hamare masayel

ذخیرہ اندوزی کا حکم، احتکار کی ممانعت، ذخیرہ اندوزی کی سزا

(سلسلہ نمبر: 431)

ذخیرہ اندوزی کا حکم

سوال: ذخیرہ اندوزی کا گناہ کب اور کس صورت میں ہے؟ کچھ ایسی اشیاء ہوتی ہیں کہ جب شیزن ہوتا ہے تو سستی ہوتی ہیں اور اس وقت آدمی خرید لیتا ہے، بعد میں قیمت بڑھنے پر فروخت کرتا ہے، تو کیا ایسی صورت ناجائز ہے؟

المستفتی: حافظ محمد ثاقب قاسمی، کسہا، اعظم گڑھ۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

شریعت مطہرہ میں ذخیرہ اندوزی اس صورت میں منع ہے جس سے لوگوں کو پریشانی اور حرج لازم آئے، اس لئے اگر کوئی شخص موسم میں (جب کہ مارکیٹ میں وہ سامان وافر مقدار میں موجود ہو) خرید کر رکھ لے اور موسم ختم ہونے کے بعد جب مارکیٹ ریٹ زیادہ ہو جائے اس وقت فروخت کرے تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

الدلائل

عن عمر بن الخطاب رضي ﷲ عنه قال: قال رسول ﷲ ﷺ: الجالب مرزوق، والمحتکر ملعون. (سنن ابن ماجه، رقم الحديث: 2153).

وإن اشتری في ذلک المصر وحبسه ولا یضر بأهل المصر لا بأس به، کذا فی التاتارخانیۃ ناقلا عن التجنیس. (الفتاوى الهندية: 3/ 200، زكريا جدید).

ويكره الاحتكار في أقوات الآدميين والبهائم إذا كان ذلك في بلد يضر الاحتكاربأهله وكذلك التلقي. فأما إذا كان لا يضر فلا بأس به” والأصل فيه قوله عليه الصلاة والسلام: الجالب مرزوق والمحتكر ملعون. (الهداية: 4/ 377).

والله أعلم

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفر له أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير اعظم جره الهند.

15- 12- 1441ھ 6- 8- 2020م الخمیس.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply