chugalkhor

چغلخوری ایک کبیرہ گناہ، Chugalkhor In Urdu

چغلخوری ایک کبیرہ گناہ

 از قلم: مفتى غفران احمد صاحب  قاسمی، استاذ جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڈھ۔

 آج ہمارا مسلم معاشرہ بہت سی روحانی بیماریوں کی آماجگاہ بن چکا ہے، جھوٹ، غیبت، چغلی، بہتان، طعنہ زنی، حرص،حسد، کینہ، بغض عداوت غرضیکہ بہت سی بیماریاں ہیں جو ہمارے معاشرہ کو اپنی گرفت میں لے چکی ہیں، اور ہمیں ان بیماریوں کی ایسی لت لگ گئی ہے کہ ہم ان سے کنارہ کشی اختیار نہیں کر پا رہے ہیں، کون نہیں جانتا کہ ان بیماریوں میں سے ہر بیماری ایسی ہے جو کسی بھی معاشرہ اور کسی بھی قوم کو منتشر کر سکتی ہے، اس کا شیرازہ بکھیر سکتی ہے، راقم نے آج کی اس تحریر میں چغلخوری کو اپنی بحث کا موضوع بنایا ہے۔

          حقیقت یہ ہے کہ اس بیماری نے مسلم معاشرہ کے تانے بانے کو بکھیر کر رکھ دیا ہے، عوام تو عوام بہت سے خواص سمجھے جانے لوگ بھی اس بیماری کا شکار ہیں، اس بیماری کے شکار شخص کی مثال اس مکھی کی سی ہے جو صاف ستھری جگہوں کو چھوڑ کر اس گوشہ کا انتخاب کرتی ہے جہاں گندگی ہو، وہیں جاکر بیٹھتی ہے، ٹھیک اسی طرح ایک چغلخور بھی ہوتا ہے، اسے اچھی باتوں سے سروکار نہیں ہوتا، وہ تو گفتگو کرنے والے کی گفتگو میں وہ بات ڈھونڈتا ہے جسے دوسرے تک پہنچاکر وہ فتنہ کی آگ بھڑکا سکے، اسی لئے چغلخور کو سخن چیں کہتے ہیں، جس کے معنی ہیں بات چننے والا، چغلخور بھی بات سنتا رہتا ہے، جہاں ایسی کوئی بات آتی ہے جو دوسرے کسی شخص سے متعلق ہو، اور اسے اس تک پہنچا کر وہ دونوں میں دشمنی کا بیج بو سکتا ہو، دونوں کے آپسی تعلقات خراب کر سکتا ہو، تو اس کی نگاہوں میں عجیب سی چمک دوڑ جاتی ہے، صاف محسوس ہوتا ہے کہ اسے من کی مراد مل گئی ہے، پہر اسے چین نہیں آتا جب تک دوسرے تک پہنچا نہ دے، ایسے مفسد مزاج چغلخوروں کی اس کارستانی سے معاشرہ کا سکون غارت ہو کر رہ جاتا ہے، ایسے ایسے دیرینہ تعلقات ختم ہو جاتے ہیں جنکی مثال دی جاتی تھی، یہ سب ایک چغلخور کی بد اطواری کا نتیجہ ہوتا ہے، خاندانوں میں پہوٹ پڑ جاتی ہے، بھائی بھائی میں دشمنی پیدا ہو جاتی ہے، یہ سب کرکے ایک چغلخور کو بہت اچھا لگتا ہے، وہ دو لوگوں میں قربتیں مٹا کر دوریاں پیدا کرکے بہت خوش ہوتا ہے،حالانکہ قرآن پاک میں ارشاد خداوندی ہے:

﴿وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ﴾ [البقرة: 60]

کہ زمین میں فساد مت پہیلاؤ

صلح صفائى كى فضيلت اور چغلخورى كى مذمت

 چغلخوری معاشرہ میں فساد اور بگاڑ پیدا کرتی ہے، اور ہمارے نبی ﷺ  نے آپس میں فساد اور بگاڑ پیدا کرنے سے روکا ہے، اس سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے، اور کیوں نہ فرماتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معلم اخلاق تھے، انسانیت کی تعلیم دینا ہی آپ کا مشن تھا،

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کیا میں تمہیں نماز روزے اور صدقے سے افضل چیز نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتائیں، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ایسے دو شخصوں کے درمیان صلح کرانا جن میں جھگڑا ہو، (یہ نماز روزے اور صدقے سے افضل چیز ہے اسلئے کہ) آپسی بگاڑ دین کو مونڈ کر تباہ کر دیتا ہے حدیث کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے،

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامِ وَالصَّلَاةِ وَالصَّدَقَةِ؟» قَالُوا: بَلَى، يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: «إِصْلَاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ، وَفَسَادُ ذَاتِ الْبَيْنِ الْحَالِقَةُ». (سنن أبي داود: 4919)

یاد رکھئے کہ چغلخوری معمولی گناہ نہیں گناہ کبیرہ ہے، اسی وجہ سے حدیث پاک میں اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ چغلخور جنت میں داخل نہیں ہوگا یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ بہت سی حدیثوں میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ ہر صاحب ایمان جنت میں داخل ہوگا، پہر اس حدیث پاک میں کیسے فرمایا گیا کہ چغلخور جنت میں داخل نہیں ہوگا؟ اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے شارحین حدیث فرماتے ہیں کہ پہلے اسے جہنم میں داخل ہوکر اپنے اس سنگین جرم کی سزا بھگتنی ہوگی، اس کے بعد ہی وہ اپنے ایمان کی بدولت جنت میں داخل ہو سکیگا، حدیث شریف کے الفاظ یہ ہیں:

 عَنْ هَمَّامٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ حُذَيْفَةَ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ رَجُلًا يَرْفَعُ الحَدِيثَ إِلَى عُثْمَانَ، فَقَالَ لَهُ حُذَيْفَةُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: «لَا يَدْخُلُ الجَنَّةَ قَتَّاتٌ». (صحيح البخاري: 6056، صحيح مسلم: 105)

 ایک بار کا واقعہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ دو قبروں کے پاس سے گذرے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے ارشاد فرمایا کہ یہ دونوں قبر والے عذاب قبر میں مبتلا ہیں، حالانکہ جس گناہ کی پاداش میں انکو عذاب میں مبتلا ہونا پڑا ہے، وہ ایسا گناہ نہیں جسے لوگ بڑا گناہ سمجھتے ہوں (حالانکہ وہ بڑے گناہ ہیں) چنانچہ ایک کو عذاب اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ وہ پیشاب سے بچتا نہیں تھا، اور دوسرا چغلخوری کیا کرتا تھا، پہر رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درخت کی تر ٹہنی لیکر اسے دوٹکڑے کیا، اور ایک ایک ٹکڑا ان دونوں قبروں پر رکھ دیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو آپ ﷺ نے جواب دیا کہ اس امید پر کہ جب تک یہ ٹہنی سوکھ نہیں جاتی تب تک کیلئے ان دونوں کے عذاب میں تخفیف کر دی جائیگی، حدیث مبارک کے الفاظ یہ ہیں:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ  عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: أَنَّهُ مَرَّ بِقَبْرَيْنِ يُعَذَّبَانِ، فَقَالَ: «إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ، وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لاَ يَسْتَتِرُ مِنَ البَوْلِ، وَأَمَّا الآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ»، ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً، فَشَقَّهَا بِنِصْفَيْنِ، ثُمَّ غَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ صَنَعْتَ هَذَا؟ فَقَالَ: «لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا». (صحيح البخاري: 1361، صحيح مسلم: 292)

قرآن و حدیث کی ان واضح ہدایات کے باوجود اگر ہم اپنے گریبان میں نہ جھانکیں، اپنا جائزہ لیکر اپنی اصلاح نہ کریں، تو کسی کا کیا جائیگا، اپنے ہاتھوں خود ہم اپنا نقصان کرنے والے ہونگے، اپنی آخرت برباد کرنے والے ہونگے، قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالی نے ایسے لوگوں کے متعلق جو اس کی نافرمانی کا ارتکاب کرکے اپنی اخروی زندگی چوپٹ کر لیتے ہیں، ارشاد فرمایا ہے:

﴿وَمَا ظَلَمُونَا وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ﴾ [البقرة: 57]

یعنی ان نافرمانوں نے اپنے اوپر ظلم کرکے خود اپنا نقصان کیا ہے، اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے، خدائے پاک نے ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی ہے۔

اسلئے ہمیں ہوش کے ناخن لینا چاہئے، اپنا محاسبہ کرنا چاہئے، اگر ہم اس گناہ سے محفوظ ہیں، تو ہم خدا کا شکر بجا لائیں، اور اگر ہم اس گناہ میں ملوث ہیں، تو خدارا جلد اس کو دور کرنے کی تدبیر کریں، توبہ استغفار کریں، اللہ کے واسطے دوسروں پر نظر ڈالنے کے بجائے پہلے اپنا جائزہ لیں۔

 دیکھنا ہی ہے تو تنکا دیکھ اپنی آنکھ کا

دوسروں کی آنکھ کا اے دوست مت شہتیر دیکھ

ايك چغل خور كا قصہ

بہت مناسب معلوم ہوتا ہے ایک واقعہ پر اپنی اس تحریر کو مکمل کروں، جس سے اندازہ ہوگا کہ ایک چغلخور کس حد تک فساد پہیلا سکتا ہے، اور اس کی یہ  قبیح حرکت کتنے خطرناک نتائج  کو جنم دیتی ہے، واقعہ یہ ہیکہ ایک چغلخور دوسروں کے گھروں میں نوکری کیا کرتا تھا، جس گھر میں نوکر رکھ لیا جاتا، دیکھتے ہی دیکھتے اس گھر میں پہوٹ پڑ جاتی، چین و سکون غارت ہو جاتا، آئے دن لڑائی جھگڑا ہونے لگتا، تحقیق کرنے پر پتہ چلتا کہ یہ سب اس چغلخور نوکر کی کارستانی ہے، ایک دن وہ بھی آیا جب اس چغلخور نوکر کے متعلق یہ بات مشہور ہوگئی کہ اس کو گھر میں ملازم رکھنا آفت و مصیبت کو دعوت دینا ہے، دوسرے لفظوں میں آ بیل مجھے مار کا مصداق ہے، چنانچہ یہ نوکر بیکار ہو گیا، کوئی اسے ملازم رکھنے پر تیار نہیں ہوتا تھا، ایک شریف انسان کو اس کی حالت زار پر ترس آ گیا، اس نے اس کو نوکر رکھ لیا، اس بیچارے کو پتہ نہیں تھا کہ وہ چغلخور ہے، چونکہ اس نوکر نے اپنی اس گندی عادت کا خمیازہ بہت اچھی طرح بھگت لیا تھا، اسلئے کچھ دن تو ٹھیک ٹھاک چلا، سب خیریت رہی، لیکن پہر اس کے اندر چغلی کے کیڑے نے کلبلانا شروع کیا، چونکہ لت پڑ چکی تھی جو اتنی آسانی سے نہیں جاتی، اسی وجہ سے فرمایا گیا ہے:

عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ أَبَا الدَّرْدَاءِ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ ﷺ نَتَذَاكَرُ مَا يَكُونُ، إِذْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِذَا سَمِعْتُمْ بِجَبَلٍ زَالَ عَنْ مَكَانِهِ، فَصَدِّقُوا، وَإِذَا سَمِعْتُمْ بِرَجُلٍ تَغَيَّرَ عَنْ خُلُقِهِ، فَلَا تُصَدِّقُوا بِهِ (1) ، وَإِنَّهُ يَصِيرُ إِلَى مَا جُبِلَ عَلَيْهِ”. (مسند أحمد: 6/ 443)

یعنی یہ تو ہو سکتا ہے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے، لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ آدمی اپنی لت چھوڑ دے، مثل مشہور ہے،

جبل گردد جبلت نہ گردد

اب یہ شخص پہر چغلی کیلئے بے قرار ہوا، چونکہ شریف گھرانے کا ملازم تھا، اسلئے اس کو چغلی والی کوئی بات مل نہیں رہی تھی، چنانچہ اس کے شیطانی دماغ نے ایک کہانی گڑھی، اور اپنی مالکن سے کہا، آپ کے خاوند کا ایک عورت سے ناجائز تعلق ہے، بیچاری بہت فکر مند ہوئی، کہنے لگی اب میں کیا کروں؟ اس نے کہا ایک تدبیر ہے، اگر آپ انکے سر کا تھوڑا سا بال کاٹ کر مجھے دیدیں، تو ایک عامل کی مدد سے میں سب ٹھیک کرا دونگا، بیوی نے پریشان ہو کر کہا، مگر میں بال کاٹونگی کیسے؟ تو اس نے اسے طریقہ بھی سجھا دیا، کہ استرہ تکیہ کے نیچے رکھ لیجئے، اور مالک کے سو جانے کا انتظار کیجئے، جب سو جائیں، کاٹ لیجئے، بیوی آمادہ ہو گئی، اس کے بعد یہ نوکر شوہر کے پاس گیا، اور اس سے کہا آپ جانتے ہیں آپکے گھر سے جانے کے بعد آپ کے گھر کیا ہوتا ہے؟ مالکن کا ایک شخص سے ناجائز تعلق ہے، آپ کے جاتے ہی وہ گھر میں آ جاتا ہے، آج تو میں نے مالکن اور اس شخص کی گفتگو سنی، دونوں آپکے قتل کا منصوبہ بنا چکے ہیں، جس پر آج رات عمل در آمد ہوگا، یقین نہ آئے تو تکیہ ہٹا کے دیکھئیگا، وہاں پلان کے مطابق استرہ رکھا ملیگا، مالک کو بڑا طیش آیا کہ بیوی نے میرے بے پناہ اعتماد کا جو مجھے اس پر تھا گلا ہی گھونٹ دیا، آپے سے باہر ہو گیا، دیکھا تو واقعی استرہ رکھا ہوا تھا، غصہ میں آکر بیوی کا خون کر دیا، سسرال والوں کو پتہ چلا تو انہونے شوہر کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

 اب خود سوچئے کہ ایک چغلخور کیا کیا گل کھلا سکتا ہے؟ حالانکہ بات کچھ بھی نہ تھی لیکن اس نے افسانہ بنا دیا۔

 اس واقعہ سے ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ ہمیں ایسے لوگوں سے جنکی عادت چغلی کی ہو دور رہنا چاہئے، اور اگر وہ کوئی بات ہم تک پہنچانے میں کامیاب ہو جائیں تو ہمیں سنی ان سنی کر دینا چاہئے،اگر ہم نے چغلخور کی بات سنی ان سنی کر دی تو اس کا حوصلہ ٹوٹ جائیگا۔

 اور اسی میں سب کا بھلا ہے، چغلخور کا بھی کہ اس کا حوصلہ ٹوٹیگا، اور اگر تمام لوگ ایسا ہی کرنے لگیں تو ممکن ہے اس کی عادت بھی چھوٹ جائے، اور جس تک بات پہنچائی گئی ہے اور جسکی بات پہنچائے گئی ہے ان سب کا فائدہ ہے کہ تعلقات ختم نہیں ہونگے، اگر وقتی طور پرکوئی بات ہو گئی ہوگی، تو وہ بھی ان شاء اللہ دھیرے دھیرے ختم ہو جائیگی۔

ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ ہم سب انسان ہیں، بسا اوقات کوئی ایسی بات ہو جاتی ہے جسکی وجہ سے ہم اپنے انتہائی قریبی لوگوں سے بھی ناراض ہو جاتے ہیں، اورخفگی میں کچھ سخت سست زبان سے نکل جاتا ہے، (جبکہ ایسا ہونا نہیں چاہئے )مگر پہر دھیرے دھیرے معاملہ سلجھ جاتا ہے،اور اگر چغلی سنکر کوئی کاروائی کر دی جائے تو تعلق کی ڈور الجھتی چلی جاتی ہے،ہمیں یہ بھی مان کر چلنا چاہئے کہ جو ہمارے دشمن ہیں، بدخواہ ہیں، وہ ہمارے متعلق اچھی بات تو کر نہیں سکتے، اگر کرینگے تو الٹی سیدھی گفتگو ہی کرینگے، لیکن انکی ان ہفوات سے ہماری ترقی تو رک نہیں جاتی، اسلئے ایسے لوگوں سے کیا بھڑنا اور کیا جھگڑنا؟

 ایک چغلخور نےکسی بزرگ سے چغلی کی کہ آپکو فلاں فلاں ایسا ویسا کہ رہے تھے، انکو بڑا طیش آیا، پہر انہونے خود کو مخاطب کرکے کہا کہ اگر انکی کہی ہوئی باتیں واقعی تمہارے اندر موجود ہیں تو خود کو ان سے پاک کرو، اور اگر نہیں ہیں، تو انہیں بکنے دو، ہم کیوں ان کے متعلق ادھر ادھر کی بکواس کریں خدائے پاک ہم سب کو اس گناہ سے بچنے کی توفیق بخشے، آمین۔

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply