبائ , ملکی اور غیر ملکی تأثرات پر مبنی ہیں

آپکے ایک ہونہار اکہتر سالہ شاگرد مولانا عبدالمنان آصف بستوی ساکن چھپیا چھتونہ سابق طالبعلم مدرسہ قصبہ مدن پور جنہیں محدث جلیل ابوالمأثر مولانا حبیب الرحمان الاعظمی رحمہ اللہ کا شرف تلمذ بھی حاصل ہے کہتے ہیں کہ ”مولانا عبد الحلیم ؒسے قصبہ مدنپور میں سن 1964 میں عربی وفارسی کی ابتدائی کتابیں مجھے بھی پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ھے“۔ ماشاء اللہ مولاناعبدالمنان آصف بستوی ایک حقیقت گو فی البدیہہ شاعر ہیں،انہوں نے اپنے استاذ گرامی مولانا عبد الحلیم ؒکی وفات سے متاثرہوکر نالہء  فراق کے عنوان سے جذباتی منظوم خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے مولانا کی سانحہء ارتحال کو شعلہء عشق وجنوں کی برودت سے تعبیر کیا، اور طالبان علوم نبوت کے لئے لمحہ فکریہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ساقی ومیکش نہ ہونے سے تعلیمی میکدہ سنسان پڑا ہوا ہے جو علمی دنیا میں ایک خلا ہے، بلکہ عقیدت مند شاعر نے اپنے نالہء فراق منظوم کلام میں اِس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ مرحوم کا علمی انہماک عشق وجنوں کے زمرے میں تھا، اوروہ علم و ہنر کے سدابہار گلشن تھے، جو اِن شاء اللہ مولانا موصوف کے لئے جنت الفردوس میں رسائى کا سبب بنے گا،آصف صاحب نے مولانا کی مفارقت کو رنج و غم کا عطیہ، اور پسماندگان کے لئے اشکبارآنکھوں کا تحفہ قراردیا، اور مرحوم کے حق میں قضاو قدرکے فیصلہ کوتسلیم کرتے ہوئے نالہء  فراق کا اظہار اپنے اشعار میں کچھ اس طرح کیا ہے۔

نا لہء فراق

درددل دردجگر آہ وفغاں لیکر گئی

کتنی ظالم ہے قضا درد نہا ں لیکر گئی

تحفہء غم اور چشمِ خو نچکاں دیکر گئی

سوزِدل، سوزِ جگر، سوزِ نہاں لیکر گئی

شعلہء  عشق وجنوں یاں سرد ہے تیرے بغیر

سوزشِ عشق وجنوں سوئے جَناں لیکر گئی

میکدہ سنسان ہے، ساقی نہیں میکش نہیں

نشہء جام و سبو جانے کہاں لیکر گئی

شوخئ و ناز مبارک دست شفقت وہ ترا

گلشن علم وہنر برقِ تپاں لیکر گئی

نوحہ گر ہیں تیری رحلت پر ابھی تیرے رقیب

وہ تدبر اور وہ زورِ بیاں لیکر گئی

نازاٹھایا اپنوں اور غیروں کا جس نے عمر بھر

اپنوں اور غیروں کا وہ دردِ نہاں لیکر گئی

قبر پرتیری خدا کی رحمتیں ہوں تا ازل

چھوڑ کر آصف کو تنہا نکتہ داں لیکر گئی

تأثر: مولانا عبدالغفار صاحب مظاہری(چھپیا چھتونہ)

اسی طرح آپ کے ستر سالہ دوسرے شاگرد مولانا عبدالغفار صاحب مظاہری(چھپیا چھتونہ)سابق متعلم مدرسہ مدنپور ضلع دیوریا سے جب یہ راقم رابطہ میں آیا، اور مولانا مرحوم کے بابت آگاہی کا آرزو مند ہوا تو موصوف اپنے مشاہدات وتلمذات کے شواہد سے اسطرح عقیدتمندانہ گویاہوئے کہ مولانا مرحوم جب انجمن اسلامیہ      گور کھپور میں مدرس تھے تو اْس زمانہ میں مولانا سید عبدالحنان صاحب ساکن قصبہ مدن پور ضلع دیوریا جامع مسجد گورکھپور شہر کے امام وخطیب تھے، امام صاحب مولانا مرحوم کی رسوخِ علمی اور اْن کے تدریسی اور تعلیمی معیاریت سے مطمئن ہوکراپنے ہمراہ مدرسہ مدن پور لائے، اور آپ کا تقرر ہوا، وہاں کے طلبہ آپکی درسیات سے مطمئن اوربڑے بوڑھے آپ کے اصلاحی مشن سے خوب فیضیاب ہوئے۔

تأثر: مولانا سلامت اللہ صاحب دیوریاوی استاذ مدرسہ مدنپور، ضلع دىوريا

راقم بروقت مدرسہ مدنپور کی جغرافیائی تعلیمی اور انتظامی نوعیت سے نابلد تھا، لیکن کوشش کے بعد معلوم ہوا کہ مدرسہ ماشاء اللہ آج تک روبہ ترقی ہے، اور مولانا مرحوم کے زمانہء تدریس کی علمی کارگذاریاں آج بھی زبان زد ہیں، وہاں کے ایک سینئراستاذ مولانا سلامت اللہ صاحب دیوریاوی نے اپنے تأثراتی تحریر میں یہ قلمبند کیا ہے كہ: ”آج سے تقریباً پچاس سال قبل حضرت مولاناسید عبدالحنان صاحب مظاہری مدنپوری سابق امام جامع مسجد گورکھپور کے ہمراہ حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب قصبہ مدنپور ضلع دیوریا یوپی میں بغرض درس و تدریس تشریف لائے تھے، اُسوقت پورے قصبہ میں دینی تعلیم کے لئے صرف ایک چھوٹا سا مکتب تھا جسکا پورا نام مدرسہ عربیہ انجمن اسلامیہ قصبہ مدنپور ہے، اس میں حضرت والا کی تقرری ہوئی حضرت (مولانا مرحوم) عین جوانی میں مدنپور تشریف لائے، جہاں رسم ورواج اور آپسی اختلافات زوروں پرتھا، لیکن حضرت نے اپنی فہم وفراست اور خودداری کو رو بہ عمل لاتے ہوئے اتنی خوش اسلوبی سے تعلیمی و اصلاحی کام کیا کہ شاید اس کے نتیجے میں آج یہ چھوٹاسا مکتب ایک بڑے ادارے کی شکل اختیار کرچکا ہے، اور تقریباً اس قصبہ میں سولہ مسجدیں آباد ہوچکی ہیں،حضرت والاگونا گوں اوصاف وخصوصیات سے متصف تھے بالخصوص سادگی انسانی ہمدردی اورنام کے اعتبار سے حلم اور بردباری اُنکے اندر  کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی دعا ہے کہ رب کریم حضرت کوجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام اور جملہ پس ماندگان کو صبر جمیل نصیب فرمائے۔

تأثر: مولانا ظہیر انوار قاسمی مہتمم دار العلوم الاسلامیہ بستی

دار العلوم الاسلامیہ بستی کے مہتمم مولانا ظہیر انوار قاسمی نے مولانا مرحوم کی شخصیت سے متاثر ومتعارف ہوکر اپنا تأثر اسطرح پیش کیا ہے: ”حضرت مولانا عبدالحلیم مظاہری قاسمی ؒسے مىں اپنے زمانہء طالب علمی سے ہی واقف تھا کہ وہ ایک جید الاستعداد عالم دین ہیں، مگر وہ جب شہربستی کے مدرسہ خیر العلوم میں استاذ ہوئے تو دارالعلوم الاسلامیہ بستی میں ان کا آنا جانا ہوتا رہا، بے تکلفانہ ملاقات کا موقع ملا، مولانا مرحوم ایک قابل احترام عالمِ دین وجیہ اورخوبصورت شخصیت کے مالک تھے، مولانا خاندانی وجاہت کے ساتھ ساتھ جرأتمند بھی تھے۔1997ء میں دارالعلوم الاسلامیہ بستی کے ساتھ دریاں خاں محلہ کی اْس مسجد کا ایک قضیہ نامرضیہ پیش آیا، جِسے اہالیان محلہ کی درخواست پر مدرسہ نے اپنے مصارف سے ازسرِنو تعمیر کرائی تھی پھر کچھ شرپسندں نے مسلکی اختلاف کو ہوا دے کر اُسے متنازعہ بنادیا، اور بات انتظامیہ تک پہونچ گئی پھر انتظامیہ کے مشورہ سے طے ہوا کہ مدرسہ خیر العلوم بستی کے استاذ مولانا عبدالحلیم صاحب کو امام نامزد کیا جائے، چنانچہ وہ امام مقرر ہوئے اور انتہائی خلفشار کے زمانہ میں بھی مسجد کی امامت کرتے رہے، اور شرپسندوں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود مولانا نے جرأت سے کام لیا، اور کبھی خوفزدہ نہ ہوئے،مولانا مرحوم مظاہر علوم سہارنپور اور دارالعلوم دیوبند دونوں درسگاہوں کے فارغ التحصیل فضلاء میں سے تھے، اور وہاں کے اکابرین علماء اساتذہ سے فیضیاب تھے بستی کمشنری کے موقر اور اکابرین علماء میں آپ کا شمار ہوتا تھا، جید الاستعداد اور بافیض استاذتھے، نازک طبع ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ہی غیرت مند اور خوددار تھے، اپنی مخصوص افتاد طبع کی وجہ سے بہت کم مدارس ایسے ہوں گے جہاں مولانا مرحوم کی ملازمت کا دورانیہ لمبا رہا ہو، مولانا نے کسی مدرسہ سے ملازمت ختم کی تو مجھ سے ذکر کیا کہ میری خواہش ہے کہ عمر کے آخری حصہ میں کس مدرسہ سے وابستگی رہے تو اچھا ہوتا،  پھر میرے ہی مشورہ سے ضلع بستی کے متھولی مدرسہ سے منسلک ہوگئے، اوروہاں خدمت انجام دینے لگے، وہاں کے دوران قیام دارالعلوم الاسلامیہ بستی برابر آتے جاتے رہے، بے اطمینانی کا اظہار بھی کرتے رہے، لیکن مدرسہ سے جُڑے رہے۔

رہے نام اللہ کا دنیا میں جو بھی آیا ہے اسے جانا ہے،دنیا کی ہر حقیقت شعلہء مستعجل ہے، یہ دنیا سچ میں سراے فانی ہے مولانا کو اس فانی دنیا سے بقاء دوام کی طرف رخصت ہونا تھا بالآخر انہوں نے ہم سب کو خیرباد کہا اللہ ان کو انبیا ء صدیقین اور شہداء صالحین کی صحبت عطا فرمائے، اور ان کی دینی تعلیمی خدمات کو ان کے لئے صدقہء جاریہ بنائے۔

ع حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

تأثر: مولانا شبیر احمد مظاہری پوکھربھٹوابستی

رشیدیہ ریفارم سوسائٹی پوکھربھٹوابستی کے صدرمولانا شبیر احمد مظاہری سابق استاذ جامعہ خیر العلوم بستی جنہیں جامعہ میں مولانا عبدالحلیم مرحوم کی معیت میں درس وتدریس کا شرف حاصل رہا، وہ مرحوم کی فکر ونظر اوران کے کردار وگفتار سے متأثر ہوکر کچھ اسطرح قلم نگار ہیں: ”خیر العلوم بستی میں مولانا مرحوم کی رفاقت نے جو نمایاں پہلو اجاگر کیا وہ ہم جیسے اصاغر کے لئے قابل تقلید، ہیں چنانچہ خوش مزاجی، خندہ پیشانی،تواضع انکساری،قناعت پسندی،حق گوئی و بے باکی، اور علماء اکابرین کے تئیں عقیدتمندی جیسی غیر معمولی خوبیاں مولانا کی خمیر میں رچی بسی تھیں، جن کے بل بوتے مرد آہن بن کر حالات سے آپ کبھی نہ گھبرائے، بلکہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بارعب خوش مزاجی کے ساتھ بے باک زندگی گذارنے پرآمادہ رہے، اور کبھی مایوسی اور بے صبری کا اظہار نہ کیا،مولانا مرحوم قدیم دور کے اکابرین ملت کے فیض یافتہ فاضل نبیل شخصیت کے حامل تھے، کبھی کبھی اپنی نِجی مجلسوں میں اربابِ دعوت وعزیمت،علماء کے ایمانی وروحانی تذکروں سے ہمارے قلوب کو جَلا بخشتے، اوراپنے خاص انداز وگفتار سے محفل کو پُر لطف اور پُرمغز بنادیتے،  اسی طرح مولانامرحوم کو طریقہء درس وتدریس اور انتظامی امور کے متعلق ممتاز اصابت رائے کا ملکہ حاصل تھا،  جِسے ہم اسٹاف آپ کے مشورہ کی قدر اورتائید بھی کرتے،مولانا شروع سے درسیات سے منسلک اور مگن رہے اور یہ وابستگی زندگی کے آخری پڑاؤتک برقرار رہی، یہی وجہ ہے کہ وقت کا قلم آپ کو تذکرہ علماء ضلع بستی اترپردیش کی مشمولات فہرست میں شامل کرنے پر فخر محسوس کر رہا ہے،جس کے لئے میں علماء نواز قدر داں حضرات کی خدمت میں ہدیہء تبریک پیش کرتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔(آمین)

تأثر: مفتی محمد ہارون قاسمی حمیدی کرناٹک

مدرسہ مفتاح العلوم کتور ضلع بلگام صوبہ کرناٹک کے بانی ومہتمم مفتی محمد ہارون قاسمی حمیدی ایک صاحب نسبت،فاضل نبیل اور عالم دین ہیں، بلکہ ہمارے ہم درس، مخیر مدرسہ عربیہ اشرف العلوم ہٹوابازار بستی یوپی کے فارغ التحصیل، اور مولانا مرحوم کے حاضر باش خادم خاص ہونہار شاگرد ہیں۔مفتی صاحب مولانا مرحوم کی انتظامی انصرامی اورتربیتی خدمات سے متأثر ہوکر اس طرح رقمطراز ہیں:”میں نے اپنے استاذ مرحوم حضرت مولانا عبدالحلیم قاسمی مظاہریؒ کوبہت قریب سے دیکھا ہے، اللہ تعالیٰ نے حضرت کو بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا،آپ ایک بہترین مہتمم باصلاحیت منتظم تھے مدرسہ کے بڑے خیر خواہ اور ہمدرد تھے طلبہ کی تعلیم وتربیت پر خاص توجہ فرماتے تھے، طلبہ کی نماز وتلاوت اور اذکار ماثورہ کی پابندی پر خصوصی توجہ دیتے تھے، کسی بھی چیز کو بے ترتیب دیکھ کر بے چین ہوجاتے تھے،مہمان نوازی کا بھی اچھا ذوق تھا خصوصاً بچوں کے گارجینس اورمہمان علماء کرام کی آمد پر آپ کاضیافتی انتظام قابل رشک ہوتا، اسی طرح پڑوس کے مدرسہ دانوکوئیاں کے نا ظم مولانا حلیم اللہ مظاہری رحمہ اللہ اور دیگر بڑے ذمہ دار علماء کی تشریف آوری سے مولانا مرحوم خوب خوش ہوتے، اور باہمی گفت وشنید سے خوب لطف اندوز ہوتے، اور اُن سے رائے مشورہ کرتے۔حضرت مرحوم کو پان کابڑا ذوق تھا پان کا بیڑا بنانا میرے ہی ذمہ تھا،چونکہ احقر حضرت کاخادم خاص تھا، شب و روز رہائشی و دفتری خدمات اورچائے پان تیارکرنا یومیہ وظیفہ تھا جو بندۂ ناچیز کے لئے بڑی سعادت کی بات تھی حضرت کواحقر پربڑا اعتماد تھا، اکثر اہتمام کی چابی میرے سپرد کردیا کرتے تھے۔ مختصر یہ کہ درس وتدریس،انتظام وانصرام اور مدرسہ،طلبہ،علماء سے انسیت ومحبت دراصل مولانا مرحوم کی قابل تقلید وتشویق جذبات وکردار کا ثمرہ ہے،جس کا احساس واقرار تحدیث نعمت کے طور پر گاہ بہ گاہ ہواکرتاہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی حضرت الاستاذ رحمہ اللہ کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین

یہ چند سطریں اپنے ہم درس محب مکرم حضرت مولانا قیام الدین صاحب قاسمی کے حکم پر بعجلت تمام لکھ دی گئیں ہیں۔

تأثر: مولانا خاطر الزماں ندوی دمام سعودیہ عربیہ

حضرت مولانا عبد الحلیم مظاہری قاسمی رحمہ اللہ مادر علمی مدرسہ عربیہ اشرف العلوم ھٹوابازار بستی یوپی کے ایک باکمال شفیق مہتمم تھے اپکا دور اہتمام قابل رشک تھا بروقت اساتذۂ کرام اور ہمدرس احباب طلبۂ مدرسہ آپکے حسن انتظام سے مرعوب و مسرور رہتے ہماری ابتدائ تعلیم وتربیت مدرسہ ہٹوابازار میں مولانا مرحوم کے سرپرستی اور نظامت میں ہوئ مولانا بڑے ہی رحمدل مربی اور شفیق تھے مدرسہ سے نکلنے کے بعد صرف دو تین مرتبہ ہی اُن سے ملنے کا موقع ملا جب ہی اُن سے ملاقات ہوتی تھی تو یہ محسوس ہی نہیں ہوتاتھاکہ اتنا عرصہ ہوگیا مدرسہ سے نکلے ہوئے مدرسہ کی ابتدائ دنوں کی وہی یاد تازہ ہوجاتی تھیں جو مولانا مرحوم کی شاہکار اھتمام معیاری تعلیمات اور تربیتی نظام کی شاندار ماضی تھیں اللہ تعالی سے دعاہے کہ مولانا کو جنت الفردوس عطا فرمائے اہل خانہ اور اقارب کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

سانحہء وفات:

          مولانا کا سانحہ وفات 12/نومبر 2018ء بروز دوشنبہ پیش آیا، یقینا یہ حادثہ راقم کے لئے باعث رنج والم ہی نہیں بلکہ ایک تاریخی پچھتاوا ثابت ہواکہ ایام مرض میں عیادت سے محرومی رہی، اور بوقت وفات عذرمعقول کی وجہ سے جنازہ میں شرکت نہ کرسکا، البتہ بعد میں مرقدپر فاتحہ خوانی کے لئے حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔

واقعہ یوں ہواکہ اسی دوران احقر ایک تکلیف دہ بیمای (پتھری کے مرض) میں مبتلا تھا اور لکھنؤ کے ایک پرائیویٹ نرسنگ ہوم: “ہِم سٹی ہاسپٹل” میں آپریشن کے لئے سفر در پیش تھا اورعلاج ومعالجہ کا یہ سلسلہ کئی ہفتوں تک جاری رہا،الحمد للہ شفایاب ہوا، اسکے بعد مولانا کے بڑے صاحبزادے سے بذریعہ فون تعزیت مسنونہ کی توفیق ہوئی، معتبر ذرائع سے معلوم ہوا کہ جنازہ میں زبردست قابل رشک بھیڑ تھی، علماء،طلبہ،سیاسی، سماجی حضرات سمیت عوام کے ایک بڑے طبقہ نے اپنی نمناک آنکھوں سے مولانا کو سپرد خاک کیا، اور مرحوم کے حق میں دعاء مغفرت کی۔

 راقم بھی دعاگو ہے کہ اللہ رب العزت آپ پر اپنے نیک بندوں جیسی رحمت برسائے، آپ کو اپنی جنت میں انبیاء،شہداء،صالحین اورصدیقین کے ساتھ جگہ عطا فرمائے۔ آمین۔ اسی طرح آسمان آپ کی قبر کو شبنم رحمت سے تر کرے اور وہاں کی گل وگلزار اسے معطر اور حفاظت کرے۔  

آسماں تىرى لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزۀ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply