ٹرانس جینڈر سے نکاح

ٹرانس جینڈر سے نکاح Wedding With Transgender In Urdu

  • Post author:
  • Post category:نکاح
  • Post comments:0 Comments
  • Post last modified:January 13, 2024
  • Reading time:2 mins read

ٹرانس جینڈر سے نکاح

سرجری اور دواؤں  کے ذریعے جنس تبدیل کرانے والے کو ٹرانس جینڈر (Transgender)کہا جاتا ہے جیسے کہ مرد، عورت یا عورت، مرد بن جائے۔

اس کے مقابل ایک دوسری اصطلاح Intersex ہے، جو Hermaphroditeبھی کہلاتی ہے۔ یہ دونوں الفاظ  ان افراد کے لیے مخصوص ہیں، جو پیدایشی نقص کے حامل ہوتے ہیں۔ان کو بوقت پیدایش لڑکا یا لڑکی کے طور پر شناخت نہیں کیا جاسکتا۔ ان کو ہیجڑہ یا ’مخنث‘ کہا جاتا ہے۔

اسلامی نقطۂ نظر سے جنس کی تبدیلی اللہ کی بناوٹ کو بدلنے کے دائرے میں داخل ہے جو ایک شیطانی عمل ، فطرت سے بغاوت ،قابل لعنت اور حرام ہے ۔چنانچہ قرآن حکیم میں ہے:

{فِطْرَتَ الله الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْها لا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ الله} [سورۃ الروم:30]

اللہ کی بنائی ہوئی اس فطرت پر چلو جس پر اس نے تمام لوگوں کو پیدا کیا ہے۔  اللہ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔

{وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ الله} [سورۃ النساء:119]

(شیطان نے کہا)اور میں انہیں راہ راست سے بھٹکا کر رہوں گا، اور انہیں خوب آرزوئیں دلاؤں گا، اور انہیں حکم دوں گا تو وہ چوپایوں کے کان چیر ڈالیں گے، اور انہیں حکم دوں گا تو وہ اللہ کی تخلیق میں تبدیلی پیدا کریں گے۔

اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’لعن الله الواشمات والمستوشمات، والنامصات والمتنمصات، والمتفلجات للحسن، المغیرات خلق الله. (صحيح البخاري: 5931، صحيح مسلم: 2125)

اللہ کی لعنت ہو گودنے اور گودوانے والیوں پر، بھؤں کے بال کو نکالنے اور نکلوانے والیوں پر اور خوبصورتی کے لئے دانتوں میں فاصلہ پیدا کرنے والیوں پر جو اللہ کی بناوٹ میں تبدیلی کرنے والیاں ہیں۔

اور حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے:

لعن النبي صلى الله عليه وسلم المخثنين من الرجال والمترجلات من النساء. (صحيح البخاري: 5886)

نبی کریمﷺ  نے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مخنث مردوں پر اور مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے۔

اور حضرت عبداللہ بن عمرو سے منقول ہے:

سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ليس منا من تشبه بالرجال من النساء ولا من تشبه بالنساء من الرجال (مسند  أحمد: 6875)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا کہ جو مرد عورتوں کے ساتھ اور جو عورت مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

اور حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے:

 قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:  ثلاثه لا ينظر الله عزوجل إليهم يوم القيامه العاق لوالديه والمرأۃ المترجلة والديوث. (سنن النسائي: 2562، مسند أحمد: 6180)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی قیامت کے دن تین لوگوں کی طرف نظر رحمت نہیں کریں گے والدین کا نافرمان وہ عورت جو مردوں کی مشابت اختیار کرے اور دیوث۔

 علامہ عبدالرحمن مبارک پوری  لکھتے ہیں کہ یعنی وہ مرد جو لباس،خضاب ،آواز ،صورت و ہیئت، گفتگو اور تمام حرکات و سکنات میں عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔ امام نووی کہتے ہیں کہ مخنث کی دو قسمیں ہیں ایک پیدائشی مخنث جو لباس، گفتگو اور حرکات میں بتکلف عورتوں کی طرح بننے کی کوشش نہیں کرتا اس شخص پر نہ تو کوئی گناہ ہے اور نہ سزا کیونکہ وہ معذور ہے ۔ دوسرا وہ ہے جو بتکلف عورتوں کے طور طریقے ،حرکات و سکنات اور گفتگو اور لباس اختیار کرتا ہے یہ شخص لائق مذمت ہے (تحفة الأحوذي: 57/8)

اور ظاہر ہے کہ محض مشابہت کی وجہ سے اس درجہ سخت وعید ہے تو یقینی طور پر جنس کی حقیقت تبدیل کرنے پر اس سے زیادہ سخت وعید ہوگی ۔

یہی حکم اس وقت بھی ہے جب کسی میں مرد وعورت دونوں کی علامتیں ہوں لیکن ان میں سے کسی ایک جنس کی علامت غالب ہو اور وہ غالب علامت کے خلاف تبدیلی کرنا چاہے مثلاً مرد کی علامت غالب ہو لیکن وہ عورت بننا چاہے یا عورت کی علامت غالب ہو اور وہ مرد بننا چاہے۔

اور اگر دونوں علامتیں برابر ہوں اور دوا علاج کے ذریعے کسی ایک جنس کے مطابق کرنا چاہے یا غالب علامت کا لحاظ کرتے ہوئے مغلوب علامت کو ختم کرنا چاہے مثلاً کسی میں مرد کی علامتیں غالب ہیں لیکن اس کے سینے کا ابھار عورتوں کی طرح ہے اور وہ اسے ختم کرنا چاہے تو اس کی اجازت ہے کیونکہ یہ ایک عیب اور مرض ہے جسے علاج کے ذریعے زائل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اور جس جنس کی علامات غالب ہوں یا علاج کے بعد  جو جنس واضح طور پر غالب آجائے اسی کے احکام لاگو ہونگے۔

اسی طرح سے جنس تبدیل کرنا گرچہ حرام ہے لیکن اگر کوئی ایسا کرلے اور جنس مخالف کی ضروری خصوصیات اس میں پیدا ہوجائیں تو اس پر تبدیل شدہ جنس کے احکام نافذ ہونگے یعنی کوئی مرد عورت بن جائے اور اس میں عورتوں کی لازمی خصوصیات و کیفیات پیدا ہوجائیں تو اس پر عورت کے احکام نافذ ہونگے اور  کسی مرد کے لئے اس سے نکاح کرنا جائز ہوگا ۔گرچہ ایسی عورت سے نکاح کرنا کراہت سے خالی نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں ایک طرح سے اس حرام عمل کی حوصلہ افزائی ہے ۔چنانچہ فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں ہے:

فتوی نمبر : 144105200398

بہ ذریعہ سرجری جنس کی تبدیلی کی صورت میں نکاح کا حکم

سوال: ایک لڑکا ہے پر وہ پوری طرح سے بدل گیاہے، آپریشن کرالیاہے اس نے، اس کا اب سب کچھ لڑکیوں کی طرح سے ہے، ویسے ہی کپڑے پہنتاہے، ویسے ہی رہتاہے جیسے لڑکیاں رہتی ہیں، اس کی اب جو لڑکوں کی شرمگاہ ہوتی ہے وہ نہیں، بلکہ جو لڑکیوں کی شرمگاہ ہوتی ہے ویسی ہی ہے، آپریشن کرایاتھا اس نے ، کیا اب اس صورت میں کسی لڑکے کا اس سے نکاح جائز ہے؟

جواب نمبر: 171142

بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa:848-888/N=2/1441

اگر کسی لڑکے نے بہ ذریعہ سرجری اپنا جنسی نظام تبدیل کرالیا ہے، یعنی: اس کی مردانہ شرمگاہ نکال کر اس میں زنانہ شرمگاہ لگادی گئی ہے اور وہ مکمل طور پر لڑکی ہوچکا ہے تو اس نے جو کیا، بلاشبہ ناجائز وحرام کیا، اسلام میں جنس کی تبدیلی سخت حرام وناجائز ہے؛ البتہ جب وہ مکمل طور پر لڑکی ہوچکا ہے تو لڑکے سے اُس کا نکاح درست ہوگا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply