hamare masayel

بلا وضو قرآن کریم کو ہاتھ لگانا جائز نہیں

بلا وضو قرآن کریم کو ہاتھ لگانا جائز نہیں

سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا مسلمان قرآن مجید بغیر وضو کے چھوسکتا ھے یعنی بغیر وضو کے ہاتھ میں لیکر پڑھ سکتا ہے؟

ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب نے بیان دیا ہے کہ قرآن اور حدیث میں کہیں نہیں لکھا ہے کہ قرآن مجید چھونے اور پڑھنے کیلئے وضو کرنا ضروری ہے ۔ مثلا مسلمان پاک صاف ہے اگر پیشاب کیا تو استنجاء کیا لیکن وضو نہیں کیا تو قرآن مجید ہاتھ میں لیکر پڑھ سکتا ہے۔   کیا قرآن مجید اورحدیث میں ھے کہ بغیر وضو کے نہیں چھو سکتے یا ہاتھ میں لیکر نہیں پڑھ سکتے؟

جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں

المستفتی: محفوظ الرحمن چھتے پور (مقیم حال سعودی)

الجواب باسم الملهم للصدق والصواب

 اللہ رب العزت کا ارشاد گرامی ہے:  ﴿لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ [الواقعة: 79] یعنی قرآن کریم کو پاک لوگوں کے علاوہ کوئی اور نہیں چھو سکتا، اس آیت کریمہ میں پاک لوگ سے کون لوگ مراد ہیں، مفسرین کا اس میں اختلاف ہے، بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس سے ملائکہ مراد ہیں بعض کہتے ہیں ایسے انسان مراد ہیں جو ملائکہ کی طرح گناہوں سے پاک صاف ہوں، جبکہ بہت سے حضرات کہتے ہیں کہ ایسے لوگ مراد ہیں جو حدث اکبر وحدث اصغر سے پاک ہوں یعنی باوضو ہوں۔

چنانچہ تفسیر وفقہ کی اَکثر کتابوں مثلاً، تفسیر قرطبی، تفسیر کبیر، تفسیر ابن کثیر اور شامی، بدایة المجتہد، بدائع الصنائع وغیرہ میں یہ صراحت ہے کہ جمہور فقہاء واکثر مفسرین اور حضراتِ صحابہ وتابعین میں حضرت علی، ابن مسعود، سعد بن وقاص سعید بن زید رضى الله عنہم عطاء، زہری، ابراہیم نخعی، حکم، حماد، امام مالک، امام ابوحنیفہ، شافعی رحمہم اللہ وغیرہ کے نزدیک جنبی اور حائضہ کی طرح بے وضو شخص کے لئے بھی قرآنِ کریم کو چھونا ناجائز اور قرآن کی توہین ہے۔

اگر چہ وہ احاديث جن مىں بلا وضو قرآن كريم كو چھونے سے منع كىا گىا ہے وہ سب ضعیف ہیں لیکن محدثین کرام کا یہ ضابطہ ہے کہ اگر حدیث ضعیف ہو اور امت کا اس پر عمل ہو تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ حدیث ثابت ہے ضعف بعد میں طاری ہوا ہے ورنہ امت کا عمل اس پر نہ ہوتا، جیسا امام ترمذی رحمہ اللہ سنن ترمذی میں بے شمار ایسی روایات کو لاتے ہیں جن میں ضعف ہوتا ہے لیکن اس کے بعد یہ بھی کہتے ہیں کہ: والعمل علی ھذا عند أکثر اھل العلم (اس حدیث پر بہت سے اہل علم کا عمل ہے) یعنی ایسی حدیثوں پر ضعف کے باوجود عمل کیا جائیگا.

حکیم الامت حضرت تھانوی علیہ الرحمہ نے اسی طرح کے ایک عربی سوال کے جواب میں فرمایا: ألیس اتفاق الجمھور علامة لکون الحدیث له أصل قوي وإن طرء علیه الضعف لعارض السند. (امداد الفتاوی 410/1) یعنی جمہور کا بلا وضو قرآن کے چھونے پر عدم جواز کا اتفاق اس بات کی دلیل ہے کہ ان احادیث کی اصل ثابت ہے گرچہ بعد میں سند میں ضعیف راوی آنے کی وجہ سے حدیث کو ضعیف کہا جاتا ہے۔

اس لئے ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کا کہنا کہ قرآن وحدیث میں بے وضو قرآن کریم چھونے سے منع نہیں کیا گیا ہے، یہ بات درست نہیں ہے۔

الدلائل

قال اللّٰه تعالیٰ: ﴿لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ﴾ [الواقعة: 79]

[لاَ یَمَسُّه اِلاَّ الْمُطَھَّرُوْنَ] قال قتادة وغیره: {لاَ یَمَسُّه اِلاَّ الْمُطَھَّرُوْنَ} من الأحداث والأنجاس…، واختلف العلماء في مس المصحف علی غیر وضوء، فالجمهور علی المنع من مسه لحدیث عمرو بن حزم، وهو مذهب علي وابن مسعود وسعد بن وقـاص، وسعید بن زید، وعطاء، والزهري، والنخعي والحکم وحماد، وجماعة من الفقهاء منهم مالک والشافعي. واختلف الروایة عن أبي حنیفة فروي عنه أنه لا یمسه المحدث. روي عنه أنه یمسه ظاهره وحواشیه وما لا مکتوب فیه، وأما الکتاب فلا یمسه إلا طاهر. (تفسیر القرطبي: 17/ 146، 147،  بیروت، 17/ 226 دار إحیاء التراث العربي بیروت، ومثله في تفسیر الکبیر للفخر الرازي: 29/ 193، 194، تفسیر ابن کثیر مکمل ص: 1204، دار السلام ریاض، معارف القرآن: 8/ 286، روح المعاني 27/ 154، بدائع الصنائع 1/ 140، بدایة المجتهد 1/ 30 بیروت)

وعن عبد اللّٰه بن أبي بکر بن محمد بن عمرو بن حزم أن في الکتاب الذي کتبه رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم لعمرو بن حزم أن لا یمس القرآن إلا طاهر. (تفسیر ابن کثیر ص: 1304 الریاض، المؤطا للإمام مالک/إن الوضوء لمن مس القرآن 69، دیوبند)

ومذهب الفقهاء في هذه الآية أن الضمير في قوله: (لَّا يَمَسُّهُ) يعود إلى القرآن، والمراد بالقرآن المصحف …. والمراد بقوله: (الْمُطَهَّرُونَ) أي من الأحداث والجنابات “التفسير البسيط”(21/ 261)

وقال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله تعالى: هذا من باب التنبيه والإشارة، وإذا كانت الصحف التي في السماء لا يمسُّها إلا المطهَّرون، فكذلك الصحف التي بأيدينا من القرآن لا ينبغي أن يمسَّها إلا طاهِرٌ. التبيان في أيمان القرآن (1/ 330).

 اتفق الفقهاء علی أنه یحرم مس المصحف لغیر الطاهر طهارة کاملة من الحدثین الأصغر والأکبر، لکن تختلف عباراتهم في الشروط والتفصیل، فقال أبوحنیفةؒ: یحرم مس المصحف کله أو بعضه، أي مس المکتوب منه ولو آیة علی نقود درهم، أو غیره أو جدار الخ. (الموسوعة الفقهیة الکویتیة 3/ 276)

   ولا یجوز لمحدث بأحد الحدثین مس مصحف ولو بیاضه إلا بغلافه المنفصل لا بغلافه المتصل به في الصحیح وعلیه الفتوی، وکره المس بالکم أو بشيء من الثوب الذي علی الماس؛ لأنه تبع له وقیل: لا یکره، وجعله في المحیط قول الجمهور، وتبعه في الدرر والتنویر، ولا یجوز مس درهم فیه سورة أي آیة إلا بصرته؛ لأنها کالغلاف. (الدرالمنتقی مع سکب الأنهر، کتاب الطهارة، دارالکتب العلمیة بیروت ۱/ 4۲). فتح القدیر، کتاب الطهارة، باب الحیض والاستحاضة، مکتبه زکریا دیوبند1/ 173، کوئٹه 1/ 149)

لا یجوز لمحدث مس مصحف إلا بغلافه المنفصل لا المتصل في الصحیح. (مجمع الأنهر/کتاب الطهارة1/ 142، دار الکتب العلمیة بیروت، رد المحتار/کتاب الطهارة 1/ 173 کراچی، وکذا في النهر الفائق/ کتاب الطهارة 1/ 134 المکتبة الإمدادیة ملتان)

ویحرم به تلاوة القرآن بقصده … ومسه بالأکبر وبالأصغر مس المصحف، إلا بغلاف متجاف غیر مشرز أو بصرة، به یفتیٰ. (الدر المختار/ کتاب الطهارة 1/ 172، 173، کراچی، الطحطاوي 143)

لا یجوز لهما ولجنب والمحدث مس المصحف إلا بغلاف متجاف عنه کالخریطة والجلد الغیر المشرز لا بما هو متصل به هو الصحیح. (الفتاوی الهندیة/ کتاب الطهارة 1/ 39 زکریا، الهدایة 1/ 64)، وکذا المحدث لا یمس المصحف إلا بغلافه. (الهدایة 1/ 64)

ولا یجوز لهم أي للجنب مس المصحف إلا بغلافه. (کبیري 58، الفتاویٰ الهندیة 5/ 137).

 والله أعلم

تاريخ الرقم: 6/5/1440هـ 13/1/2019م الأحد

Join our list

Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.

Thank you for subscribing.

Something went wrong.

Leave a Reply