hamare masayel

چست نقاب کے استعمال اور خرید وفروخت کا حکم

چست نقاب کے استعمال اور خرید وفروخت کا حکم

سوال: آجکل چست نقاب خوب رائج ہیں، سوال یہ ہے کہ اس طرح کے چست نقاب کے استعمال اور ان کی خرید وفروخت اور آمدنی کا شرعاً کیا حکم ہے؟

المستفتی: مولانا صابر القاسمی، ممبر پاسبان علم وادب

الجواب باسم الملهم للصدق والصواب

مذکورہ بالا سوال میں دو باتیں معلوم کی گئی ہیں، ایک تو چست  نقاب کو استعمال کرنا کیسا ہے، دوسرے ایسے نقاب کی خرید وفروخت کا کیا حکم ہے، دونوں کا جواب ترتیب وار دیا جاتا ہے۔

(1) عورت کو غیر محرم لوگوں کے سامنے بلا پردہ آنے کی اجازت نہیں ہے، پردہ کا مطلب ہوتا ہے اپنے آپ کو چھپانا، یعنی کسی بڑی چادر، برقعہ وغیرہ سے اپنے آپ کو اس طرح چھپانا کہ نہ تو اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہو اور نہ ہی حسن و جمال۔

لیکن آج کل نت نئے ڈیزائنوں والے تنگ اور چست ایسے برقعے استعمال کئے جارہے ہیں جو غیروں کو اپنی طرف راغب کرنے کا باعث بن رہے ہیں، شریعت اسلامیہ میں اس طرح کے نقاب اور لباس کے استعمال کی بالکل اجازت نہیں ہے، ایسا لباس استعمال کرنے والی عورتوں کو حدیث پاک میں ننگی عورت قرار دیا گیا ہے، اور ایسی عورتوں پر لعنت بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے۔

چنانچہ بخاری شریف میں ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے اور فرمایا کہ ‘‘اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں سبحان اللہ! آج رات کیا کیا فتنے نازل ہوئے ہیں اور کیا کیا خزانے ظاہر ہوئے ہیں؟کوئی ہے جو حجرے والیوں کو جگا دے، بہت سی وہ عورتیں جو آج دنیا میں لباس پہنے ہوئے ہیں، آخرت میں ننگی ہوں گی’’ ۔

اسی طرح مسلم شریف میں روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا دوزخیوں کی دو قسمیں ایسی ہیں جنہیں میں نے ابھی نہیں دیکھا ایک تو وہ لوگ ہیں جن کے پاس بیلوں کی دموں کی طرح کوڑے ہوں گے جن سے وہ لوگوں کو ماریں گے۔ دوسرے وہ عورتیں ہوں گی جو لباس تو پہنتی ہوں گی مگر ننگی ہوں گی، سیدھی راہ سے بہکانے والی اور خود بہکنے والی، ان کے سر بختی اونٹوں کی طرح ایک طرف کو جھکے ہوئے ہوں گے، وہ جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ اس کی خوشبو پائیں گی الخ۔

(2) چست اور تنگ نقاب چونکہ فی نفسہ چست اور ڈھیلا نہیں ہوتا بلکہ استعمال کرنے والیوں کے حساب سے وہ چست یا ڈھیلا ہوگا یعنی ایک نقاب اگر کسی تندرست عورت کے لئے چست ہے تو وہی نقاب کسی دبلی عورت کے لئے ڈھیلا ہوسکتا ہے، اس لئے خود استعمال کے لئے چست نقاب خریدنا جائز نہیں ہے؛ البتہ مطلق تجارت کے لئے خرید وفروخت جائز ہے اور آمدنی بھی حلال ہے کیونکہ اس نقاب میں قباحت استعمال پر موقوف ہے نہ بیچنے پر؛ لیکن اگر بیچنے والے کو یقین کے ساتھ معلوم ہو کہ اس کو چست نقاب کی جگہ استعمال کیا جائے گا تو ایسے لوگوں کو بیچنا خلاف اولی ہوگا پھر بھی آمدنی حلال ہوگی۔

الدلائل

قال الله تعالى: ﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ﴾ (البقرة: 275).

قال الله تعالى: ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾ (المائدة: 2).

عن أم سلمة رضي الله عنها، قالت: استيقظ رسول الله ﷺ ليلة فزعا، يقول: لَااِلٰه اِلاَّاللّٰه سُبْحَانَ اللّٰه مَاذَا اُنْزِل اللَّیْلَة مِنَ الْفِتَنِ؟ وَمَا ذَا اُنْزِلَ مِنَ الْخَزَائِنِ؟ مَنْ یُوْقِظُ صَوَاحِبَ الْحُجْرَاتِ، کَمْ مِنْ کَاسِیَة فِی الدُّنْیَا عَارِیَة یَوْمَ الْقِیَامَة. (صحيح البخاري:  ،115، 1126 ،6218، 7069) (سنن الترمذی: 2196)

وعن أبي هريرة -رضي اﷲ عنه- قال: قال رسول ﷲ  ﷺ “صِنْفَانِ مِنْ اَهلِ النَّارِ لَمْ اَرَهمَا، قَوْمٌ مَعَهمْ سِیَاطٌ کَاَذْنَابِ الْبَقَرِ یَضْرِبُوْنَ بِها النَّاس وَنِسَاءٌ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ، مُمِیْلاَتٌ، مَائِلاَتٌ، رُؤسُهنَّ کَاَسْنِمَة الْبُخْتِ الْمَائِلَة لَا تَدْخُلَنَّ الْجَنَّة وَلَا یَجِدْنَ رِیْحَها وَاِنّ رِیْحَها لَیُوْجَدُ مِنْ مَسِیْرَة کَذَا وَکَذَا. (صحیح مسلم، کتاب اللباس والزینة)، (مسند أحمد: 2/7355).

وقد روى الطبراني مرفوعا: سَیَکُوْنَ فِیْ اُمَّتِیْ نِسَاء کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ عَلٰی رُؤسِهنَّ کَاَسْنِمَة الْبَخْتِ، اَلْعِنُوْهنَّ فَاِنَّهنَّ مَلْعُوْنَاتٌ (معجم صغیر).

فکل لباس ینکشف معه جزء من عورة الرجل والمرأة لا تقره الشریعة الإسلامیه مھما کان جمیلاً أو موافقا لدور الأزیاء، وکذلک اللباس الرقیق أو اللاصق بالجسم الذی یحکی للناظر شکل حصة من الجسم الذی یجب ستره، فھو فی حکم ما سبق فی الحرمة وعدم الجواز.  (تکمله فتح الملھم 4/ 88).

قال النووي: الكاسيات ففيه أوجه….. تكشف شيئا من بدنها اظهارا لجمالها فهن كاسيات عاريات. (شرح النووي 383/2).

وإنما المعصیة في صورة إتخاذ المعصیة بفعل المستأجر وهو مختار فیه، فقطع نسبه ذلک الفعل عن الموجر. (فتح القدیر، کتاب الکراهیة، فصل في البیع،  زکریا 10/ 73، شامي، کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع، کراچی 6/ 392، زکریا 9/ 562، الموسوعة الفقهیة الکویتیة 9/213).

ولا بأس ببيع العصير ممن يعلم أنه يتخذه خمرا؛ لأن المعصية لا تقام بعينه بل بعد تغييره. (الهدايه 378/4).

فإذا ثبت كراهة لبسها للتختم ثبت كراهة بيعها وصيغها، لما فيه من الإعانة على ما لا يجوز، وكل ما أدى إلى ما لا يجوز لا يجوز، وتمامه في شرح الوهبانية، (الدر المختار، كتاب الحظر والاباحة، فصل في اللبس:  360/6، سعيديه)

والله أعلم

تاريخ الرقم: 14/4/1440هـ 22/12/2018م السبت

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply