hamare masayel

وراثت کا مسئلہ، وراثت میں والدین کا حصہ، اسلام میں عورت کا حق وراثت

(سلسلہ نمبر: 510)

وراثت کا مسئلہ

سوال: کیا فرماتے مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں:

 کہ علیم اللہ صاحب کی شادی سعید النساء سے ہوئی تھی اور ان سے ایک لڑکا ہوا، ابھی لڑکے کی عمر تین سال تھی کہ سعید النساء کا انتقال ہوگیا انھوں ترکہ میں آٹھ بیگھہ زمین چھوڑی اور ورثہ میں ماں شوہر اور بیٹا موجود تھے، نیز علیم اللہ صاحب نے اپنی ساس کی موجودگی میں دوسری شادی بھی کرلی اور اس دوسری بیوی سے چار بیٹے اور چھ بیٹیاں ہوئیں، اور انکی پہلی ساس کے پاس بھی آٹھ بیگھہ زمین تھی تو انھوں نے علیم اللہ (داماد) کو بلا کر کہا کہ میرا آدھا حصہ تم لے لینا اور آدھا میرے نواسے سلیم اللہ کو دیدینا اس کے بعد علیم اللہ صاحب نے اپنی پہلی بیوی اور ساس کی سولہ بیگھہ جائیداد اڑتالیس ہزار میں فروخت کرکے دوسرے مقام پر دس بیگھہ زمین خریدی انکے بیٹے سلیم اللہ کی بھی شادی ہوگئی، اور اب وہ بٹوارے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو علیم اللہ صاحب کہہ رہے ہیں کہ بٹوارہ پانچ حصوں میں برابر ہوگا جس میں ہمارے دوسری بیوی سے چاروں بچے برابر کے حقدار ہوں گے، اور سلیم اللہ کو اس پر اعتراض ہے ان کا کہنا ہے کہ نانی کے جائیداد میں آدھے کا اور ماں کی جائیداد میں بارہ حصہ کرنے کے بعد سات اور کچھ زیادہ حصوں کا حقدار ہوں پہلے وہ دیدو پھر بقیہ میں پانچ حصے کرکے ایک حصہ مجھے اور حصے بھائیوں کو دیدو۔

دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا سلیم اللہ کا یہ مطالبہ شرعی رو سے درست ہے یا نہیں اگر درست ہے۔ تو سلیم اللہ کے کل کتنے حصے ملیں گے۔

     المستفتی: انعام اللہ، گونڈہ، یوپی۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: صورت مسئولہ میں علیم اللہ کا شرعی حق اپنی بیوی کی متروکہ آٹھ بیگھہ زمین کا صرف چوتھائی حصہ ہے۔

اسی طرح ان کی ساس نے اپنی آٹھ بیگھہ زمین کا آدھا دینے کی جو بات کی تھی، اس پر علیم اللہ نے اگر ان کی زندگی میں قبضہ کرلیا تھا تو یہ چار بیگھہ زمین بھی علیم اللہ کی ہوگئی، اور اگر ان کی زندگی میں قبضہ نہیں ہوا تو ان کی ساس کی طرف سے یہ وصیت ہوگی اور ان کے وارث کی اجازت کے بغیر تہائی سے زیادہ میں وصیت نافذ نہیں ہوگی، یعنی علیم اللہ کو اپنی ساس کی زمین کا تہائی حصہ ملے گا، اس کے علاوہ پر علیم اللہ اور ان کی دوسری بیوی کے بچوں کا شرعاً کوئی حق نہیں ہے، یعنی علیم اللہ کو اپنی بیوی کے آٹھ بیگھہ کا چوتھائی، اور اور اپنی ساس کے آٹھ بیگھہ میں سے تہائی حصہ ملے گا بقیہ تمام ان کے پہلی بیوی کے لڑکے کا ہوگا۔

الدلائل

قال الله تعالى: ي﴿َا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا﴾ (النساء: 29).

وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اسمعوا مني تعيشوا، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، إنه لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه. (مسند الامام أحمد، رقم الحديث: 20695).

ولا یتم حکم الھبة إلا مقبوضة و یستوی فیه الأجنبي والولد إذا کان بالغا. (الفتاوى الهندية: 4/ 377).

(وتجوز بالثلث للأجنبي) عند عدم المانع (وإن لم يجز الوارث ذلك لا الزيادة عليه إلا أن تجيز ورثته بعد موته). (الدر المختار مع الرد: 6/ 650).

هذا ما ظهر لي والله أعلم وعلمه أتم وأحكم.

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.

3- 3- 1442ھ 21- 10- 2020م الأربعاء

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply