hamare masayel

کمپنی سے پیسہ لینے کے لیے سامان کی بل بنوانا

(سلسلہ نمبر: 695)

 کمپنی سے پیسہ لینے کے لیے سامان کی بل بنوانا

سوال: امریکہ میں زید نوکری کرتا ہے، اس کا مالک یہ کہتا ہے کہ اپنے گھر میں آفس کا کام کرنے کے لئے لیپٹاپ لے لو، اور اس کے پیسہ ہمیں بتادو، ہم وہ ادا کردیں گے، زید کے پاس پہلے ہی سے لیپٹاپ ہے جس پر وہ آفس کا کام کرسکتا ہے؛ لیکن وہ پھر بھی آفس کے خرچہ پر لیپٹاپ لے لیتا ہے اور اپنے مالک کو رسید دیکھا کر اس سے پیسہ لے لیتا ہے اور بعد میں اسی دکان دار کو وہ لیپٹاپ واپس کرکے پیسہ بچالیتا ہے تو کیا ایسا کرنا درست ہے.؟ مدلل جواب عنایت فرما کر ثواب دارین حاصل کریں؟

المستفتی: محمد حسن رضا، کراچی۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب: صورت مسئولہ میں زید کے لئے ایسا کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ دھوکہ ہے جو سراسر حرام ہے، کمپنی نئے لیپ ٹاپ کے پیسے یہ سمجھ کر ادا کررہی ہے کہ زید اس پر ہمارا کام کرے گا، اگر زید کمپنی کو یہ بتا دیتا کہ میرے پاس لیپ موجود ہے تو کمپنی اس کو نئے لیپ ٹاپ کے پیسے ادا نہیں کرتی، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پیسے اس لئے ادا کررہی ہے کہ اس کا ملازم ان پیسوں سے لیپ ٹاپ خریدے، لہذا بعد میں لیپ ٹاپ واپس کرکے اس کی رقم کا استعمال زید کے لئے درست نہیں ہے؛ بلکہ کمپنی کو واپس کرنا ضروری ہے، البتہ اگر کمپنی کو بتانے کے بعد کمپنی اس رقم کو استعمال کی اجازت دیدے تو پھر زید کے لئے استعمال کرنا جائز ہے۔

الدلائل

قال الله تعالى: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا. (النساء: 29).

قوله تعالى: {ولا تأکلوا أموالکم بینکم بالباطل}كالدعوى الزور والشهادة بالزور أو الحلف بعد إنكار الحق أو الغصب والنهب والسرقة والخيانة أو القمار وأجرة المغني ومهر البغي وحلوان الکاهن وعسب التیس والعقود الفاسدۃ أو الرشوۃ وغیر ذلک من الوجوہ التي لا یبیحه الشرع. (التفسير المظهري: 1/ 236).

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلَاحَ فَلَيْسَ مِنَّا، وَمَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا “. (صحيح مسلم، الرقم: 101).

لا یجوز لأحد أن یأخذ مال أحد بلا سبب شرعي ، أي لا یحل في کل الأحوال عمدا أو خطأ أو نسیانا ، جدا أو لعبا أن یأخذ أحد مال أحد ، بوجه لم یشرعه الله تعالی ولم یبحه؛ لأنه حقوق العباد محترمة لا تسقط …… یجب علیه ردّہ قائمًا أو مثله أو قیمته هذا. (شرح المجلة: ص: 264, 265).

 والله أعلم.

حرره العبد محمد شاکر نثار المدني القاسمي غفرله أستاذ الحديث والفقه بالمدرسة الإسلامية العربية بيت العلوم سرائمير أعظم جره الهند.

7- 5- 1443ھ 12- 12- 2021م الأحد

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply