hamare masayel

عشاء فاسد ہونے کی صورت میں وتر اور سنتوں کے اعادہ کا حکم

(سلسلہ نمبر: 674).

عشاء فاسد ہونے کی صورت میں وتر اور سنتوں کے اعادہ کا حکم

سوال: مسافر نے بھول سے عشاء کی نماز چار رکعت پڑھا دی مصلیان نے اپنی سنن نوافل و وتر بھی پڑھ لی۔ بعد میں امام کو یاد آیا کہ وہ مسافر تھا۔ اب اعادہ صرف فرض نماز کا ہوگا یا سنن، نفل یا وتر وغیرہ کا بھی بینوا توجروا۔

المستفتی: طارق شمسی اٹاوہ ۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: اگر امام نے دو رکعت پر قعدہ کیا تھا تو امام کی نماز کراہت کے ساتھ ہوگئی؛ لیکن مقتدیوں کی نماز نہیں ہوئی۔

اس لئے امام تو وتر کا اعادہ نہیں کرے گا لیکن مقتدی حضرات کے بارے میں اختلاف ہے صاحبین کے یہاں چونکہ وتر بھی سنت ہے اور عشاء کی سنتیں فرض کے تابع ہیں لہذا صرف فرض نماز نہ ہونے کے صورت میں بھی سنت اور وتر کا اعادہ کریں گے۔

امام صاحب کے نزدیک وتر واجب ہے لیکن عشاء اور وتر میں ترتیب بھی واجب ہے مگر بھول چوک کی صورت یہ ترتیب ساقط ہوجاتی ہے، چونکہ وتر میں مفتی بہ قول امام صاحب کا ہے اس لئے مقتدیوں کو بھی وتر کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، البتہ سنت کا اعادہ کریں گے۔

الدلائل

فلو أتم مسافر إن قعد في القعدة الأولیٰ تم فرضه ولکنه أساء. (الدر المختار).

 فلو أتم المقیمون صلاتھم معه فسدت لأنه اقتداء المفترض بالمتنفل. (رد المحتار: 2/ 130، باب صلوة المسافر).

وأما بيان وقته (الوتر)، فالكلام فيه في موضعين: أحدهما في بيان أصل الوقت ، وفي بيان الوقت المستحب. أما أصل الوقت فوقت العشاء عند أبي حنيفة إلا أنه شرع مرتبا عليه حتى لا يجوز أداؤه قبل صلاة العشاء مع أنه وقته لعدم شرطه وهو الترتيب إلا إذا كان ناسيا كوقت أداء الوقتية وهو وقت الفائتة لكنه شرع مرتبا عليه، وعند أبي يوسف  ومحمد والشافعي وقته بعد أداء صلاة العشاء وهذا بناء على ما ذكرنا أن الوتر واجب عند أبي حنيفة،  وعندهم سنة، ويبنى على هذا الأصل مسألتان: إحداهما أن من صلى العشاء على غير وضوء وهو لا يعلم ثم توضأ فأوتر ثم تذكر أعاد صلاة العشاء بالاتفاق ولا يعيد الوتر في قول أبي حنيفة ، وعندهما يعيد. ووجه البناء علی ھذا الاصل أنه لما کان واجبا عند أبي حنیفة کان أصلاً بنفسه فی حق الوقت لاتبعاً للعشاء …. إلا أن تقدیم أحدهما علی الآخر واجب حالة التذکر فعند النسیان یسقط. (بدائع الصنائع: 1/ 272، باب الوتر).

توضأ وصلى السنة والوتر ثم تبين أنه صلى العشاء بغير طهارة فعنده يعيد العشاء والسنة دون الوتر لأن الوتر فرض على حدة عنده، وعندهما يعيد. (البناية شرح الهداية: 2/ 721).

والله أعلم.

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.

15- 11- 1442ھ 27- 6- 2021م الأحد.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply