hamare masayel

بلا وجہ خلع کا مطالبہ کرنا کیسا ہے؟

بلا وجہ خلع کا مطالبہ کرنا کیسا ہے؟

سوال: ایک شخص کی بیوی بار بار اس سے خلع کا مطالبہ کر رہی ہے، وہ کہہ رہی ہے کہ تمہارے ساتھ رہنا مشکل ہے مجھے طلاق دیدو میں مہر واپس کردوں گی، لیکن شوہر طلاق نہیں دینا چاہتا ہے، معلوم یہ کرنا ہے کہ بیوی کا بلا وجہ خلع کا مطالبہ شرعاً کیسا ہے، نیز اگر وہ شخص طلاق دیدے تو اس کے لئے مہر واپس لینا جائز ہے یا نہیں؟ برائے مفصل جواب عنایت فرمائیں، نوازش ہوگی۔

 المستفتی: محمد عامر فلاحی، تنزانیہ۔

الجواب باسم الملھم للصدق والصواب:

 اگر شوہر کی طرف سے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں ہے تو بیوی کے لئے خلع کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے، ایسی عورت کے بارے میں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:  اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔

پھر بھی اگر بیوی خلع پر بضد ہو تو  شوہر خلع کرسکتا ہے، لہذا شوہر اگر مہر کی واپسی کی شرط کے ساتھ طلاق دے گا تب مہر واپس ملے گا، اور اگر بلا شرط طلاق دیدیا تو مہر واپس نہیں ملے گا، طلاق کے بعد عورت اگر شوہر کی منشاء کے مطابق (شوہر جہاں عدت گزارنے کا حکم دے وہاں) عدت گزارے گی،  تو ایام عدت کا خرچہ ملے گا ورنہ نہیں۔

اور اگر شوہر کی طرف سے تعدی ہو تو بیوی کا مطالبہ درست ہے، لہذا ایسی صورت میں اگر شوہر کو یقین ہو آئندہ ساتھ رہنا مشکل ہے تو بغیر کچھ لئے طلاق دے دینا چاہئے، کیونکہ ایسی صورت میں بیوی سے کچھ لینا جائز نہیں ہے؛ لیکن پھر بھی اگر لے لیا تو اس مال کا مالک ہوجائے گا، اور آئندہ اس کا استعمال حرام نہیں ہوگا۔ واللہ اعلم۔

الدلائل

قال الله تعالى: ﴿فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾ (البقرة: 229).

 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ أَتَتِ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ مَا أَعْتِبُ عَلَيْهِ فِي خُلُقٍ وَلَا دِينٍ، وَلَكِنِّي أَكْرَهُ الْكُفْرَ فِي الْإِسْلَامِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: ” أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ ؟ “. قَالَتْ : نَعَمْ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: ” اقْبَلِ الْحَدِيقَةَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِيقَةً. (صحيح البخاري، الطلاق/الخلع، رقم الحديث: 5273).

قال النبي ﷺ: أيما امرأة سألت زوجها الطلاق من غير بأس حرم الله عليها أن تريح رائحة الجنة. (المستدرك للحاكم: 2/ 218).

(وَأَمَّا) بَيَانُ قَدْرِ مَا يَحِلُّ لِلزَّوْجِ مِنْ أَخْذِ الْعِوَضِ وَمَا لَا يَحِلُّ فَجُمْلَةُ الْكَلَامِ فِيهِ أَنَّالنُّشُوزَ لَا يَخْلُو إمَّا أَنْ كَانَ مِنْ قِبَلِ الزَّوْجِ وَإِمَّا إنْ كَانَ مِنْ قِبَلِ الْمَرْأَةِ فَإِنْ كَانَ مِنْ قِبَلِ الزَّوْجِ فَلَا يَحِلُّ لَهُ أَخْذُ شَيْءٍ مِنْ الْعِوَضِ عَلَى الْمُخْلِعِ لِقَوْلِهِ تَعَالَى:

 ﴿وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا﴾ [النساء: 20]

 نَهَى عَنْ أَخْذِ شَيْءٍ مِمَّا آتَاهَا مِنْ الْمَهْرِ وَأَكَّدَ النَّهْيَ بِقَوْلِهِ:

 ﴿أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا﴾ [النساء: ٢٠] ، وَقَوْلُهُ: ﴿وَلا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ﴾ [النساء: ١٩] أَيْ: لَا تُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ ﴿إِلا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ﴾ [النساء: ١٩] أَيْ: إلَّا أَنْ يَنْشُزْنَ؛ نَهَى الْأَزْوَاجَ عَنْ أَخْذِ شَيْءٍ مِمَّا أَعْطَوْهُنَّ وَاسْتَثْنَى حَالَ نُشُوزِهِنَّ.

وَحُكْمُ الْمُسْتَثْنَى يُخَالِفُ حُكْمَ الْمُسْتَثْنَى مِنْهُ فَيَقْتَضِي حُرْمَةَ أَخْذِ شَيْءٍ مِمَّا أَعْطَوْهُنَّ عِنْدَ عَدَمِ النُّشُوزِ مِنْهُنَّ، وَهَذَا فِي حُكْمِ الدِّيَانَةِ، فَإِنْ أَخْذَ جَازَ ذَلِكَ فِي الْحُكْمِ وَلَزِمَ حَتَّى لَا يَمْلِكَ اسْتِرْدَادَهُ؛ لِأَنَّ الزَّوْجَ أَسْقَطَ مِلْكَهُ عَنْهَا بِعِوَضٍ رَضِيَتْ بِهِ، وَالزَّوْجُ مِنْ أَهْلِ الْإِسْقَاطِ.

وَالْمَرْأَةُ مِنْ أَهْلِ الْمُعَاوَضَةِ وَالرِّضَا فَيَجُوزُ فِي الْحُكْمِ وَالْقَضَاءِ، وَإِنْ كَانَ النُّشُوزُ مِنْ قِبَلِهَا فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَأْخُذَ مِنْهَا شَيْئًا قَدْرَ الْمَهْرِ لِقَوْلِهِ تَعَالَى:

 ﴿إِلا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ﴾ [النساء: 19] أَيْ: إلَّا أَنْ يَنْشُزْنَ، وَالِاسْتِثْنَاءُ مِنْ النَّهْيِ إبَاحَةٌ مِنْ حَيْثُ الظَّاهِرُ،

وَقَوْلُهُ ﴿فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ﴾ [البقرة: 229]

قِيلَ أَيْ: لَا جُنَاحَ عَلَى الزَّوْجِ فِي الْأَخْذِ وَعَلَى الْمَرْأَةِ فِي الْإِعْطَاءِ. (بدائع الصنائع ٣/ ١٥٠).

(قَوْلُهُ: وَكُرِهَ تَحْرِيمًا أَخْذُ الشَّيْءِ) أَيْ قَلِيلًا كَانَ، أَوْ كَثِيرًا.

وَالْحَقُّ أَنَّ الْأَخْذَ إذَا كَانَ النُّشُوزُ مِنْهُ حَرَامٌ قَطْعًا.

 ﴿فَلا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا﴾ [النساء: ٢٠]

 إلَّا أَنَّهُ إنْ أَخَذَ مَلَكَهُ بِسَبَبٍ خَبِيثٍ. (رد المحتار: 3/ 445).

والله أعلم

تاريخ الرقم: 6- 8- 1441ھ 1- 4- 2020م الأربعاء.

المصدر: آن لائن إسلام.

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply