بے وضو ہونے کی حالت میں قرآن کی کمپوزنگ

جنابت اور بے وضو ہونے کی حالت میں قرآن کی کمپوزنگ

  • Post author:
  • Post category:طہارت
  • Post comments:0 Comments
  • Post last modified:January 18, 2023
  • Reading time:1 mins read

جنابت اور بے وضو ہونے کی حالت میں قرآن کی کمپوزنگ

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی، جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو۔

  جنابت کی حالت میں قرآن پاک پڑھنا بھی ممنوع ہے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

 كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرئنا القرآن مالك يكن جنبا (سنن الترمذي: 146)

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کے علاوہ ہر حال میں ہمیں قرآن پڑھایا کرتے تھے۔

 اور انھیں سے منقول ایک روایت میں ہے:

  لا يحجبه عن القرآن شيء ليس الجنابة (سنن أبي داود: 229)

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جنابت کے علاوہ کوئی چیز قرآن کے پڑھنے سے نہیں روکتی تھی۔

 گویا کہ جنابت کی وجہ سے ناپاکی کا اثر منہ اور ہاتھ دونوں تک پھیل جاتا ہے اس لئے اس حالت میں قرآن پڑھنا اور چھونا دونوں ممنوع ہے اور بے وضو ہونے کی صورت میں ناپاکی کا اثر صرف چھونے تک محدود رہتا ہے اس لئے ہاتھ لگائے بغیر تلاوت جائز ہے ۔اور دونوں صورتوں میں اسے براہ راست چھونا ناجائز ہے البتہ کسی علاحدہ غلاف وغیرہ کےذریعے  اسے ہاتھ لگانے میں کوئی حرج نہیں  اس لئے اگر  اسکرین پر ہاتھ نہ لگے تو جنابت اور بے وضو ہونے کی حالت میں کمپوزنگ درست گرچہ بہتر یہ ہے کہ مکمل طور پر پاکی کی حالت میں کمپوزنگ کی جائے اور جنابت و بے وضو ہونے کی حالت میں کمپوزنگ سے احتیاط کیا جائے[1]۔

ترجمہ قرآن کو بے وضو ہاتھ لگانا

 قرآن کریم کی ترجمے کو خواہ وہ کسی بھی زبان میں ہوں بے وضو ہاتھ لگانا مکروہ ہے کیونکہ اس کے ذریعے قرآن کے معانی کی ترجمانی ہوتی ہے اس لئے اس کا احترام بھی مطلوب ہے۔[2]


حوالاجات

[1]  ولا تکرہ کتابة قرآن والصحیفة أو اللوح علی الأرض عند الثاني خلافاً لمحمد، وینبغي أن یقال: إن وضع علی الصحیفة ما یحول بینھا وبین یدہ یوٴخذ بقول الثاني وإلا فبقول الثالث، قاله الحلبي (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطھارة، ۳۱۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قوله: ”خلافاً لمحمد“: حیث قال: أحب إلي أن لا یکتب ؛ لأنه في حکم الماس للقرآن ، حلیة عن المحیط، قال في الفتح: والأول أقیس؛ لأنه في ھذہ الحالة ماس بالقلم وھو واسطة منفصلة فکان کثوب منفصل إلا أن یمسه بیدہ ۔ قوله: ”وینبغي الخ“: یوٴخذ ھذا مما ذکرنا عن الفتح (رد المحتار)، قولہ: ”علی الصحیفة“: قید بھا؛لأن نحو اللوح لا یعطی حکم الصحیفة؛ لأنه لا یحرم إلا مس المکتوب منه،ط (المصدر السابق)، ثم الحدث والجنابة حلا الید فیستویان في حکم المس، والجنابة حلت الفم دون الحدث فیفترقان في حکم القرء ة (الھدایة، کتاب الطھارة، باب الحیض والاستحاضة، ۱: ۶۴، ط: المکتبة الرشیدیة، کوئتة، باکستان).

[2]  ولو كان القرآن مكتوبا بالفارسية يكره لهم مسه عند أبي حنيفة وكذا عندهما على الصحيح (الهندية 20/1)

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply