کتب انشاء وادب کا طریقۂ تدریس

کتب انشاء وادب کا طریقۂ تدریس



کتب انشاء وادب کا طریقۂ تدریس PDF

کتب انشاء وادب کا طریقۂ تدریس

بقلم:  مفتى محمد اجمل قاسمی استاذ تفسير وادب مدرسہ شاہی ،مراد آباد

(محاضرہ: بعنوان کتب انشاء وادب کا طریقۂ تدریس، محاضر: محمد اجمل قاسمی، خادم تدریس مدرسہ شاہی ،مراد آباد، برائے تربیتی کیمپ منعقدہ، منجانب: رابطہ مدارس اسلامیہ دارالعلوم دیوبند جنوبی ہریانہ، بمقام: جامعہ عربیہ قاسم العلوم نیازیہ،قصبہ نوح ،ضلع میوات ،ہریانہ،  بروز یکشنبہ ،بتاریخ :۲۹ محرم الحرام۱۴۴۴ھ ۲۸؍اگست۲۰۲۲ء)

حرف آغاز

 الحمد لله، والصلاۃ والسلام علی رسول الله ومن والاہ، وبعد، قال عمربن الخطاب رضی اللہ عنه :‘‘تَعلَّمُوا العربیةَ ؛ فإنَّها منْ دینِکُم، وتَعَلَّمُوا الفَرائضَ ؛ فإنَّها منْ دِینِکُم ’’(الاقتضاء ،لابن تیمیة ۱؍۴۷۰)

 رابطہ مدارس اسلامیہ دارالعلوم دیوبند جنوبی ہریانہ کے صدر محترم! رابطہ کے دیگر ذمہ داران! اس تربیتی پروگرام میں شریک مربی حضرات! اورمدارس کے اساتذہ ومشائخ!

حضرات! آپ مختلف مدارس سے وابستہ اصحاب تدریس اورقابل وفاضل اساتذۂ کرام ہیں،یہ بندۂ ناچیز اپنی نو عمری اور ناقص علم وتجربے کی وجہ سے اپنے کو اس کا اہل ہرگز نہیں سمجھتا کہ کتابوں کے طریقۂ تدریس جیسے اہم موضوع پر آپ سے گفتگو کرے،مگر بڑوں کے حکم کی تعمیل میں حاضر خدمت ہے،دعا فرمائیں اللہ تعالی محض اپنی توفیق سے کچھ مفید معروضات پیش کرنا آسان فرمائے،آمین!

حضرات! ہمارے تعلیمی نصاب میں شامل کتابیں خاص مقاصد کے تحت رکھی گئی ہیں، کتابوں کی تدریس کے مقاصد کیا ہیں؟ ان سے واقفیت ازبس ضروری ہے،اس لیے کہ مقاصد کی واقفیت سے ہی طرز تدریس کی تعیین ہوتی ہے،اورمناسب طریقۂ تدریس سے ہی مطلوبہ مقاصد حاصل کئے جاتے ہیں،کتابوں کے مقاصد اوران کے مطلوبہ طریقہ ٔ تدریس سے واقفیت جتنی اہم اورضروری ہے، ہمارے مدارس کے نظام میں بالعموم یہ پہلو اتنا ہی بے توجہی کا شکار رہا ہے،چنانچہ ہمارے یہاں کتابوں کی تدریس کے سلسلے میں بڑا انتشار پیدا جاتاہے،ہر شخص اپنے اپنے ذوق وتجربے کے اعتبار سے تدریس کرتاہے،جس کی وجہ سے بہت سی دفعہ کتاب کی تدریس کا مقصد کماحقہ حاصل نہیں ہوپاتا، اورممتحن حضرات بھی اپنے اپنے انداز میں امتحان لیتے ہیں، کسی متعین نہج کے پاپند نہیں ہوتے ،نتیجتاًامتحان کے نتائج سے طلبہ کی صحیح تعلیمی صورت حال سامنے نہیں آپاتی ؛لہٰذا ضروری ہوا کہ حضرات اساتذۂ کرام کے سامنے کتابوں کا صحیح طریقہ ٔ تدریس واضح اورمتعین کیا جائے، تاکہ کتابوں کی تدریس کے مقاصد بھی حاصل ہوں،اور امتحان میں ممتحن حضرات کو بھی اسی نہج کے مطابق امتحان لینے کا پابند کیا جائے ،تاکہ نتائج ِامتحان سے طلبہ کی صحیح تعلیمی حالت سامنے آئے۔

 رابطہ ٔ مدارس اسلامیہ دارالعلوم دیوبند مغربی زون-۲کے صدر ذی وقار حضرت مولانا سید اشہد رشیدی دامت برکاتہم مہتمم مدرسہ شاہی نے اس سلسلے میں کامیاب پہل کی،جوکامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے،اب ماشاء اللہ یہ سلسلہ رابطہ مدارس اسلامیہ دارالعلوم دیوبند جنوبی ہریانہ کے صدر محترم حضرت مولانا زبیرصاحب دامت برکاتہم کی قیادت میں میوات کے خطہ شروع ہو رہاہے، یہ حضرات، تدریس سے وابستہ ہماری پوری برادری کی طرف سے شکریے کے مستحق ہیں،اللہ تعالیٰ ان حضرات اوران کے رفقاء کار کو جزائے خیر عطا فرمائے، اس سلسلے کو مفید ونافع بنائے ،اور افادیت کے ساتھ آئندہ بھی اس کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

تمہید!

حضرات علماء کرام! جیسا کہ عرض کیا جاچکا کہ ہماری نصابی کتابیں خاص مقاصد کے تحت شامل ِنصاب کی گئی ہیں،آج کی ہماری گفتگو کا موضوع نصاب میں شامل کتب انشاء اورادب کا طریقۂ تدریس ہے؛لہٰذا ہمیں سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ زبربحث کتابوں کی تدریس کا مقصد کیاہے؟سواس سلسلے میں عرض ہے کہ ان کتابوں کا مشترکہ مقصد‘‘ طلبہ میں بتدریج عربی بولنے اورلکھنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہے’’ مزید وضاحت کے لیے عرض ہے کہ کسی بھی زبان پر قدرت نام ہے اس کی چار مہارتوں پر قدرت حاصل کرنے کا،جس کو زبان کی چاروں مہارتیں حاصل ہیں اس کی زبان دانی کامل ہے ،اوراس کے برعکس جو زبان کی جتنی مہارتوں میں خام ہوگا اس کی زبان دانی اسی کے بقدر ناقص ہوگی، زبان کی مہاراتِ اربع درج ذیل ہیں:

(۱) ‘‘القراء ۃ’’ یعنی زبان کو پڑھنے کی مہارت،اس کا مطلب یہ ہے کہ زبان کو صحیح تلفظ اوراچھے لب ولہجہ کے ساتھ ازروئے قواعد صحیح پڑھا جائے۔

(۲) ‘‘الفهم’’ زبان کو سمجھنے کی مہارت،سمجھنے میں پڑھ کر سمجھنا بھی مراد ہے اور سن کرسمجھنا بھی۔

(۳) ‘‘النطق’’ یعنی زبان کو بولنے کی مہارت۔(۴)‘‘ الکتابۃ ’’زبان میں لکھنے اورمضمون نگاری کی مہارت۔

جہاں تک‘‘ قراء ت’’ کا تعلق ہے، تو طلبہ کوتلفظ کی صحت تجوید کے ذریعہ اورصحیح عبارت خوانی نحووصرف کی کتابوں کے پڑھنے سے بتدریج حاصل ہوجاتی ہے؛البتہ صحیح لب ولہجہ کی کمی عموماً باقی رہتی ہے،اوررہا‘‘ فہم’’ تویہ بھی مدارس کے طلبہ کو قواعداوردیگر علوم وفنون کی عربی کتابوں کے ذریعہ بتدریج حاصل ہوجاتاہے؛ البتہ ان کے اس فہم کا دائرہ عموماً قدیم زبان اور مدارس میں پڑھے پڑھا ئے جانے والے علوم تک محدود ہوتاہے،بالعموم طلبہ دورحاضر کی زبان اورمدارس میں متداول علوم کے علاوہ موضوعات کو سمجھنے پرقادر نہیں ہوتے؛ اس لیے کہ ان کو اپنی نصابی کتابوں میں نہ جدید زبان سے زیادہ واسطہ پڑتاہے ،اورنہ ہی زندگی کے عام موضوعات سے۔

اب بچی دومہارتیں: ایک بولنے کی اورایک لکھنے اور معیاری ترجمہ کرنے کی ، تو یہ دونوں مہارتیں انشاء اورادب کی کتابوں سے پیدا کی جائیں گی،نیز طلبہ میں قراء ت اورفہم کی جوکمزوریاں باقی رہ گئی ہیں جن کی طرف ابھی اوپر اشارہ کیا گیاان کا ازالہ بھی یہاں کرنا ہے۔

 حضرات! خلاصہ یہ کہ انشاء وادب کی کتابوں کا اصل مقصد بتدریج عربی زبان میں بولنے اورلکھنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہے،اورقراء ت وفہم میں جوکمزوریاں رہ گئی ہیں ان کاازالہ کرنا ہے۔

حضرات! ان کتابوں کی تدریس کا یہ مقصد اگر پیش نظر ہو تویہ بات سمجھنے میں ہمیں دیر نہیں لگے گی کہ یہ کتابیں ہمیں اس طرح پڑھانی ہیں کہ کتاب میں آنے والے جو دروس ہیں طلبہ کو نہ صرف ان کا ترجمہ یاد کرانا ہے ؛ بلکہ ان دروس کو اس طرح ازبر کرانا ہے کہ طلبہ ان دروس میں آئے الفاظ ومفردات اورتعبیرات کے استعمال پر پوری طرح قادر ہوجائیں ، اورجب وہ عربی زبان میں لکھنا یہ بولنا چاہیں تویہ الفاظ وتعبیرات بلاتکلف برموقع ان کے زبان وقلم پر جاری ہوجائیں۔

سامعین! اس وضاحت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ انشاء وادب کی کتابوں کی تدریس اوردیگر علوم وفنون کی کتابوں کی تدریس میں بنیادی فرق ہے،دیگر کتابوں میں ہمیں عبارت میں ذکرکردہ مضامین کوسمجھنا اور ترجمہ یاد کرلینا کافی ہوتاہے،جبکہ انشاء اورادب کی کتابوں میں معانی سے زیادہ عربی الفاظ وتعبیرات کو یاد کرکے ان کو برتنا اوران کے استعمال کی قدرت حاصل کرنا ضروری ہوتاہے۔

طرز تدریس کے بارے میں عمومی ہدایات:

حضرات ! اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ انشاء وادب کی کتابوں کا طریقۂ تدریس کیا ہوگا جن کی پیروی کرکے ہم طلبہ کو اس معیار تک پہونچاسکتے ہیں کہ وہ جہاں مفردات وتراکیب اورتعبیرات کے اردو متبادل سے واقف ہوں وہیں براہ راست عربی میں بھی ان کے استعمال پر پوری طرح قادرہوں ،سواس سلسلے میں کچھ عمومی معروضات پیش کی جاتی ہیں ،جو ہمارے نصاب میں شامل تمام کتابوں کی تدریس میں ملحوظ رکھنی ہوں گی،اورکچھ خصوصی ہدایات ہیں جوہرہرکتاب کے طریقۂ تدریس کے ضمن میں علاحدہ بیان ہوں گی:

(۱) سبق میں آنے والے مفرادت کو لکھا کر ان کواچھی طرح یاد کرانے کا اہتمام کیاجائے،اورجس طرح عربی الفاظ کے اردو متبادل سنے جائیں اسی طرح اردو معانی کو پوچھ کر ان کے عربی الفاظ کو بھی سننے کا اہتمام کیا جائے ،اس طرح انہیں جہاں عربی الفاظ کے اردو متبادل معلوم ہوں گے، وہیں اردو مفاہیم کے لیے عربی الفاظ بھی یاد ہوں گے،اوربولنے اورلکھنے میں معاون ہوں گے، کیوں کہ بولنے اور لکھنے کے لیے اردو کے متبادل عربی الفاظ کا بروقت یاد آنا نہایت ضروری ہے،ا س کے بغیر آپ نہ زبان لکھ سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں،عربی زبان کے باتوفیق استاذ حضرت مولانا وحیدالزمان کیرانوای لکھتے ہیں:

 ‘‘نیز عربی الفاظ کے معنی جیسے اردو میں یاد کرائے جائیں اسی طرح اردوالفاظ کے عربی معنی بھی یاد کرائے جائیں ،اس طرح زبان کے دونوں رخ سامنے رہیں گے اورتکلم وانشاء میں سہولت رہے گی’’(شرح القراء ۃ الواضحہ جزء اول ص۴ )

مثال کے طور ہم طلبہ سے جہاں‘‘مطارٌ، طائرۃٌ، راکبٌ، جَوٌ’’ کے اردومعانی پوچھیں وہیں اس کے برعکس اردو کے الفاظ‘‘ ہوائی اڈہ، ہوائی جہاز، مسافر،فضا’’ کے عربی متبادل بھی پوچھیں۔

لغات سننے میں طلبہ کو محض حافظے سے ترتیب وارلغات سنانے کاپابند نہ کیا جائے، اس سے طلبہ پر حفظ ِلغات کے ساتھ حفظ ِترتیب کا دہرا بار پڑتاہے ،استاذ کو چاہیے کہ مختلف طلبہ سے متفرق الفاظ کے معانی پوچھ لے ،اس طرح سننے سے طلبہ کو سہولت ہوگی ۔

(۲)کثرت ِقراء ت وکتابت پر زور: تمام طلبہ سے صحیح تلفظ اورخالص عربی لب ولہجے میں سبق کی جہراًقراء ت روز آنہ کرائی جائے،طلبہ اگر زیادہ ہیں توباری بنائی جائے، یا تھوڑی تھوڑی عبارت کئی طلبہ سے پڑھوائی جائے ،مگرکسی کو عبارت خوانی سے مستثنی نہ رکھا جائے،جوعبارت طلبہ کو استاذ کے سامنے پڑھنی ہے ،طلبہ پہلے اسے کم از کم دس بارہ بار خارج میں صحیح تلفظ اور درست لہجے میں پڑھ کر آئیں،طلبہ کو یہ بھی تاکید کی جائے کہ سمجھ کر اورذہن کو حاضر رکھ کر پڑھیں،تاکہ زیادہ سے زیادہ الفاظ وتعبیرات ذہن نشین ہوسکیں۔

ہرزبان کا اپنا لہجہ اورطرزادا ہوتاہے ،اوراس کواسی لہجے میں بولا جاتاہے،جب طالب علم صحیح تلفظ اورعربی لب و لہجے میں قراء ت کی پابندی کرے گا ،تورفتہ رفتہ وہ عربی لہجہ سیکھ جائے گا۔کثرت قراء ت کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ زبان ٹوٹے گی جس سے عربی نطق میں سہولت پیدا ہوگی،بسااوقات آدمی جب بولنے کا ارادہ کرتاہے توذہن میں صحیح لفظ آتاہے ،مگر بولتے ہوئے کچھ کا کچھ ہوجاتاہے،ایسا اس لیے ہوتاہے کہ زبان عربی الفاظ کی ادائیگی کی عادی نہیں ہوتی؛ لہٰذا کثرت قراء ت کے ذریعہ زبان کو عربی نطق کا عادی بنانا ضروری ہے۔تیسرافائدہ جوسب سے اہم ہے وہ یہ کہ کثرتِ قراء ت سے طالب علم کو مفردات کے ساتھ تعبیرات کا بھی بڑا حصہ یاد ہوجاتاہے،اورلکھنے بولنے میں سب سے بنیاد ی کردار ذخیرۂ الفاظ وتعبیرات کا ہی ہے۔

کثرتِ قراء ت کی طرح کثرتِ کتابت سے بھی چیزیں حافظے میں ازبر ہوتی ہیں،نیزکثرت سے لکھتے رہنے سے ہی آدمی خوب نویس اوربسیار نویس بنتاہے ،اس لیے صحت املا کی رعایت کے ساتھ طالب علم کو اسباق سے متعلق تمرینات کے لکھنے کا پابند کرنا بھی ضروری ہے۔ حضرت مولانا نورعالم صاحب امینی رحمۃ اللہ علیہ زبان سیکھنے میں قراء ت و کتابت کی اہمیت کواجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

‘‘عبارت کی خواندگی اورعبارت نویسی دونوں پر بہت زیادہ توجہ دی جائے ،طلبہ کو مکلف کیا جائے کہ وہ عبارت کو صحت تلفظ کے ساتھ باربار پڑھیں اورصحت املا کے ساتھ اپنی کاپیوں میں اسے کثرت سے لکھیں،ابتدائی مرحلے میں زبان آموزی کے حوالے سے پڑھنے اورلکھنے کی بڑی اہمیت ہے، یہ بات ہمیشہ ذہن میں رہنی چاہیے، کہ الفاظ وعبارت کی مطلوبہ مقدار میں خواندگی اوراملانویسی کے بغیر ان کا ترجمہ بتادینے سے زبان سکھانے کا عمل کبھی بارآور نہیں ہوتا۔’’(مفتاح العربیہ ص۵)

(۳) تمرینات کا خصوصی اہتمام:طلبہ کو تمرینات کثرت سے کرائی جائیں، تاکہ سبق کے زیادہ سے الفاظ انہیں یاد بھی ہوجائیں اوران کے استعمال پر قدرت بھی ہوجائے، تمرینات تحریری بھی کرائی جائیں،اورزبانی بھی ، زبانی تمرین تحریری تمرین کی تصحیح کے بعد ہوگی،جس تحریری تمرین کی تصحیح آپ کل کرچکے ہیں،آج اس کی شفوی مشق کرائیں،زبانی تمرین کے لیے دو طریقے اپنائے جائیں،ایک یہ کہ استاذ طلبہ سے سوالات کرے ،دوسرے یہ کہ طلبہ کی جوڑی بنائی جائے ،محادثات والی تمرینات میں دودوطالب علم کو کھڑا کرکے ان کے درمیان محادثے کرائے جائیں،سوال وجواب والی تمرینات میں بھی یہی طریقہ اپنا یا جائے، اورجن کتابوں میں عربی سے اردواوربرعکس تمرینات موجود ہیں،ان میں دو دوطالب علموں کو کھڑا کرکے اس طرح تمرین کرائیں،کہ اردوسے عربی والی تمرینات میں ایک طالب علم اردو بولے، اوردوسرا کاپی دیکھے بغیر اس کی عربی بتائے،اسی طرح اگر تمرین برعکس ہے توایک عربی بولے اوردوسرا فوراً اس کا ترجمہ کرے، تمام تمرینات اس طرح کرائی جائیں،کہ سبق کے زیادہ سے زیادہ الفاظ طالب علم کی زبان وقلم پر جاری ہوجائیں،اور جب طلبہ آپس میں شفوی تمرین میں مصروف ہوں اسی دوران آپ آج کاہوم ورک بھی چیک کرتے رہیں،اس سے آپ کا وقت بچے گا۔

(۴) طلبہ کی تمرینات چیک کرتے ہوئے ، املا کی تصحیح پر بھی توجہ رہنی چاہیے،املا میں طلبہ دوطرح کی اغلاط کرتے ہیں: ایک شوشے اورنقطے کی ،اوردوسرے رسم الخط کی، پہلی غلطی طالب علم کی لاپروائی کا نتیجہ ہوتی ہے، مگر دوسری صحیح رسم الخط سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہوتی ہے،جس میں اکثر طلبہ مبتلا ہوتے ہیں،اس دوسری قسم کی اغلاط کی تصحیح استاذ کو تختہ سیاہ پر کرنی چاہیے،تاکہ تمام طلبہ کی تصحیح ہو،عربی میں زیادہ تر اغلاط ہمزہ کے لکھنے میں ہوتی ہے،ہمزہ کے املا کے بارے میں مستقل کتابیں ہیں، مولانا محمد ساجد صاحب استاذادب دارالعلوم دیوبند نے اپنی کتاب تیسیر الإنشاء کے تیسرے جزء میں ہمزہ کی کتاب کے قواعد مع مثال تحریر کریں،استاذ کوچاہیے اس کواپنے سامنے رکھے۔ اسی طرح گوگل پر ‘‘الأخطاء الإملائیة الشائعة’’ لکھ کرسرچ کرنے سے ،کثرت سے ہونے والی املائی غلطیوں اوران کے صحیح رسم الخط کی فہرست آپ کومل جائے گی ،آپ وہاں سے استفادہ کرسکتے ہیں۔

اسی طرح طلبہ جملوں کا درمیان کاما Comma (،) اورعبارت کے آخر میں فل اسٹاف Full Stop (.) اورسوالیہ جملے کے آخر علامت استفہام Quotation marks(؟) لکھنے کا عادی بنانا چاہیے،یہ علامتیں تحریر کا حصہ ہیں،ہرصاحب قلم کے لیے ان کا برتنا ضروری ہے۔

(۵)گھنٹے میں جتنے کام آپ کو کرنے ہیں،آپ اس کی ایک ترتیب بنائیں،اورہرکام کے لیے گھنٹے کے کچھ منٹ مختص کریں ،مثلاً آپ کو اگریہ چند کام کرنے ہیں : سبق کا ترجمہ اورلغات سننا ہے، طلبہ کو زبانی تمرین کرانی ہے ، تحریری تمرینات کو چیک کرنا ہے،اگلے سبق کی قراء ت کرانی ہے ،اس کی لغات لکھواکر ترجمہ کرانا اورآگے ہوم ورک دینا ہے ،توان تمام کاموں کے لیے گھنٹے کا کچھ کچھ حصہ مختص کریں،تاکہ سارے کام ہوتے رہیں،اورسبق کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہ جائے۔

ان عمومی معروضات کے بعداب ہم درجہ وار الگ الگ کتابوں کے بارے کچھ خصوصی معروضات پیش کرتے ہیں۔

مفتاح العربیة:

(۱) مولف کتاب نے اسکولی نصابی کتابوں کے طرز پر کتاب کے شروع میں تعلیمی ہدایات کے عنوان سے ۱۲ ہدایات برائے معلمین تحریر کی ہیں،ان ہدایات کوباربار بغور پڑھا جائے، اوربوقت تدریس برتا جائے۔

(۲) بیشتر اسباق کے آغاز میں حاشیہ میں خاص اس سبق سے متعلق کچھ جزوی ہدایات بھی دی ہیں،جس سبق کے ذیل میں جوہدایات دی ہیں اس سبق میں ان ہدایات کی پابندی کی جائے،کتاب کے شروع میں ذکرکردہ تعلیمی ہدایات کے بعد اسباق کے ذیل میں ذکر کردہ امور نے قدم بقدم طریق تدریس کواس طرح واضح کردیا ہے، کہ مزید کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں، ضرورت بس اس کی ہے کہ کیف مااتفق اپنے ذوق سے تدریس کے بجائے ان کی پیروی کی جائے۔

(۳) کتاب کے حاشیہ میں قواعد کی وضاحت جس قدر کی گئی ہے ،بس اتنی ہی وضاحت کی جائے،اس سے زیادہ تفصیلات بتاکرنووارد طلبہ پر قواعد کا غیر ضروری بار نہ ڈالا جائے۔

(۴) کتاب کے اخیر میں سبق وارسبق میں مستعمل عربی واردو الفاظ کا ترجمہ دیا گیا ہے،الگ سے لغات لکھانے کے بجائے بس وہی ترجمہ یادکرایا جائے،اپنی طرف سے جمع وغیرہ کی مزیدتفصیلات نہ بتائی جائیں، بالکل مبتدی طلبہ اس کے متحمل نہ ہوں گے۔

(۵) پہلے حصہ میں صرف اسماء کا استعمال کرایا گیاہے،جس کی صراحت مؤلف نے کتاب کے شروع میں کردی ہے،لہٰذا اردو سے عربی کی تمرینات میں بہت سے مقامات ایسے آئے ہیں،جہاں خبر اسم فاعل بھی آسکتی ہے،اورفعل کی شکل میں بھی لائی جاسکتی ہے،مثال کے طور پر‘‘ سعیدہ نئی کاپی میں لکھ رہی رہے ’’ اس میں آپ ‘‘سعیدۃ کاتبة في دفتر جدید’’ بھی کہہ سکتے ہیں،اور‘‘سعیدۃ تکتب في دفترجدید’’ بھی بول سکتے ہیں،مگرآپ یہاں بجائے فعل کے اسم ہی استعمال کرائیں۔

(۵) عمومی معروضات میں جو باتیں عرض کی گئی ہیں ان کا خاص خیال رکھاجائے۔

القراءۃ الواضحة کے تینوں اجزاء کا طریقہ ٔ تدریس:

(۱)القراءۃ الواضحة کے پہلے حصہ کے شروع میں اور اسی طرح مؤلف کے قلم سے لکھی ہوئی پہلے جزء کی شرح میں ضروری ملاحظات دئے گئے ہیں، نیزکتاب کی ترتیب اورطریقہ ٔ تدریس پر روشنی ڈالی گئی ہے،القراء ۃ الواضحہ کے کسی بھی حصہ کی تدریس سے پہلے ان چیزوں کو پڑھنا بے حد ضروری ہے۔

(۲) مؤلف کتاب نے القراءۃ الواضحة کے تینوں حصوں کی خود شرح بھی تالیف فرمائی ہے،جس سے القراءۃ الواضحة کی تدریس میں بڑی مدد بھی ملے گی،اور یہ بھی بڑی حدتک واضح ہوجائے گا کہ کس سبق کو کیسے پڑھا نا ہے،لہٰذا القراء ۃ الواضحہ کی تدریس میں اسے بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔

(۳) عمومی ہدایات میں حفظ لغات، کثرت کتابت وقراءت، تمرینات کے خصوصی اہتمام ،اس کے طریقے،املا کی تصحیح اورگھنٹے کے کاموں کے اعتبار سے گھنٹے کی ترتیب قائم کرنے کی جوبات کہی گئی ہے،ان کو برتنے کی پوری کوشش کی جائے۔

(۴) القراء ۃ الواضحة میں لغات لکھاتے ہوئے چند امورکا خیا ل رکھیں:

(الف)صرف نئے الفاظ کی لغات لکھوائی جائیں،طلبہ کو بتادیا جائے کہ جوالفاظ آچکے ہیں انہیں دیکھ کر آئیں سبق میں ان کے معانی پوچھے جائیں گے ،اورپوچھنے پر نہ بتائیں تومناسب تنبیہ کی جائے،اس طرح پرانی لغات یاد بھی رہیں گی،اورآگے لغات لکھانے اوریاد کرنے کاکام بھی مختصر رہے گا۔

(ب)الفاظ کا صرف وہ معنی لکھایا اوربتایا جائے جواس جگہ مراد ہے، دیگر معانی سے تعرض ہرگز نہ کیا جائے،یہ مبتدی طلبہ کے لیے پریشان کن ہوگا،اورطلب الکل فوت الکل کاسبب بنے گا۔

(ج) جزء اول میں جن الفاظ کی جموع کثیر الاستعمال یا معروف ہیں انہی کے لکھانے پر اکتفاء کیا جائے، البتہ بعد کے حصوں میں بتدریج مفردات کی جمو ع اورجموع کے مفردات لکھوانے میں توسیع کی جائے،(د) ثلاثی مجرد کے افعال میں ماضی مضارع مصدر لکھانے کا اہتمام کریں،جو افعال صلات کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں ان کے صلات کو لکھوانے اوریاد کرانے کا اس طرح التزام کیا جائے کہ فعل طالب علم کے ذہن میں جب آئے تواپنے صلہ کے ساتھ آئے ،نیز باب بھی لکھوائے جائیں۔

 ثلاثی مجرد میں ماضی مضارع دنوں کولکھانے سے باب کے یاد رکھنے میں سہولت ہوتی ہے،اورباب کا یاد رکھنا ضروری ہے،اس لیے کہ باب بدلنے سے اکثر اوقات معانی بدل جاتے ہیں،مثال کے طور پر‘‘حزن حزناً’’ اگر نصر سے آئے تواس کے معنی آتے ہیں‘‘ غمگین کرنا’’ اسی سے ‘‘محزون’’ آتاہے،اوراگر سمع سے آئے تومعنی ہوتا ہے‘‘غمگین ہونا’’اس سے‘‘حزین’’ آتاہے،اس طرح‘‘ذعر ذعراً’’ اگرفتح سے آئے تومعنی ہوتا ہے‘‘ خوف زدہ کرنا’’اوراگر سمع سے آئے تومعنی آتاہے ‘‘خوف زدہ ہونا’’لہٰذا جو معنی مراد ہے اسی کالحاظ کرکے باب لکھایا جائے ۔

اسی طرح مصدر بھی لکھانا ضروری ہے ،اس لیے کہ بسااوقات مصدر کے بدلنے سے بھی معنی بدلتاہے،جیسے‘‘وقَف’’ کامصدر اگر‘‘ وقفاً’’ آئے تواس کے معنی آتے ہیں‘‘ روکنا’’ جیسے‘‘وقف السائقُ السیارۃَ’’اور‘‘وقوفًا’’ مصدر آئے تواس کے معنی آتے ہیں‘‘رکنا’’ جیسے‘‘وقف القطارُ’’ لہٰذا معنی مرادی کا لحاظ کرکے مصدر بھی لکھوائے جائیں، اسی طرح صلات کالکھانااوریاد کرانا بھی نہایت اہم ہے؛ اس لیے کہ صلات والے افعال صلات کے بغیر نامکمل ہوتے ہیں،نیز صلات کے بدلنے سے اکثراوقات معانی بھی بدل جاتے ہیں،مثال کے طورپر‘‘دعا له’’ کے معنی آتے ہیں‘‘ دعا کرنا’’اور‘‘علیه’’صلہ آئے تواس کے معنی آتے ہیں بددعا کرنا،اسی طرح‘‘رغب’’ کاصلہ‘‘في’’ آئے تومعنی ہوتاہے‘‘ کسی چیز میں رغبت کرنا’’ اور‘‘عن’’صلہ ہوتو‘‘بے رغبتی’’ کا معنی پیدا ہوجاتاہے،اس لیے صلہ کا لکھونا اوریاد کرانا بھی بہت ضروری ہے۔مولاناوحید الزماں رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

‘‘افعال کے ساتھ جہاں جوصلات استعمال ہوں ان کو افعال کا ایسا جزولازم تصور کرایا جائے،کہ جب طالب علم اس فعل کوزبان یانوک قلم پر لائے تومعاً اس کا صلہ بھی ذہن میں آجائے۔’’( دلیل القراء ۃ الواضحہ۱؍۴)

(۵) القراء ۃ الواضحة کے تینوں حصوں کے اسباق نحوکے خاص خاص قواعد کوسامنے رکھ کر ترتیب دئے گئے ہیں، کس سبق میں کون سا سے قاعدہ پیش نظر ہے ،اس کی فہرست حصہ اول ودوم کے آخر میں دے دی گئی ہے،اورحصہ سوم میں تمرینا ت سے معلوم ہوجائے گی،استاذ طلبہ کے سامنے مختصر اً سادہ اندازمیں ان کوقواعد کی وضاحت کردے، قواعد کی جو تفصیلات سبق میں استعمال نہیں کئی گئیں ان کے بیان سے گریز کرے،اورزیادہ زور مشق وتمرین اورالفاظ کے صحیح استعمال پر صرف کرے۔

(۶) القراء ۃ الواضحة کے پہلے حصہ کے سبق نمبر۳۰ ،۳۱،اور۳۲ میں اعداد اورعدد رتبی کی مشق کرائی گئی ہے،اسی طرح دوسرے حصے کے ۲۹ تا۳۲ چار اسباق میں اعداد اورگھنٹہ ومنٹ بتانے کا طریقہ بتایا گیاہے،یہ اسباق خصوصی اہمیت کے حامل ہیں،طلبہ اعداد میں کمزور ہوتے ہیں،اور یہ کمزوری آخر تک باقی رہتی ہے،اس لیے اعداد کی زبانی مشق طلبہ سے خوب کرائی جائے ،معدود کو مذکرومونث میں بدل بدل کرطلبہ سے باربار گنتی کرائی جائے،پہلے استاذ دوتین بارایک دہائی گن کر طلبہ کو سنائے ،پھر طلبہ سے دہرانے کو کہے،اس طرح ایک ایک دہائی بڑھاتا جائے،یاد رہے اعداد کے قواعد قدرے پیچیدہ ہیں ،قواعد کوجان کر گنتی گننا آسان نہیں ہے،کثرتِ مشق سے ہی صحیح گنتی گننے کا عادی بنایا جاسکتاہے،اس لیے مشق پر زیادہ سے زیادہ زور ہو،پھر مختصرا قواعد کی تشریح میں بھی مضائقہ نہیں۔

(۷) القراء ۃ الواضحة میں بعض تمرینات میں طلبہ کوپابند کیا گیاہے کہ وہ کتاب سے سوالات نکال کر اس کا جواب تحریر کریں، استاذ کوچاہیے کہ طلبہ کو سوالات بنانے کا طریقہ بتائے تاکہ طلبہ بآسانی سوالات نکال کر ان کے جوابات لکھ سکیں،ہم عبارت کوسوال میں تبدیل کرنے کا ایک نمونہ بطورمثال پیش کرتے ہیں،اس سے آپ بآسانی سوالات بنانے کا طریقہ سمجھ سکتے ہیں:

‘‘لَمّا وَصَلَ الطالبُ إلی الْفَصْلِ فَتحَ الکِتابَ أمامَ الأستاذِ لِیَقْرأ ’’

دیکھئے اس چھوٹے سے جملے سے کتنے سوالات اخذ کئے جاتے ہیں اورکیسے اخذ کئے جاتے ہیں:

۱- مَن وصلَ إلی الفصل؟۲- أین وصل الطالبُ؟۳- ماذا فعل الطالبُ؟۴-من فتح الکتابَ؟۵- ماذا فتح الطالبُ؟۶-متی فتح الطالبُ الکتابَ؟۷-أمام من فتح الکتابَ؟ ۸- أفَتَح الکتابَ أما م زمیلہ؟ ۹-ہل وصل الطالب إلی الفصل؟۱۰-لماذا فتح الکتاب؟۱۱-أمَا فَتَح الکتابَ أمام الأستاذ؟

اس چھوٹے سے جملے سے گیارہ سوالات بن گئے اوربھی بہت سے بن سکتے ہیں،ہم نے جملے سے فاعل کوحذف کرکے‘‘مَن’’ داخل کردیاسوال بن گیا،ظرف مکان حذف کرکے ‘‘أین’’ داخل کیا،سوال بن گیا،مفعول بہ حذف کرکے ‘‘ماذا’’ داخل کیا سوال بن گیا،وقت کوحذف کرکے‘‘متی’’ داخل کیا سوال بن گیا، جملے کواپنی حالت پررکھتے ہوئے‘‘هل’’ داخل کردیا سوال بن گیا،علت کوحذف کرکے‘‘ لماذا’’ داخل کردیا سوال بن گیا،‘‘أما’’ کو داخل کردیا سوال بن گیا۔اس طرح دوتین دن اگر طلبہ کوسوال نکالنے کا طریقہ بتادیا جائے توطلبہ بآسانی یہ کام کرنے لگیں گے۔

(۸)القراء ۃ الواضحة کے تیسرے حصہ میں قواعد کی روشنی میں طلبہ کو جملے سازی کا مکلف بنایا گیا ہے،طلبہ جملے اگر خود بناتے ہیں تووہ اپنے جملوں میں سبق کی تعبیرات عموماً استعمال نہیں کرپاتے ،دوسرے ہر طالب کے جملے دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں جس سے کاپی چیک کرنے میں بڑا وقت صرف ہوتاہے اوردقت بھی پیش آتی ہے،اس لیے مناسب معلوم ہوتاہے کہ خود استاذ سبق کے الفاظ وتعبیرات کا لحاظ کرتے ہوئے اردو میں جملے لکھوادے اورانہیں کو عربی میں تبدیل کا مکلف بنائے،اس سے سبق کی تعبیرات بھی استعمال میں آجائیں گی، اورکاپی چیک کرنے میں بھی سہولت ہوگی،نیز اردو سے عربی تمرین کی مشق بھی ہوجائے گی ،جس سے ہرسہ حصے خالی ہیں،اوران جملوں کا رٹ لینا امتحان میں بھی فائدہ سے خالی نہ ہوگا۔

(۹)فن انشاء کی طرح ترجمہ بھی ایک مستقل فن ہے،ان کتابوں کے ذریعہ جہاں ہمیں طلبہ کوانشاء سکھانی ہے، وہیں ان میں بتدریج معیاری ترجمہ کا سلیقہ بھی پیدا کرنا ہے ، مولاناوحید الزماں کیرانوی صاحب نے تحریر فرمایاہے:

‘‘عام طو رپرہمارے مدارس میں جوترجمہ کیا جاتاہے،اس میں اس زبان کے قواعد ملحوظ رکھے جاتے ہیں جس سے ترجمہ کیا جارہا ہے،حالاں کہ ترجمہ کا مسلم اصول اس کے برعکس ہے،یعنی جس زبان میں ترجمہ کیا جائے اس کے قواعد ملحوظ رکھے جاتے ہیں،اس صورت میں ترجمہ سلیس وشگفتہ ہوجاتاہے۔’’(شرح نفحة الأدب ص۳)

اسی سے ملتی جلتی بات حضرت نے شرح القراءۃ الواضحة جزء اول میں ضروری ملاحظات کے عنوان کے تحت لکھی ہے،القراء ۃ الواضحہ کے تینوں حصوں کی عبارت آسان ہے ؛لہٰذا سلیس ارود ترجمہ بھی عبارت کے بالکل قریب رہ کر ممکن ہے ،اس لیے ا اس کا لحاظ کیا جانا چائیے،اوراس سلسلے میں مولاناکیرانوی کے ترجمہ سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔

ترجمہ میں اردو کے قواعد کی رعایت کس طرح کی جاتی ہے،اس کے ہم چندنمونے میں پیش کرتے ہیں:

(۱)عربی میں عموماً فعل شروع میں آتاہے اورفاعل بعد میں، جبکہ اردو میں فاعل پہلے اورفعل بالکل اخیر میں آتاہے ،جیسے عربی میں آپ کہیں گے ‘‘رکبَ حامدٌ الدراجة’’ اور اردومیں آپ کہیں گے:‘‘حامد سائیکل پر سوار ہوا’’ عربی جملے میں فعل شروع میں ہے، جبکہ اردو جملے میں بالکل اخیر میں ہے، اگر تحت اللفظ ترجمہ کردیا جائے تواردو کے اسلوب کے خلاف ہوجائے گا۔

(۲)اسی طرح ہم جب افعال کا ترجمہ کرتے ہیں توعربی فعل کا اردو متبادل لاتے ہیں،مگر عربی افعال کے جوصلات ہیں ہم ترجمہ کرتے ہوئے اردومیں ان کے متبادل نہیں لاتے ،بلکہ اردوفعل کالحاظ کرتے ہیں اگر وہ صلہ نہیں چاہتا تونہیں لاتے ،مثلا عربی میں ہم کہتے ہیں‘‘ذهبَ حامدٌ إلی السوقِ’’ اوراردومیں کہتے ہیں‘‘ حامد بازار گیا’’، اردو فعل‘‘گیا ’’ صلہ نہیں چاہتا،اس لیے ہم اس کا لحاظ کرتے ہوئے صلہ نہیں لائے،اوراگر اردو کا فعل صلہ چاہتاہے توجوصلہ وہ چاہتا ہے وہی لاتے ہیں عربی والے کا اردو متبادل نہیں لاتے ،مثلاً ہم عربی میں کہتے ہیں: ‘‘شکوتُ إلی الإستاذِ ’’ مگر اردومیں ہم ‘‘إلی’’ کا متبادل‘‘ تک ’’لانے کے بجائے‘‘ سے’’ استعمال کرتے ہیں چنانچہ ہم کہتے ہیں ‘‘ میں نے استاذ سے شکایت کی ’’،اسی طرح عربی میں کہتے ہیں:‘‘تمکن حامدٌ مِن التدریس’’ مگر اردو میں‘‘مِن’’ کا متبادل ‘‘سے’’ لانے کے بجائے ‘‘پر’’ لاتے ہیں اورکہتے ہیں‘‘ حامد تدریس پر قادر ہوگیا’’ اس لیے کہ اردو فعل قادر ہونا ‘‘پر’’ صلہ کے ساتھ استعمال ہوتاہے۔

(۳)بعض مفاہیم عربی میں مجہول افعال سے ادا کئے جاتے ہیں،مگر اردو میں بہت سی دفعہ ہم ایسے مواقع پر فعل لازم معروف استعمال ہوتے ہیں، مثلا عربی میں ہم کہتے ہیں: “فُتِحَ الْبَابُ. أغُلِقَ الدُّکانُ. وُضِعَ الأسَاسُ. بِیْعَتِ الدَّارُ، أُغْمِيَ علیه” یہ سارے افعال عربی میں مجہول ہیں ،مگر اردو میں ان مواقع پر فعل مجہول کے بجائے فعل لازم استعمال کرتے ہیں،چنانچہ ہم کہتے ہیں( دروازہ کھلا، دوکان بند ہوگئی،بنیاد پڑی ، گھر فروخت ہوگیا، وہ بے ہوش ہوگیا) ان مواقع پر اگر ہم اردو میں فعل لازم کے بجائے فعل مجہول استعمال کریں گے ،تواردو توبہت سی جگہ اورمحاورے کی روسے صحیح نہیں ہوگا،لہٰذا جہاں ایسا موقع ہو وہاں ترجمہ فعل لازم سے کیا جائے ،اورطلبہ کو بتایا جائے کہ یہاں عربی کے محاورے میں فعل مجہول استعمال ہوتاہے ،لہٰذا ہم بھی ان مواقع پر عربی میں فعل مجہول استعمال کریں گے،اوراردو میں فعل لازم ہو تا ہے، لہٰذا اردوکا لحاظ کرتے ہوئے ہم بھی لازم استعمال کریں گے،نہ عربی کواردو پر مسلط کریں گے اورنہ اردو کوعربی پر۔

(۴) اسی طرح آج کل سبب کو عربی فعل متعدی کا فاعل اور اس کے نتیجہ کو مفعول بہ بناکر بکثرت استعمال کرتے ہیں،مگر اردو محاورے کی رعایت کرتے ہوئے ہم بہت سی دفعہ فاعل کو سبب اوروجہ بناکر ہی ترجمہ کرتے ہیں،اس کی وجہ سے عربی کے فعل متعدی کو ہمیں اردو میں لازم بنانا پڑتاہے،جیسے: الازدحامُ أوقَفَ السیاراتِ، غیابُ الولد عن البیتِ أقْلَقَ الوالدۃَ،جَرسُ الہَاتفِ أزْعَجَ المَریضَ. ہم اردو میں ان مفاہیم کو عموما اس طرح ادا کرتے ہیں( ازدحام کی وجہ گاڑیاں رک گئیں،گھر میں بچے کی عدم موجودگی سے ماں پریشان ہوگئی ،موبائل کی گھنٹی سے مریض کو الجھن ہونے لگی)

(۵) اردو کے ظرف کو عربی میں بسااوقات فعل کا فاعل بناکر استعمال کرتے ہیں، ہم اردو ترجمہ میں اسے ظرف بناکر ترجمہ کرتے ہیں جیسے: شَہِدَت دِھْلي مُظَاہراتٌ کَثیرَۃٌ فِي عَامَین، قَالَ بَیَانٌ صَادِرٌ عَنْ دارِالعلومِ. پہلے میں دہلی اوردوسرے میں بیان فعل کا فاعل ہے،مگر ترجمہ میں ہم اسے ظرف بنادیتے ہیں،چنانچہ ہم کہتے ہیں( دہلی میں دوسالوں میں بہت مظاہرے ہوئے، دارالعلوم سے جاری بیان میں کہاگیا) یہ ترجمے میں اردو محاورے اوراستعمال کی رعایت کے چند نمونے ہیں۔

۴؍ اور۵؍ نمبر کے تحت جونمونے پیش کیے گئے،اس کی مثالیں ہماری نصابی کتابوں میں نہیں ہیں یاکمیاب ہیں،مگرجدید تحریروں میں ان کا استعمال کثرت سے ہوتاہے، بہرحال ترجمہ میں زبانِ مترجَم الیہ کی رعایت ضروری ہے، اگر ایسا نہیں کریں گے توترجمہ اردوکے استعمال کے لحاظ سے غلط ہوجائے گا،یہ چند مثالیں بطور نمونہ پیش کی گئیں۔

نفحة الأدب ونفحة العرب کا طریقہ ٔ تدریس

حضرات! عربی ادب کی کتابوں کی تدریس کا مقصد ان سے الفاظ وتعبیرات اخذ کرکے اپنے ذخیرۂ الفاظ وتعبیرات میں اضافہ کرنااور ان سے اسلوب اخذ کرنا ہوتاہے،پہلی کتاب ان دونوں مقاصد میں بڑی حدتک معاون ہے ،البتہ دوسری کتاب پہلے مقصد میں تومعاون ہے ،لیکن دوسرے مقصد میں زیادہ معاون نہیں ہے،ہاں اس کی نثر قدیم اسلو ب پر ہے،اس لیے یہ نثر احادیث وسیر اورادب وغیرہ کی قدیم کتابوں کے سمجھنے میں معاون ضرور ہے،لہٰذا ہمیں ان کتابوں کی تدریس میں یہ چیزیں پیش نظر رکھنی چاہئے۔

سامعین باتمکین! اوپربات قدرے تفصیل سے سامنے آچکی ہے،اوروقت تنگ دامانی کی شکایت کررہاہے اس لیے یہاں بس اشارے پر اکتفا کیا جاتاہے۔

(۱) عمومی ہدایا ت میں ہدایت نمبر ۱ ،۲ اور۳ میں حفظ لغات وتعبیرات،جہری قراء ت کا اہتمام اورگھنٹے کی ترتیب بنانے کے تعلق سے جوباتیں کہی گئی ہیں انہیں پیش نظر رکھا جائے۔

(۲) لغات لکھوانے کے سلسلے میں القراء ۃ الواضحہ کے طریقہ ٔ تدریس کے سلسلے میں ہدایت نمبر۴ میں تفصیلی معروضات پیش کی گئی ہیں،ان دونوں کتابوں میں لغات لکھواتے ہوئے ان کا لحاظ رکھناضروری ہے۔

(۳) ترجمہ کے تعلق سے ضروری تفصیل القراء ۃ الواضحة کی طریقۂ تدریس کے بیان کے ضمن میں ہدایت نمبر۹ میں آئی ہیں ترجمہ میں اس کا لحاظ کیا جائے،البتہ یہ وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے،کہ القراءۃ الواضحة کی عبارت کے بنسبت نفحۃ الادب کی عبارت قدرے مشکل اورنفحة العرب کی عبارت اس سے زیادہ مشکل ہے،اسی مشکل کو محسوس کرتے ہوئے مولانا وحید الزماں صاحب نے نفحۃ الأدب کی شرح میں ترجمہ کے تعلق سے خاصی تفصیلی ہدایات دی ہیں اور یہی چیز اردو ترجمہ لکھنے کی بھی محرک ہوئی ہے،لہٰذا استاذ کو یہ ہدایات دیکھنی چاہیے، اورمولاناکے ترجمے سے بھی استفادہ کرنا چاہیے،جہاں سلیس اردو میں ترجمہ طلبہ کے لیے مشکل ہووہاں پہلے لفظی ترجمہ سمجھا دیا جائے، پھرسلیس ترجمہ بتایا جائے، اور اگر اس کے بعد بھی سلیس ترجمہ میں طلبہ کو دشواری ہوتوپھرجہاں جہاں دشواری ہو وہاں لفظی ترجمہ ہی کرایا جائے،یہی طریقہ نفحة العرب میں بھی رکھا جائے۔

( ۴) یہ دونوں کتابیں اصلاً توریڈنگ کی ہیں؛ لیکن نفحۃ الادب میں مؤلف کی خواہش ہے کہ طلبہ سبق سے سوالات اخذ کرکے تمرینات بھی کریں،مگر نصاب کے طویل اوروقت کے تنگ ہونے کے سبب اس کی گنجائش عموماً نہیں بن پاتی،لیکن اگر کوئی اس کے لیے وقت نکال سکے توطریقۂ تمرین مؤلف کی اردو شرح کے مقدے سے معلوم ہوجائے گا، القراءۃ الواضحة کے طریق تدریس میں ہدایت نمبر ۷ سے بھی رہنمائی مل سکتی ہے۔

(۵)نفحة العرب کی نثر عام طلبہ کی سطح سے بلند ہے،پھر انشاء اورادب کی کتابوں جومنہجیت اورتدریج ہوتی ہے کہ آہستہ آہستہ نثر کا معیار بلند ہوتاہے وہ بھی یہاں نہیں ہے،قدیم ادبی کتابوں سے تراشے تدریج کا لحاظ کئے بغیر جمع کردئے گئے ہیں،ان اسباب کی وجہ سے کتاب طلبہ کو مشکل معلوم ہوتی ہے،پھرنصاب بھی خاصا ہے ،لہٰذا استاذ کوچاہیے کہ پورا گھنٹہ دے، کتاب توجہ سے پڑھائے اوراسباق کوسننے کا خصوصی اہتمام کرے،کتاب میں ذکرکردہ حکایتیں اوران میں مذکور شخصیات بھی نامانوس ہوتی ہیں اس کی وجہ سے بھی طلبہ کتاب سے متوحش ہوتے ہیں،استاذ کو چاہیے کہ سبق شروع کرنے اس میں ذکر کردہ حکایت یا لطیفے کو پہلے اپنی زبان میں بیان کردے ،پھر سبق پڑھائے،ان شاء اللہ اس سے انسیت بڑھے گی اور دلچسپی پیداہوگی۔

کچھ مفید باتیں:

(۱) ہم جب کسی سے ملاقات کرتے ہیں ،تواصل گفتگو سے پہلے سلام ،خوش آمدید اورمزاج پرسی کے کچھ الفاظ کہتے ہیں،اسی طرح ملاقات کے بعد جب رخصت ہوتے ہیں توکچھ الواداعی الفاظ بولتے ہیں ،یہ سبھی زبانوں میں ہوتاہے،اوریہ حسن اخلاق کاحصہ بھی ہے،اگر آپ آنے والے سے یہ الفاظ نہ کہیں توبسااوقات وہ برا مان جاتاہے،عربی میں بھی ملاقات کے وقت تحیہ وترحیب، اسی طرح رخصتی کے وقت وداع کے کچھ الفاظ بولے جاتے ہیں، ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم طلبہ کو ان الفاظ کے برموقع صحیح استعمال کا عادی بنادیں ،تاکہ طلبہ عربی میں کسی کوخوش آمدید کہنے اوراس کی مزاج پرسی پر قادر ہوسکیں،اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جب طلبہ کو محادثہ یا سوال وجواب کی زبانی تمرین کے لیے کھڑا کریں تواصل محادثہ یا سوال وجواب شروع کرنے سے پہلے ترحیب کے الفاظ کہنے کا پابند بنائیں،اورمحادثہ وسوال وجواب کے خاتمہ پر وداع کے کلمات کہنے کا پابند کریں ، اگر روز ممکن نہ ہوسکے ، تووقفے وقفے سے کہلوایا کریں،اس طرح طلبہ کوان کلمات کی اچھی مشق ہوجائے گی،اسی مقصد سے ہم تحیہ وترحیب، اسی طرح وداع کے کچھ الفاظ نقل کرتے ہیں:

التحیة والترحیب

السلام علیکم                            وعلیکم والسلام ورحمة الله وبرکاته

میزبان :                                      صباحَ الخیر ؍مساءَ الخیر                 (صبح بخیر؍ شام بخیر)

 مہمان :                                    صباحَ النور ؍ مساءَ النور                 (صبح پرنور؍ شام پرنور)

میزبان :                                     أهلاً                          (آنا مبارک)

 مہمان :                                    أهلاًبکَ                      (آپ کو بھی مبارک)

میزبان :                                    مَرْحَبَا                         (خوش آمدید)

 مہمان :                                   مَرْحَباً بِکَ                     (مرحبا)

میزبان :                                    کیفَ الحالُ یاعزیزي                    ( اور،مزاج کیسے ہیں؟)

 مہمان:                                    بخیرٍ والحمدُ للّٰه                           (الحمد للہ بعافیت ہوں)

میزبان :                                   کیفَ الشُّغْلُ؍ کیفَ الدِّرَاسَةُ؟          (کام کاج کیسا ہے؟؍ پڑھائی لکھائی کیسی ہے؟)

مہمان:                                    علی ما یُرَامُ                    (سب کچھ ٹھیک ہے،جیسا چاہیے ویسا ہے)

لمحة وداع

مہمان:                               فُرْصَة سَعِیْدَۃٌ                          (آپ کے ساتھ ملاقات اچھی رہی)

میزبان :                              سَعِدْتُّ بِلِقَائِکَ وَاللّٰه                  ( مجھے بھی آپ سے مل کر خوشی ہوئی)

مہمان:                               شُکْرًا                                  (بہت بہت شکریہ)

میزبان :                              عَفْوًا                                  ( کوئی بات نہیں)

مہمان :                              مَعَ السَّلَامَة                            (خدا حافظ)

میزبان:                              إلیَ اللِّقَاءِ إنْ شَاءَ اللّٰه          (پھر ملاقات ہوگی ان شاء اللہ)

(۲) ہمارے طلبہ عربی پڑھتے ہیں ،مگر عربی میں گفتگو توکجا تحریری یازبانی طور پر چند الفاظ میں اپنا تعارف پیش کرنے سے عموما قاصر ہوتے ہیں،یہ بہت بڑی کمی ہے، اورظاہر ہے کہ یہ کمی طلبہ کی نہیں ؛ بلکہ ہم اساتذہ کی ہے،کہ ہمیں انہیں عربی زبان میں تعار ف کا طریقہ نہیں بتاتے ؛لہٰذا اساتذہ کو چاہیے کہ طلبہ کو عربی میں تحریری اورزبانی دونوں طریقے سے اپنا تعارف کرانا سکھائیں،ہم عربی چہارم وپنجم تک کے طلبہ کو مدنظر رکھتے ہوئے مختصر تعارف کے تحریری وتقریری دونمونے پیش کرتے ہیں،تاکہ اساتذہ کو تعارف سکھانے میں سہولت ہو،بوقت ضرورت اساتذہ اس میں تبدیلی بھی کرسکتے ہیں، پہلے ہم شخصی تعارف کا تحریری نمونہ پیش کرتے ہیں،اوراس کے بعد زبانی تعارف کا نمونہ پیش کریں گے:

نموذج للسیرۃ الذاتیة لطالب المدرسة

اسم الطالب:                 محمد أحمد بن محمد کلیم حفظه الله

العمر:                       خمسۃ عشر عاماً

العنوان:                    قریة حمید فور،بمدیریة مرادآباد بولایة یوبي، الهند

المادۃ:                      علوم الشریعة واللغة العربیة

السَّنَة:                       السنة الثانیة؍ الثالثة؍ الرابعة من الدراسة العربیة (عربی دوم، یاسوم، یا چہارم)

المدرسة:                   مدرسة شاهي بمدنیة مراآباد

الشہادات(سندات):        (۱) شہادۃ تحفیظ القرآن من مدرسة قاسم العلوم بمدینة مراد آباد

          (۲) شہادۃ التجوید والقراءۃ بروایة حفص عن الإمام عاصم من مدرسۃ شاهي

الطُّمُوحَات (ارادے):        الحصول علی شہادۃ الفضیلة في العلوم الإسلامیة،وشہادۃ التخصص  في الأدب العربي ،وشہادۃ التخصص في الفقة والإفتاء.

کیف یُعَرِّف طالبُ المدرسة بنفسه بالعربیة(نموذج)

مرحبا! اسمي محمد أحمد بن محمد کلیم حفظه الله، بلغتُ من عمري خمسه عشرعامًا، أسکُنُ بقریه حمید فور،بمدیریة مرادآباد بولایة یوبي، الہند. وأنا طالبُ الشریعة الإسلامیة واللغة العربیة، أدْرُسُ في السنة الثالثة من الدراسۃ العربیة، بمدرسة شاهي بمدینة مرادآباد، وأنا حافِظٌ وَمُجَوِّدٌ للقرآن الکریم، وأتمنی الحصولَ علی شہادۃ الفضیلة في العلوم الإسلامیۃ، وشہادۃ التخصص في الأدب العربي، وشہادۃ التخصص في الفقه والإفتاء من الجامعۃ الإسلامیة دارالعلوم بدیوبند، أومن بعض الجامعات الأخری المعروفة في الہند، کما أتمنی العمل علی نشر العلم والدین.

(۳)ہمارے طلبہ بیماری کی وجہ سے،گھر جانے ،شادی بیاہ کی تقریبات میں شرکت کرنے اوردیگر مختلف اسباب کی وجہ سے چھٹی لیتے ہیں،اساتذہ کو چاہیے کہ وہ طلبہ کو عربی زبان میں چھٹی کی درخواست لکھنا سکھائیں،اورپھر انہیں عربی میں ہی درخواست لکھنے کا پابند کریں،اس سے انہیں عربی میں درخواست لکھنے کا طریقہ معلوم ہوگا،ذیل میں ہم اساتذہ کی سہولت کے پیش نظر چھٹی لینے کے لیے طلبہ کی طرف سے لکھی جانے والی درخواستوں کے چندنمونے پیش کرتے ہیں:

نماذج طلبات الإجازۃ من الطلبة

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

سیدي فضیلة مدیر المدرسة المحترم حفظہ اللّٰه

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

أتقدَّم إلیکم بطلبي هذا للحصول علی إجازۃ لمدۃ ثلاثة إیام تبدأ من ۳؍ محرم الحرام وتنتہي في ۵ منه، وذلک لأني أوَدُّ المشارکة في زواجِ شقیقي الأکبر، علی أن أعودَ إلی المدرسة بعد انتہاء الإجازۃ ،لذلک أرجُو أن تَتَکَرَّمُوا بالموافقة علی مَنحِي الإجارۃَ.

تَقبلوا فَائقَ احترامِي

والسلام علیکم

مُقدِّم الطلبِ: محمد أحمد المرادآبادي

 طالب السنة الثالثة من الدراسة العربیة بنفس المدرسة

السبت۲؍۱؍۱۴۴۴ھ

(خدمت اقدس میں عرض ہے کہ بندہ کو از۳ تا۵محرم الحرام تین یوم کی رخصت مطلوب ہے،میں اپنے بڑی بھائی کی شادی میں شرکت کرنا چاہتاہوں،چھٹی ختم ہوتے ہی مدرسہ حاضرہوجاؤں گا،امید ہے چھٹی منظور فرما کر ممنون فرمائیں گے،میری طرف سے احترام کے جذبات قبول فرمائیں)

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

حضرۃ السید مدیرالمدرسۃ المحترم، حفظہ اللّٰه

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

أرجوالتَّکَرُّمَ بالموافقة علی إعطائي إجازۃً لفترۃ خمسة أیام، ابتداءً من ۲۱من صفر وانتہاءً في ۲۵ منه، فإني أشْکُو الْمَرضَ منذ أیام، وأراجِعُ الطبیبَ بدون جدوی؛ لذا أوَدُّ السفرَ إلی البیت حتی أتَلَقَّی ہنا العلاجَ تحت رعایة الأسرۃ، وأعود إلی المدرسة أن شاء اللّٰہ فورَ شفائي من المرض.المَأمُولُ أن طَلَبي سیَحْظَی بالقبول لدیکم.

تَقَبَّلُوا احترامي وإجلالي

والسلام علیکم

مقدمہ: عبد الرحمن الدهلوي

طلب السنة الرابعة من الدراسة العربیة بنفس الجامعة

الأحد ۱۹؍۲؍۱۴۴۳ھ

(قابل احترام مہتمم صاحب !حضرت والا سے درخواست ہے کہ کرم فرماکر میرے لیے ۲۱تا۲۵ صفر پانچ دن کی رخصت منظورفرمائیں،میں کئی دنوں سے بیمارچل رہا ہوں،ڈاکٹر کو دکھارہاہوں مگر کوئی فائدہ نہیں ہورہاہے،اس لیے میں گھر جانا چاہتاہوں تاکہ گھر والوں کی نگر انی میں علاج ہوسکے،صحت ہونے پر ان شاء اللہ فورا مدرسہ حاضر ہوجاؤں گا،امید ہے میری درخواست قبول ہوگی)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سیدي فضیلة مدیر المدرسة المحترم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته

 أتقدَّم إلیکم بطلبي هذا للحصول علی إجازۃ لمدۃ یومین ۱۲-۱۳من محرم الحرام ، فقد بَلَغَنِي أنَّ وَالِدَتي أصَابَہا مَرَضٌ شَدِیدٌ،فأوَدُّ الذَّهابَ إلی البیت لأعُوْدَھا،لذلک أرجُو التَّکرُّمَ بالموافقۃ علی مَنحِي الإجارۃَ.

تَقبلو ا فَائقَ تقدیري احترامِي

والسلام علیکم

مُقدِّم الطلب: محمد أحمد المرادآبادي

 طالب السنة الثالثة من الدراسۃ العربیۃ بنفس المدرسۃ

الأربعاء۱۰؍۱؍۱۴۴۴ھ

 

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

سیدي فضیلة مدیر المدرسة المحترم حفظه اللّٰه

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

أتقدَّم إلیکم بطلبي هذا للحصول علی إجازۃ لمدۃ یومین ۱۲-۱۳من محرم الحرام ،وذلک لأن فصل الشتاء قریب،أحتاجُ فیه إلی الملابس الشتویۃ، فأرید الذهابَ إلی البیت لإحضارہا،فأرجوکم التَّکرُّمَ بالموافقه علی مَنحِي الإجارۃَ.-05 تَقبلو ا فَائقَ احترامِي

والسلام علیکم

مُقدِّم الطلب: محمد أحمد المرادآبادي

 طالب السنۃ الثالثۃ من الدراسۃ العربیۃ بنفس المدرسۃ

الأربعاء۱۰؍۱؍۱۴۴۴ھ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرۃ الأستاذ الأجل حفظہ اللہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

أرجوکم أن تسمحوا لي الیوم بالانفکاک من الدرس، فأني أشکو الحُمّی والسُّعال والضُّعف لاأستطیع معہا حضورَ الدرس، وقدنصحني الطبیب بالاستراحۃ إلی أن تزول الحمی، آمُلُ أن طلبي سیَحْظَی بالقبول لدیکم.

 تَقبلو ا فَائقَ احترامِي

والسلام علیکم

مُقدِّم الطلب: محمد أحمد المرادآبادي

 طالب السنۃ الثالثة من الدراسۃ العربیۃ بنفس المدرسة

الأربعاء۱۰؍۱؍۱۴۴۴ھ

 اللہ تعالی ان معروضات کو مفید ونافع بنائے،اورہم سبھی کو احساس ذمہ داری اورفکرمندی کے ساتھ طلبہ کو پڑھانے کی توفیق مرحمت فرمائے ،ولله الحمد أولا وآخرا ،وما توفیقي إلا بالله ،علیه توکلت وإلیه أنیب.



کتب انشاء وادب کا طریقۂ تدریس PDF

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply