حضرت عائشہ صديقہ كى فضيلت اور ان كا علمى مقام
بقلم: منتشا عارف غازى ، على گڑھ، متعلمہ عالىہ خامسہ
تمام ازواجِ مطہرات کا مقام و مرتبہ بہت بلند و بالا ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انهىں امهات المؤمنين كے گراں قدر خطاب سے نوازه ،اوراپنی سب سے محبوب ہستی اور آخرى پيغمبر كى شريك حيات کے ليے چنا۔ دنیا کی کوئى بھی عورت وہ چاہے کتنی ہی نیک کیوں نہ ہو ازواجِ مطہرات درجہ کو ہرگز نہیں پہنچ سکتی۔ ان كا مقابلہ ہر گز نہیں کر سکتی۔ تاريخ اور سير كى كتابيں ان كے فضائل ومناقب سے لبريز ہىں، زہد وقناعت، تقوى وطہارت، عبادت ورياضت، دينى حميت وغيرت، دلجوئى ودل سوزى، سوكنوں كے ساتھ حسنِ معاشرت اور برتاؤ ، شوہر كے حقوق ادا كرنے مىں كوئى ان كا ثانى نہىں تھا۔
زواجِ مطہرات کی زندگیاں حکمرانوں اور مملکت کے سربراہوں کی بیگمات کی زندگیوں سے بالکل الگ تھیں ، عام طور پر باشاہوں کی بیگمات نہایت پر آسائش زندگی گزارتی ہیں، ان کی خدمت اور سہولت کے لیے نعمتوں کی فراوانی اور خدمت گزاروں کی کثرت ہوتی ہے، اقتدار کا نشہ ان کے پاؤں زمین پر نہیں رکھنے دیتا، اس کے بر خلاف ازواجِ مطہرات نے عائلی اور خانگی زندگی عسرت وتنگ دستی میں گزارا ، فاقے پر فاقے کئے، کئی کئی دن تک ان کے گھروں چولہے بھی نہ جلتے تھے ، مگر کیا مجال کہ کبھی بھی ان کی زبان سے کوئی حرفِ شکایت آیا ہو، اگر کبھی کہیں سے کچھ کھانے پینے کا سامان آتا بھی تھا تو اس کو بھی فقیروں اور محتاجوں پر خرچ کر دیتی تھیں۔ خودداری اور جود وسخا میں بھی ان کا کوئی جواب نہیں تھا ، تنگ دستی وعسرت میں بھی انھوں نے خود داری سے سودا نہیں کیا، کفایت شعاری اور بلند حوصلگی ان کاطرہ امتیاز تھا، رسول اللہ ﷺ سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے سے پہلے ہی انھیں رسول اللہ ﷺ کے حالات سے واقفیت ہوتی تھی ، انھیں یہ علم تھا کہ آپ سے رشتہ کرنے سے انھیں تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑے گا، آرام و آسائش تج دینا پڑے گا، فاقے پر فاقے کرنے پڑیں گے ، مگر قربان جائیے امت کی ماؤں پر سب کچھ جاننے کے باوجود انھوں نے اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹائے، اور رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا جز ہو کر دعوتِ حق کو پھیلانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
وہ آستاں نہ چھٹا تجھ سے ایک دم کے لیے
کسی کے شوق میں تو نے مزے ستم کے لیے
نام ونسب اور بچپن
انہی خوش نصيب ازواج مطہرات میں حضور اكرم ﷺ كى سب سے چہىتى اور لاڈلى بيوى حضرت عائشہ بھی ہیں۔آپکا نام عائشہ اور لقب حمیرا، اور صدیقہ ہے۔ آپکی کنیت ام عبد اللہ ہے۔ آپ رسول الله ﷺ كے يارِ غار ابو بکر صدیقؓ كى صاحبزادى ہىں ،آپ قریش کے خاندان بنو تیم سے تھیں۔ آپکا سلسہ نسب کچھ اس طرح ہے۔ عائشہ بنت ابو بکر صدیقؓ بن ابی قحافہ بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوى۔ آپکی والدہ کا نام ام رومان بنت عامر تھا اور وہ بھی ایک جلیل القدر صحابیہ تھیں۔حضرت عائشہ کے بچپن کا زمانہ صدیقِ اکبر جیسے جلیل القدر باپ کے زیرِ سایہ بسر ہوا۔ حضرت عائشہ بچپن ہی سے بہت ذہین تھیں ۔ آپکو اپنے بچپن کی تمام باتیں یاد تھیں۔
حضرت عائشہ کا نکاح
حضرت عائشہ کا نکاح نبی كريم ﷺ سے چھ سال کی عمر میں ہجرت سے تین سال پہلے ہوا۔ حضرت عائشہ کا نکاح بہت ہی سادگی سے ہوا۔ رخصتی کے بعد حضرت عائشہ نے مسجد کے ارد گرد بنے حجروں میں سے ایک حجرے میں قیام فرمایا۔جس حجرے میں حضرت عائشہ نے قیام فرمایا وہ کوئى اونچی اور خوبصورت عمارت نہیں تھی بلکہ ایک سادہ سا حجرہ تھا۔ حضرت عائشہ نے اپنی تمام زندگی اسی حجرے میں گزاری جہاں نبیﷺ وصال فرماکر مدفون ہیں۔
واقعہ افك اور حضرت عائشہ كى براءت
حضرت عائشہ کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ جب منافقین نے آپ پر تہمت لگائى تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپکی براءت میں قرآن کریم کی آیات اتاریں ۔اس واقعہ کو ہی واقعہ افک کہتے ہیں۔
اس كى تفصيل يہ ہے كہ جب نبي كريم ﷺ غزوہ بنی المصطلق میں تشریف لے گئے تو حضرت عائشہ بھى ساتھ تھیں۔ جب آپﷺوہاں سے واپس تشریف لانے لگے، تو قافلہ کو چلنا تھا،قافلے کے لوگ جیسے جیسے تیار ہوتے رہتے چلتے رہتے تھے،سینکڑوں بلکہ ہزاروں اونٹ ہوتے تھے،چلتے ہوئے بھی گھنٹوں لگ جاتے تھے، حضرت عائشہ نے سوچا کہ قافلہ میں جانا ہے ،پتہ نہیں سفر میں کتنا وقت لگ جاۓ،کیوں نہ میں قضائے حاجت وغيرہ سے فارغ ہو جاؤں،ان دنوں بيت الخلاء كا رواج نہىں تھا مرد عورت سب كے سب قضائے حاجت کے لئے کھیتوں میں جایا کرتے تھے،چنانچہ حضرت عائشہ ذرا دور چلی گئىں ، جب فارغ ہوکر واپس آئىں تو آپکو ہودج میں بیٹھنا تھا،جسکو سواری کے اوپر رکھتے تھے۔
اتنے میں آپ نے محسوس کیا کہ میں نے جو ہار گلے میں پہن رکھا تھاوہ کہیں ٹوٹ کر گر گیا ہے، سوچا کہ ابھی تو روانہ ہونے میں وقت ہوگا،میں جاکر ہار دیکھ لیتی ہوں،آپ ہار ڈھونڈنے واپس تشریف لے گئىں ، پیچھے صحابہ نے سوچا کہ آپ تشریف تو لے آئى تھیں، بیٹھ گئى ہونگی ، لہٰذا لوگوں نے ہودج کو اٹھا کر سواری کے اوپر رکھ دیا،آپکی عمر کم تھی اور وزن بھی کم تھا، چنانچہ لوگوں کو پتہ نہ چلا کہ آپ اس میں ہیں یا نہیں۔
اب قافلے والے تو چلے گئے جب حضرت عائشہ واپس آئىں تو دیکھا کہ وہ جگہ تو خالی ہے اور قافلہ جا چکا ہے، آپکو اطمینان تھا،کہ جب نبی ﷺ کو پتہ چلے گا تو کسی نہ کسی کو بھیج دیں گے ، چنانچہ آپ وہیں پر بیٹھ گئىں، تھوڑی دیر بعد نیند غالب آ گئى آپ چادر اوڑھ کر گئىں ۔
نبی ﷺ کی عادتِ مبارکہ تھی کہ جب سارا قافلہ چلا جاتا اگر رات کا وقت ہوتا تو صبح کے وقت کسی ایک صحابی کو بھیج تے کہ کہیں کوئى چیز پیچھے پڑی تو نہیں رہ گئى، آپ نے ایک بدری صحابی حضرت صفوان بن معطل جو پکّی عمر کے تھے اس كام كے ليے تعینات فرمایا تھا، چنانچہ جب وہ آئےتو انہوں نے کسی کو چادر اوڑھ کر سوتےہوئے ديكھا تو قریب آئے تو پہچان لیا کہ یہ تو نبیﷺ کی زوجہ محترمہ ہیں انہوں نے بلند آواز میں کہا: إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ، آواز کو سن کر حضرت عائشہ جاگ گئىں اور جو چادر آپنے اوڑھ رکھی تھی اس سے اپنے بدن کو اچھی طرح ڈھانپ لیا،چنانچہ انہوں نے اپنے اونٹ کو بٹھایا اور حضرت عائشہ اس پر سوار ہو گئیں ، حضرت صفوان نے مہار پکڑی اور آگے آگے چلنے لگے۔
جب وہ حضرت عائشہ كو لے كر لشكر ميں پہنچے تو وہ دوپہر كا وقت تھا، عبد الله بن ابى اور دوسرے منافقین كو الزام تراشى كا موقع مل گيا، انھوں نے واہى واہى تباہى بكنا شروع كرديا، جب حضورﷺ کوان كى چہ ميگوئىوں كا کا علم ہوا توآپ بیحد پریشان ہوئے آپکو سخت صدمہ ہوا، مدينہ پہونچ كر حضرت عائشہ بيمار پڑ كر انتہائى لاغر اور كمزور ہو گئىں ، ابھى تك آپ كو منافقين كى افتراء پردازيوں كا مطلق علم نہ تھا، ايك مرتبہ رات مىں ام مسطح کے ساتھ قضائے حاجت کے لئے باہر نکلی ،وہ ایک جگہ قدم اٹھانے لگیں تو انہیں ٹھوکر لگ گئى انہوں نے اپنے بیٹے کے لئےبددعا کردی ، میں نے کہا آپ اپنے بیٹے کےلئےبددعا کیوں کر رہی ہیں تو انہوں نے کہا کہ آپکو نہیں پتا وہ آپکے بارے میں کیا کہ رہا ہے؟ میرے پوچھنے پر انہوں نے ساری تفصیل بتا دی کہ اس وقت شہر میں آپ کے بارے میں کیا کیا باتیں ہو رہی ہیں، فرماتی ہیں کہ جب میں نے یہ باتیں سنیں تو میرے دل پر بڑا صدمہ ہوا۔ میں گھرےآئى اور حضور کا انتظار کرنے لگی،جب حضور مسجد سے تشریف لائے تو میں آپکے سامنےآئى اور سلام کیا آپنے میرے سلام کا جواب دیا لیکن چہرہ مبارک دوسری طرف کرلیا میں دوسری طرف آئى تو آپنے نگاہیں دوسری طرف کر لیں، آپکی خاموش نگاہوں نے مجھے بہت کچھ سکھا دیا کہ ابھی محبوب کی طبیعت پر بوجھ ہے ابھی كوئى بات آپ کرنا نہیں چاہتے۔ میں نے سوچا کہ اپنے والدین کے گھر چلی جاتی ہوں،حضور سے اجازت مانگی آپنے اشارے سے اجازت دیدی۔ میں اپنے والدین کے یہاں چلی گئى،دروازہ کھٹکھٹایا والدہ نے دروازہ کھولا میں نے دیکھا کہ رو رو کر والدہ کی آنکھیں سوج چکی ہیں میں پوچھا کیا ہوا تو انکی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے،میں والد کے بارے میں پوچھا کہ کہاں ہیں؟ تو والدہ نے اشارہ کر دیا میں نے دیکھا کہ والد قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے اور ہر ہر آیت پر آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے اور وہ دعائىں مانگ رہے تھے۔ میں نے جب غم کا ماحول دیکھا تو میں اور زیادہ پریشان ہوگٸ کہ اب کہاں جاٶں جو میری زندگی کے رکھ والے تھے وہ مجھ سے ناراض ہیں ،والدین بھی آج جدا ہیں، میرے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے رب کا دروازہ کھٹکھٹاؤں، چنانچہ فرماتی ہیں کہ میں نے وضو کیا اور ایک کونے میں جاکر مصلّیٰ بچھایا اور سجدہ میں سر رکھ کر دعائىں مانگنے لگی، کہ اے اللہ، اے میرے پوردگار، اے بے سہاروں کے سہارے ، اے مظلوموں کے پروردگار، اے کمزوروں کی سننے والے آقا تیرے مقرّب بندوں پر جب بھی کوئى ایسا وقت آیا تو نے انکی مدد کی ،اللہ جب یوسف پر بات بنی تھی توآپنے انکی پاکدامنی کی گواہی دلواٸ، اللہ جب مریم پر بات بنی تھی توآپنےبرأت دلوائى ،اللہ آج آپکے محبوب کی حمیرا پر ایسی ہی باتیں بن رہی ہیں آپ میری مدد فرمائىں اللہ میرے محبوب نے بھی میرے ساتھ بات کرنی چھوڑدی ہے اللہ آپکے سوا کوئى ذات نہیں ہے جو دکھی دلوں کو تسلّی دے سکے ،جو غمزدہ دلوں کو اطمینان دے سکے، رو رو کر دعائىں کر رہی ہوں۔
ادھر بھی دعائىں مانگی جا رہی ہیں ،ادھر والدین بھی دعائىں مانگ رہے ہیں ، اور آقا ﷺ نے مسجدِ نبوی میں مجلسِ مشاورت قائم کی ہوئى ہے، حضرت ابو بکر تو گھر پر ہیں لیکن اور صحابہ موجود ہیں ،محدّثین نے اسکا عجیب منظر لکھا ہے فرماتے ہیں کہ آقا غمزدہ بیٹھے تھے صحابہ کے چہروں پر بھی اداسی تھی ،انہوں نے جب اپنے محبوب کو اداس دیکھا تو انکی حالت بھی عجیب ہوگئى ،بعض صحابہ تو سسکیاں لےلےکر رو رہے تھے، نبیﷺ نے اپنے یاروں سے پوچھا ،کہ تم اس معاملہ میں کیا کہتے ہو ؟ سب سے پہلے حضرت عمر سے پوچھا عمر تم بتاٶ کہ کیا معاملہ ہو سکتا ہے؟ حضرت عمر نے کہا کہ اے اللہ کے محبوب اللہ تعالیٰ نے آپکو عزت وشرافت بخشی ایک مکھی کو بھی آپکے بدن پر بیٹھنے کی اجازت نہیں ،جب ایک گندی مکھی کو بیٹھنے کی اجازت نہیں تو آپکی رفیقہء حیات ایسی کیسے ہو سکتی ہے،جسکے اندر گناہوں کی نجاست ہو ؟اسلئے مجھے تو یہ بات ٹھیک نظر نہیں آتی۔نبیﷺ نے حضرت عثمان سے پوچھا عثمان تم بتاؤ کہ کیا معاملہ ہو سکتا ہے؟ حضرت عثمان نے نبوّت کی صحبت کا حق ادا کردیا ،عرض کیا ،اے اللہ کے محبوب اللہ نے آپکو ایسا بنایا ہے کہ بادل آپ پر سایہ کرے رکھتا ہے،آپکا سایہ زمین پر نہیں پڑتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی کا پاؤں آپکے سایہ پر پڑ جاۓ،جب اللہ تعالیٰ نے آپکے ادب کا اتنا لحاظ رکھا کہ کسی غیر کے قدم آپکے سایہ پر نہیں پڑ سکتے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی کو آپ کی زوجہ مطہرہ پر قدرت حاصل ہو جائے، لہٰذا یہ چیز مجھے تو ہمارے وہم وگمان سے بھی باہر ہے، انکی بات سن کر آپ خاموش ہو گئے،پھر آپنے حضرت علی سے پوچھا کہ علی تم بتاؤ کہ کیا معاملہ ہو سکتا ہے ؟ حضرت علی نے عرض کیا کہ اے اللہ کے محبوب ایک مرتبہ آپکی چپل سے نجاست لگی ہوئى تھی آپ چاہتے تھے کہ پہن لیں لیکن اللہ نے حضرت جبرائيل کو بھیج کر آپکو بتا دیا تھا ،اگر آپکے گھر کے ساتھ ایسا کوئى معاملہ ہوتا تو آپ کو کیوں نہ بتا دیا جاتا؟ اس لئےمجھے بھى تو یہ بات ٹھیک نظر نہیں آتی،نبی ﷺ خاموش ہو گئے،آپکی غمزدہ خاموشی کو دیکھ کر حضرت علی دوبارہ بولے کہ اے اللہ کے محبوب اگر آپکی طبیعت بہت غمزدہ ہے تو اگر آپ چاہیں تو طلاق دےدیں آپ کےلئے کونسا بیویوں کی کمی ہے اللہ تعالیٰ آپکو اور بیوی عطا فرمادیں گے یہ سن کر حضرت عمر جوش میں آگئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے محبوب آپ یہ بتائىں کہ یہ آپکی پسند کی تھی شادی یا کسی اور کی اللہ کے نبی نے اوپر کی طرف اشارہ کر دیا کہ یہ تو میرے رب کی پسند تھی ،حضرت عمر نے عرض کیا کہ بس اب میری تلوار جانے اور ان منافقین کی گردنیں جانیں یہ اللہ کی پسند کے بارے میں ایسا کیسے کہ سکتے ہیں ،اللہ کے حبیب نے حضرت عمر کو محبّت کی نگاہوں سے دیکھا ،گویا کہ کہ رہے ہوں کہ عمر تونے میرا غم ہلکا کر دیا ،پھر نبیﷺ اٹھے اور مجلس برخاست ہو گئى۔
آپ حضرت ابوبکرؓ کے یہاں یہ معلوم کرنے کے لئے تشریف لے گئےکہ اب حمیرا کا کیا حال ہے ؟نبیﷺ نے دستک دی ابوبکرؓ کی اہلیہ محترمہ نے دروازہ کھولا،نبی ﷺ نے دیکھا کہ رو رو کر انکا برا حال ہو چکا ہے، جب حضرت ابوبکرؓ کی طرف دیکھا تو انکا بھی رو رو کر برا حال ہو چکا تھا،آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں ،اور سوج چکی تھیں۔آپنے پوچھا حمیرا نظر نہیں آرہی حمیرا کہاں ہے؟ انہوں نے ایک کونے کی طرف اشارہ کر دیا،اس وقت حضرت عائشہ سجدہ میں دعائىں مانگ رہی تھیں،بعد میں فرماتی ہیں کہ جب آقا تشریف لائے تو میرے دل میں خیال آیا کہ ابھی اپنے محبوب کے قدموں سے چمٹ جاؤں اور خوب رو لوں کہ میرے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے،لیکن پھر خیال آیا کہ عائشہ تونے اپنی فریاد اپنے رب سے کہ لی ہے اب اسی سے مانگ وہ ہی تیرا نگہبان ہوگا،چنانچہ نبی ﷺ نے فرمایا حمیرا ،آپکی آواز سنتے ہی حضرت عائشہ نے سجدہ مکمّل کیا اور آکر چارپائى پر خاموش بیٹھ گئىں،آپ بھی قریب بیٹھ گئے،آپنے پیار سے سمجھایا کہ حمیرا اگر واقعی تجھ سے كوئى ایسی غلطی ہوگئى ہے تو معافی مانگ لے اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے ہیں، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اس وقت تک تو میں خاموش بیٹھی تھی لیکن اب میرے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے ،میری آنکھوں سے آنسو آنا شروع ہوگئے،میں روتی رہی مگر خاموش تھی، روتے ہوئے میں نے کہا کہ میں وہی کہوں گی جو یوسف کے والد نے کہا تھا ”انما اشکوا بثّی و حزنی الی اللہ“کہ میں اپنا غم اور شکوہ اپنے رب سے کہتی ہوں،فرماتی ہیں کہ جب میں نے یہ بات کہی تو میں نے نبیﷺ کے چہرہ انور کی طرف دیکھا ،آپکی پیشانی پر پسینے کے قطرے دیکھے ،آپ پر وہ حسین کپکپی دیکھی جو وحی کے نزول کے وقت ہوا کرتی تھی،محبوب کے اوپر غنودگی سی طاری ہوتی گٸ،آپنے اپنے اوپر چادر لےلی، فرماتی ہیں کہ میں تو سکون سے بیٹھی تھی،میرے دل میں خیال تھاکہ اللہ تعالیٰ انکو القا فرمادیں گے ،یا نیند میں کوئى خواب دکھا دیں گے،اور وضاحت فرمادیں گے،مگر میرے والدین پر وہ چند لمحے بڑے عجیب تھے میں نے اپنے والد کو دیکھا کہ تڑپ رہے ہیں کہ وحی نازل ہورہی ہے ،پتہ نہیں میری بیٹی کی قسمت کا کیا فیصلہ ہوتا ہے،والدہ کی آنکھوں میں بھی آنسو اور والد کی آنکھوں میں بھی آنسو،فرماتی ہیںکہ میں آرام سے بیٹھی تھی،تھوڑی دیر میں میرے محبوب نے چہرہ انور سے کپڑا ہٹایا،تو چہرہ انور کپڑے سے ایسا باہر نکلا جیسے چودھویں کا چاند ہو،فرماتی ہیں کہ میں نے چہرہ انور پر بشاشت دیکھی میں سمجھ گئى کہ اللہ تعالیٰ نے رحمت فرمادی ہے۔نبی ﷺنے فرمایا عائشہ مبارک ہو اللہ نے رحمت فرمادی ہے ۔والدہ نے کہا کہ بیٹی نبی کا شکر ادا کرو حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میری توجّہ اپنے رب کی طرف گئى،فرمانے لگیں کہ میں اپنے رب کا شکر ادا کرتی ہوں جس نے محبوب کی حمیرا کی فریاد سنی۔ حضرت عائشہ کی برأت میں سورہ نور آیتیں نازل فرمائىں اللہ ربّ العزت نے اور صرف یہی نہیں کہ برأت فرمادی بلکہ آگے یہ بھی فرمادیاکہ تمہیں اتنا عرصہ جو پریشان رہنا پڑا،اس کے بدلے میں”تمھارے لئےمغفرت اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا اجر ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَكُمْ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ (11) لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَذَا إِفْكٌ مُبِينٌ (12) لَوْلَا جَاءُوا عَلَيْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَإِذْ لَمْ يَأْتُوا بِالشُّهَدَاءِ فَأُولَئِكَ عِنْدَ اللَّهِ هُمُ الْكَاذِبُونَ (13) وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِي مَا أَفَضْتُمْ فِيهِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (14) إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُمْ مَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمٌ (15) وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَذَا سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ (16) يَعِظُكُمُ اللَّهُ أَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (17) وَيُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (18) إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (19) وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ (20) [النور: 11-20]
اور آگے الله تعالى نے فرمايا:
{ إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (23) يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (24) يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمُ اللَّهُ دِينَهُمُ الْحَقَّ وَيَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِينُ (25) الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ أُولَئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (26)} [النور: 23 – 26]
ان آيات مىں حضرت عائشہ كى فضيلت ومنقبت ظاہر وباہر ہے، الله تعالى ان كو الزامات سے برى فرماىا، اور ان طىبہ كے خطاب سے نوازہ، اور ان كے لئے مغفرت اور رزق كريم كا وعدہ فرمايا، مريم صديقہ كى طرح حضرت عائشہ كى كى طہارت ونزاہت بے مثال ہے، اور اس طہارت ونزاہت كا اعلان قيامت تك جارى رہے گا۔
يہ حوصلہ بلند ملا جس كو مل گيا
ہر مدعى كے واسطے دارو رسن كہاں
حضرت عائشہ اور تيمم كا تحفہ
حضرت عائشہ کی ایک اور بڑی فضیلت یہ ہے کہ تیمم کا حکم آپ کے ہی ذریعہ نازل ہوا،اسکا واقعہ یہ ہے ایک اور سفر میں حضرت عائشہ نبیﷺ کے ساتھ تھیں،اور وہی ہار گلے میں تھا ،قافلہ واپس ہوکر مقام ذات الجیش میں پہنچا تو وہ ہار ٹوٹ کر گر پڑا ۔حضرت عائشہ کو پہلے واقعے سے تنبیہ ہو چکی تھی اس لۓ آپ نے سب سے پہلے نبی ﷺ کو مطلع فرمایا، صبح قریب تھی قافلہ نے پڑاؤ ڈالا آپنے ایک شخص کو ہار کی تلاش میں دوڑایا،اتفاق یہ ہواکہ جہاں فوج نے پڑاؤ ڈالا وہاں پانی مطلق نہ تھا،نماز کا وقت ہو گیا،لوک گھبرائے ہوئے حضرت ابوبکر کے پاس آئےکہ عائشہ نے لوگوں کو کس مصیبت میں ڈال رکھا ہے،حضرت ابوبکر بیٹی کے پاس آئے تو دیکھا کہ نبیﷺ انکی زانو پر سر رکھے ہوۓ آرام فرمارہے ہیں،حضرت ابو بکر نے بیٹی سے کہا کہ تم ہر بار لوگوں کے لئےنئى مصیبت لاتی ہو،اور غصّہ سے ان كو كئى کونچے دىئے لیکن وہ آپکے آرام کی خاطر ہل بھی نہ سکیں۔ صبح کو جب نبیﷺ بیدار ہوۓ تو سارا واقعہ آپکو معلوم ہوا ،اسلام کہ تمام احکام کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ ہمیشہ مناسب واقعات کی تقریب سے نازل ہوۓ ہیں ،نماز کےلئے وضو فرض تھا لیکن بیسیوں مواقع ایسے آئے ہیں جہاں پانی نہیں ملتا چنانچہ یہ واقعہ بھی اسی قسم کا تھا۔چنانچہ اس موقع پر ”سورہ نساء۶ آیت نمبر ٤٣ نازل ہوئى ،ترجمہ ”اگر تم سفر میں ہو،یا حاجت ضروری سے فارغ ہوئے ہو،یا عورتوں سے مقاربت کی ہےاور تم پانی نہیں پاتے تو پاک مٹی کا قصد کرواور اس سے کچھ منھ اور ہاتھ پر پھیر لو۔اللہ معاف کرنے والا بخشنے والا ہے۔ جب روانہ ہونے کےلئے جب اونٹ کو اٹھایا تو ہار اسکے نیچے پڑا ملا۔
حضرت عائشہ كى علمى شان
حضرت عائشہ کے علم و فضل کا عالم یہ تھا کہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ ہم اصحاب محمد کو جب بھی کوئى علمی مشکل پیش آئى ہم نے حضرت عائشہ کے پاس اسکا علم پایا ہے۔ نامور تابعی حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ میں نے بزرگ صحابہ کو دیکھا کہ وہ حضرت عائشہ سے علم الفرائض اور وراثت کے مس پوچھا کرتے تھے۔حضرت عائشہ قرآن،حدیث،فقہ،شعر،عرب کی تاریخ اور انکے انساب پر سند اعلیٰ سمجھی جاتی تھیں۔نامور تابعی حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ میں نے قرآن،علم الفرائض،حلال و حرام،شعر،عربک کی تاریخ،اور انکے انساب پر حضرت عائشہ سے زیادہ کسی کو عالم نہیں پایا۔ابنِ عبد البر کے بقول حضرت عائشہ تین علوم میں اپنے عہد میں طاق تھیں یعنی علم الفقہ،علم الطب، اور علم الشعر ام المومنین کو سینکڑوں اشعار و قصائد بھی یاد تھے ”بحوالہ سیرت خیرالانام ﷺ صفحہ نمبر ٦٠٤۔
امام زہری فرماتے ہیں کہ اگر حضرت عائشہ کے علم کو تمام ازواج بلکہ تمام خواتین کے علم کے ساتھ جمع کیا جاۓ تو حضرت عائشہ کا علم بڑھ جاۓگا۔ابنِ حزم نے حضرت عائشہ کا شمار ان سات صحابہ میں کیا ہے جنکے فتاویٰ عہد صحابہ میں سب سے زیادہ چلتے تھے۔ امام ذہبی فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ فقہ میں امّت کی تمام عورتوں سے زیادہ عالمہ تھیں۔
امام زرکشی نے اپنی کتاب المعتبر میں صراحت کی ہے کہ مسائل فقہ میں حضرت عمر اور حضرت علی حضرت عائشہ سے سوال پوچھتے تھے۔ام المومنین کی ذات مسلمانوں کے لئے ایک ایسی دانش گاہ تھی جس سے خواتین سمیت تمام صحابہ نے فیض حاصل کیا۔ اور حضرت وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نےمکمل قرآن مجید حفظ کیا۔ازواجِ مطہرات کا یہ علمی اور فکری فیضان خواتین کی فکری بیداری کی صورت میں آج تک موجود ہے۔
پروفیسر محمد رضا خان نے حضرتِ عائشہ کے حالاتِ زندگی اور خدماتِ اسلام کا خلاصہ ان الفاظ میں کیا ہے”کاشانہ نبوّت میں نبی کے فیض سے آپکی خداداد قابلیتوں کو وہ جلا ملی کہ عورتوں کے بارے میں اکثر مسائل امّت نے آپ سے سیکھے۔ ایک عالم کاقول ہے کہ میں نے آدھا دین حضرت عائشہ کی برکت سے سیکھا۔”بحوالہ پروفیسر محمد رضا خان،تاریخ مسلمانانِ عالم صفحہ نمبر ٩٢“
حضرت عائشہ سے مروی روایات کی. کل تعداد ٢٢١٠ ہے ان میں سے ١٢٩٧ صحیحین میں شامل ہیں،اور ان میں سے ١٧٤ متفق علیہ ہیں،اور بخاری میں ے٥٤ اور مسلم میں ٩٩ ہیں۔
حضرت عائشہ کی فضیلت کے متعلق نبی ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ عائشہ کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہی ہے جیسی کہ ثرید”ایک قسم کا کھانا جو نبیﷺ کو بےحد پسند تھا“کی فضیلت باقی کھانوں پر ۔
حضرت عائشہ کی کچھ صفات حمیدہ
حضرت عائشہ بہت عبادت گزار ،کثرت سے روزے رکھنے والی اور تہجد کی پابند تھیں۔ اور فضائل اخلاق کے لحاظ سے بھی آپکا مرتبہ بہت بلند تھا۔آپ بےحد فیاض،مہمان نواز،اور غریب پرور تھیں۔آپکا دل مہر و محبت اور عفو و شفقت کا خزینہ تھا۔آپ دشمنوں اور مخالفوں تک کو معاف کر دیا کرتی تھیں۔آپکو غیبت اور بد گوئى سے سخت اجتناب تھا،آپ سے مروی کسی بھی حدیث میں کسی شخص کی توہین یا بدگوئى کا ایک لفظ بھی نہیں ہے۔وسعت قلب کا یہ عالم تھا کہ اپنی سوکنوں کی خوبیاں اور مناقب خوش دلی سے بیان کرتی تھیں۔حضرت عائشہ اپنی سوکنوں کے ساتھ بے حد الفت و محبت انصاف اور عزت کا برتاؤ کرتی تھیں۔اور بہت کھلے دل سے انکی نیکیوں،خوبیوں،اور تعریفوں کا اظہار کرتی تھیں۔کبھی کبھی بشری فطرت سے کوئى خلاف فعل سرزد ہو جاتا تو بہت جلد نادم ہوجاتیں اور قصور معاف کرا لیتی تھیں۔
حضرت عائشہ کی وفات
حضرت عائشہ نے رمضان ٥٨ ہجری میں ٦٧ سال کی عمر میں وفات پاٸ۔ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ وصیت کے مطابق رات کو بعد نمازِ وتر جنّةالبقیع میں دفن ہوئیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے نمازِ جنازہ پڑھائى۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ کی مبارک زندگی ہماری ماؤں بہنوں کےلئے نمونہ ہے۔
حضرت عائشہ کی فضیلت اور مناقب میں سیرت خیرالانام کا فاضل مقالہ نگار صفحہ نمبر ٦٠١ پر لکھتا ہے ۔” حضرت عائشہ کی زندگی ایک خانہ دار مسلمان خاتون کے لۓ نمونہ ہے جو اپنے گھر کی مکمل نگہداشت کرتی ہے،اور اپنے گھر کے ماحول کو اللہ اور اسکے رسولﷺ کے احکام کے مطابق ایک مثالی صورت دینے کی تگ و دو میں مصروف رہتی ہے۔“
ہماری مسلمان ماؤں بہنوں کو چاہئے کہ خود کو حضرت عائشہ کی طرح علم سے آراستہ کریں۔ اپنے گھر کو حضرت عائشہ کى طرح ایک اسلامی گھر بنائیں۔اور حضرت عائشہ کی طرح ایک با پردہ خاتون بن کر زندگی گزاریں۔اور حضرت عائشہ کی طرح اپنے شوہروں کی خدمت کریں انسے محبّت کریں انکی ہر بات کو ماننا اپنا فرض سمجھیں اور اپنے شوہروں کی خدمت گزاری میں وقت گزاریں۔ وہ اپنے شوہروں کی پردہ پوشی کریں، انکی شکر گزار بنیں، اپنے شوہروں کو سب سے زیادہ عزت دیں نہ کہ انکی بے عزتی کریں،انکے عیبوں،انکی غلطیوں کے پوسٹر لگاتی اور خبریں چھپواتی پھریں۔ہماری مسلمان ماؤں بہنوں کو چاہۓ کہ زہدو تقویٰ، قناعت پسندی،انسانی ہمدردی،اور خدمتِ خلق کو ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کی سیرتِ مبارکہ کی روشنی میں اپنا شعار بنائیں۔ غیبت،جھوٹ،چغلی،بدگمانی اور ہر طرح کے گناہ سے حضرت عائشہ کی طرح بے حد اجتناب کریں۔
Join our list
Subscribe to our mailing list and get interesting stuff and updates to your email inbox.